آج کا مسلمان اور جہاد

ملا کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو۔۔۔۔۔۔

پریس کانفرنس

وقار عادل

جہاد اللہ رب العزت کا محکم فریضہ اور ایک عظیم الشان مستقل عبادت کا نام ہے ،جس کا تذکرہ اللہ رب العزت نے قرآن مقدس کی پانچ سو ستاون آیاتِ مبارکہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب سے اللہ پاک نے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر جہاد کی عبادت کو نازل فرمایا تب سے لیکر آج تک مشرکین،مستشرقین ،کفار اور اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے منافقین نے سب سے زیادہ اسلام کی جس عبادت کو مٹانے کی کوشش کی ہے وہ یہی جہاد وقتال کی عبادت ہے اور مذہب اسلام کو دنیا میں جب بھی عروج اور بالادستی حاصل ہوئی وہ جہاد فی سبیل اللہ ہی کے راستے کو اختیار کرنے کی وجہ سے حاصل ہوئی،آج کے زمانے ہی کو دیکھ لیجئے دنیا کے پونے دو سو ممالک کی حکومتیں امریکہ کی قیادت میں جمع ہو کر مسلمانوں کے جذبہئ جہاد کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں،لیکن افغانستان،عراق،فلسطین اور کشمیر کے مجاہدین کے بے مثال جذبہئ جہاد نے کافروں کے سرغنوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں،کیونکہ جہادوقتال کی مقدس عبادت سے کافر اور منافق ہمیشہ ڈرے اور سہمے رہتے ہیں،اس لئے جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف فتنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے،ممتاز جہادی مفکر اور 26سے زائد کتابوں کے مصنف حضرت مولانا محمد مسعود ازہر نے خلاصے کے طور پر ان فتنوں کو سات قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے تین اقسام کا تذکرہ اس کالم میں کیا جا رہا ہے ،پہلا فتنہ انکار جہاد کا ہے یعنی کچھ لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر جہاد کے بھی منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اب جہاد نہ تو مشروع ہے اور نہ ہی ممکن ...یہ لوگ مرزاقادیانی دجال کی جمع کردہ تاویلات کا سہارا لیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ نماز،روزے کی طرح جہاد کا منکر بھی کافر ہے ،دوسرا فتنہ اقدامی جہاد(جو اصل جہاد ہے)کا انکار ...اس فتنے میں مبتلالوگ عمومی طور پر دینداری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں،لیکن کافروں کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر اسلام کے قابل فخر تاریخی واقعات پر معذرت اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں اس لئے یہ لوگ تاویلات کا سہارا لیکر اُس اقدامی جہاد کا انکار کر دیتے ہیں،جو قرآن واحادیث سے ثابت ہے ...تیسرا فتنہ آیات جہاد میں تحریف معنوی کا ہے ...جس طرح یہودی تورات کی آیات میں تحریفِ معنوی کرتے تھے،یعنی الفاظ درست پڑھتے تھے،ترجمہ بھی ٹھیک کرتے تھے،مگر تشریح کرتے ہوئے ڈنڈی مارجاتے تھے اور وہ مطلب بیان کرتے تھے جو ان کا من گھڑت اور من پسند ہوتا تھا،بالکل اسی طرح آج آیاتِ جہاد کو ٹھیک پڑھا جاتا ہے ،ترجمہ بھی درست کیا جاتا ہے، لیکن لفظِ جہاد کا وہ مطلب بیان نہیں کیا جاتا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا،سمجھا اور سمجھایابلکہ جہاد کا وہ مطلب بیان کیا جاتاہے جو من گھڑت اور من پسند ہے ،ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ میڈیکل یا کسی دوسرے شعبہ میں بھی کسی ایسے شخص کو رائے زنی کرنے کا حق نہیں دیا جاتا کہ جو اُس شعبہ کے اسرارورموز سے مکمل واقفیت نہ رکھتا ہو،لیکن اسلامی عبادات پر جس کا دل جو چاہتا ہے وہ اپنے من چاہے تبصرے کرتا رہتا ہے بدھ کے دن روزنامہ اوصاف میں ''سرکاری اہل کاروں کا کردار اور اغواء شدہ پاکستانی''کے عنوان سے چھپنے والے کالم میں جہاد افغانستان کا جس طرح سے مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہے وہ نہ صرف یہ کہ قابل گرفت بلکہ قابل مذمت بھی ہے موصوف کالم نگار اس سے قبل بھی اپنے اکثر کالموں میں علماء کرام کے حوالے سے انتہائی رکیک جملے استعمال کرتے آئے ہیں راقم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ میں نہ تو مولوی ہوں اور نہ ہی مولویوں کا وکیل ،اچھے بُرے لوگ ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں،لیکن موصوف محترم نے اپنے کالموں میں ''مولویوں''کو جس نفرت بھرے انداز میں طنع وتشنیع کا نشانہ بنائے رکھا اُس کو کم ازکم مہذبانہ کالم نگاری کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا ''مولوی'' سیاسی ہوں یا غیر سیاسی وہ بہر حال دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکتے ہیں، باقی ہر آدمی اللہ کے ہاں اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہوتا ہے موصوف کالم نگار خود کو انسانی حقوق کا چیمپیئن بھی کہتے ہیں لیکن انہیں کون سمجھائے کہ وہ خود اپنے کالموں میں ملتِ اسلامیہ کے ایک مقتدر طبقے کی بار بار توہین کر کے ...بنیادی اسلامی اور انسانی حقوق کی پامالی کا مؤجب بن رہے ہیں ...موصوف کالم نگار اپنے بدُھ کے کالم میں لکھتے ہیں ''کہ ملاؤں کی بقاء بھی اس میں تھی کہ وہ امریکہ کے مفادات کیلئے روس کو توڑنے کیلئے مساجد کو استعمال کریں، اور نوجوانوں کو جہاد کے نام پر بیوقوف بنا کر جہاد کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی بجائے دہشت گردی کی تربیت دیں اور امریکہ کی حمایت میں روس کو توڑنے لگ جائیں اور جو لوگ اس زمانے میں اس نام نہاد جہاد کی جو صرف امریکہ کے مفادات کیلئے لڑا جا رہا تھا مخالفت کرتے تھے تو ان کے خلاف پاکستان کی فوج کو استعمال کیا جاتا تھا''روس کے خلاف لڑے جانے والے تاریخی جہاد پر کس قدر گھٹیا اور بازاری جملے بازی ہے کہ جس کیو جہ سے نہ صرف یہ کہ افغان جہاد میں شامل دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی توہین کا پہلو نکلتا ہے بلکہ افغان جہاد کے 16لاکھ شہداء کے مقدس لہو سے مذاق اڑانے کی سنگین کوشش بھی جھلکتی ہے، سب سے پہلے تو موصوف ایڈووکیٹ صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ 1978-79میں ملاؤں نے فوج لیکر روس پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ روسی فوج کے درندے افغانستان میں داخل ہوئے تھے ،اور روسی فوج نے افغانستان کی مساجدومدارس ،بستیوں،دیہاتوں،شہروں کوجب تاراج کرنا شروع کیا اور بے گناہ افغان عوام پر ٹینکوں،نیپام بموں اور سکڈ میزائلوں سے قیامت توڑ ی،تو اس وقت افغانستان کے ''ملا'' اپنی قوم اور وطن کے دفاع کیلئے کچی بندوقوں اور پٹرول بموں سے لیس ہو کر سرخ ریچھ کے سامنے اعلان جہاد کر کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے مولوی کمانڈر جلال الدین حقانی،مولوی نصر اللہ منصور ؒ،کمانڈر مولوی احسان اللہؒ،مولوی ارسلان رحمانی،مولوی یونس خالصؒیہ وہی ملا ہیں کہ جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ۔
؎افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
کہ ملا کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو
نہتے افغان جب آہن پوش روسی فوجیوں کے سامنے ڈٹے تو پھر پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی جید علماء اور مفتیان کرام نے اپنے مسلمان بھائیوں کی جہاد میں مدد کرنے کا فتویٰ جاری کیا ...اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہے کہ جہاد کی حقیقت وہی ہے کہ جو قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام بیان کرتے ہیں اور اللہ کے نام پر جان قربان کرنے والا ''مجاہد'' کبھی بھی بیوقوف نہیں ہوتا ...انسانی حقوق کے خوشنما نعرے کی آڑ میں تو عوام کو بیوقوف بنا کر امریکہ اور برطانیہ کے چکر لگائے جا سکتے ہیں ،لیکن چلتی ہوئی گولیوں میں نعرہ حق بلند کرنے والے کبھی کسی کے بہکاوئے میں نہیں آسکتے،اگر کسی جنرل ضیاء الحق ،کسی امریکہ یا کسی حکومتی ایجنسی نے بعد میں افغان مجاہدین کی مدد کی تو ان کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں، موصوف ایڈووکیٹ محترم، امریکہ اور آئی ایس آئی سے وہ مجبوریاں پوچھ لیں ...کیونکہ وہ اُن کی چھتری کے نیچے ہی انسانی حقوق کے فرائض سرانجام دیتے ہیں،افغان مجاہدین حالت جنگ میں تھے انہوں نے امریکہ سے مدد لیکر روس کو توڑا ،لیکن جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تو معاف امریکہ کو بھی نہیں کیا ...اور زندہ قوموں کا یہی کردار ہوتا ہے جو افغان مجاہدین نے ادا کیا روس کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین پاکستان کے بہت بڑے محسن تھے کہ اُن کی وجہ سے پاکستان سرخ ریچھ کے توسیع پسندانہ عزائم سے محفوظ رہا،پاکستان کی مساجد کو کبھی بھی کسی ملک کو توڑنے کیلئے استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی مساجد میں بیٹھ کر ملک ٹوٹاکرتے ہیں ،ہاں یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی مساجد سے اُسی طرح مسئلہ جہاد ضرور بیان کیا جاتا رہا کہ جس طرح امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی ؐ میں بیٹھ کر بیان فرمایا کرتے تھے،کیونکہ جہاد وقتال بالکل ویسے ہی عبادت ہے کہ جیسے نماز ،روزہ،حج اور زکوٰۃ کی عبادت ہے اگر دوسری عبادات کے متعلق مساجد میں بیانات ہوتے ہیں تو جہاد جیسی مقدس عبادت کا ذکر بھی مساجد سے ہی بلند ہو گا، مسئلہ جہاد بیان کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ سامنے روس ہے امریکہ ہے ،یا بھارت ،جو طاقت بھی مسلمانوں پر حملہ آور ہو گی اُس ظالم ودہشت گرد طاقت کے خلاف مساجد ہوں یا مدارس ،سکول ہوں یا کالج،ہر ہر مسلمان میں نفرت کا جذبہ ابھرے گا،اور اپنے مسلمان بھائی کی حمایت میں اگر کوئی مسلمان اپنی طاقت کے مطابق حصہ ڈالتا ہے تو اُسے امریکہ کی طرف منسوب کر دینا کہاں کا انصاف ہے ؟کیا موصوف کالم نگار یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی مساجد میں خدانخواستہ امریکہ کا حکم چلتا ہے، امریکہ خدا ہے اُن کا کہ جو پروردگار عالم کے سامنے جھکنا نہیں جانتے ،۔۔۔۔۔۔اور جو مجاہدین برستی گولیوں میں بھی سجدہ نہ قضا ہونے دیں ۔۔۔۔۔۔وہ امریکی نہیں ،محمدیؐ ہوتے ہیں ،میں اگر چاہوں تو اس موضوع پر الحمدللہ پوری کتاب لکھ سکتا ہوں لیکن اسی پراکتفا کرتے ہوئے اپنے شعبہ سے وابستہ دوستوں سے گزارش کروں گا کہ وہ مثبت تنقید ضرور کریں ...لیکن جہاد مقدس سمیت اسلامی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہوئے اُس کی تمام تر باریکیوں اور نزاکتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھاکریں ،اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے(آمین)

ماخوذ القلم آن لائن
http://www.alqalamonline.com/currentnews_view.asp?articleID=858
واجد حسین
سبیلنا سبیلنا الجھاد
 

نبیل

تکنیکی معاون
واجد، میری گزارش ہے کہ دوسری سائٹس کا مواد پورا پوسٹ کرنے کی بجائے ان کا ربط فراہم کر دیا کریں۔ شکریہ۔
 
Top