آج کا دن اور اُس کی اہمیت

سیما علی

لائبریرین

آج قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش​

25دسمبر 1876 کو کراچی کے وزیر مینشن میں محمد علی جناح نے آنکھ کھولی تو کون جانتا تھا کہ یہ بچہ عظیم رہنما بن کر برصغیر کے مسلمانوں کی کشتی پار لگانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔۔۔۔۔۔
آزادی کی قدر بند پنجرے کی ان قیدی پنچھیوں سے پوچھیں جو اڑنا بھی چاہیں تو انکے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔کشمیر اور فلسطین کے ان مظلوموں سے پوچھو جو آزادی کا سورج دیکھنے کیلئے نہ جانے کتنے رشتے کھو بیٹھے ہیں۔مگر میں دعا کرتی ہوں ان تمام مظلوم قوموں کیلئے جو ابھی تک آزادی کی طلبگار ہیں کہ اللہ انکو ایسا عظیم لیڈر عطا فرما جیسا کہ پاکستانی قوم کو تحریک پاکستان کے وقت عطا کیا جس نے قوم کو تحفے میں آزاد وطن پاکستان دیا۔ پاکستان کے اس بہادر اور عظیم لیڈر کا نام قائد اعظم محمد علی جناح ہیں۔۔۔۔۔
قائدِ اعظم
آدم کی تاریخ کے سینے میں ڈوبے ہیں
کتنے سورج کتنے چاند
کیسے کیسے رنگ تھے مٹی سے پھوٹے
موج ہوا کے بنتے اور بگڑتے رستوں میں ٹھہرے
اور خاک ہوئے
نیلے اور اتھاہ سمندر کے ہونٹوں کی پیاس بنے
آنے والے دن کی آنکھوں میں لہراتی آس بنے
کیسے کیسے رنگ تھے جو مٹی سے چمکے
اور چمک کر پڑ گئے ماند
کچھ سورج ایسے پھر بھی
اپنی اپنی شام میں جو اس دشت افق کا رزق ہوئے ہیں
لیکن اب تک روشن ہیں گہنائے نہیں
پھول ہیں جن کو چھونے والی سبز ہوائیں خاک ہوئیں
لیکن اب تک تازہ ہیں کمہلائے نہیں
ایسا ہی اک سورج تھا وہ آدم زادہ
ٹوٹی اینٹوں کے ملبے سے جادہ جادہ
ٹکڑا ٹکڑا یکجا کر کے
ایک عمارت کی بنیادیں ڈال رہا تھا
سات سمندر جیسے دل میں
ان کے غم کو پال رہا تھا
جن کے کالے تنگ گھروں میں کوئی سورج چاند نہیں تھا
پھولوں کی مہکار نہیں تھی بادل کا امکان نہیں تھا
صبح کا نام نشان نہیں تھا
نیند بھری آنکھوں کے لان میں
وہ خود سورج بن کر ابھرا
ڈھلتی شب میں پورے چاند کی صورت نکلا
صبح کے پہلے دروازے پر دستک بن کر گونج اٹھا
آج میں جس منزل پر کھڑا ہوں
اس پر پیچھے مڑ کر دیکھوں
تو اک روشن موڑ پہ اب بھی
وہ ہاتھوں میں
آنے والے دن کی جلتی شمع تھامے
میری جانب دیکھ رہا ہے
جانے کیا وہ سوچ رہا ہے
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
قائد کے حضور

بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد
کیا عجب دن تھے کہ مقتل کی طرح شہر بہ شہر
بین کرتی ہوئی پھرتی تھی ہوا تیرے بعد
ترے قدموں کو جو منزل کا نشان جانتے تھے
بھول بیٹھے ترے نقشِ کفِ پا تیرے بعد
مہر و مہتاب وہ نیم ایک طرف خوابِ دو نیم
جو نہ ہونا تھا وہ سب ہو کے رہا تیرے بعد

افتخار عارف
 
Top