قرۃالعین اعوان
لائبریرین
آتے ہوئے ان کو در و دیوار نے دیکھا
اتنا تو مری چشمِ گنہگار نے دیکھا
یہ سچ ہے کہ میں نے کبھی دیکھا نہیں اس کو
لیکن یہ حقیقت ہے مجھے یار نے دیکھا
میں سوچ رہا تھا غمِ ہستی کا مداویٰ
اتنے میں مجھے حسنِ فسوں کار نے دیکھا
طاری ہیں فضاؤن پہ کہیں آپ،کہیں ہم
صحرا نے ہمیں، آپ کو گلزار نے دیکھا
وہ آئے تو دیکھا ہمیں تاروں نے جھجک کر
رک کرمرا گھر پھول کی مہکار نے دیکھا
دیکھیں مرے قدموں نے تو بڑھتی ہوئی راہیں
کٹتا ہوا رستہ تری رفتار نے دیکھا
دنیا نے حسیں بن کے مجھے جب بھی صدا دی
نفرت سے مرے عشق کے معیار نے دیکھا
دم توڑتی شمعیں ہوں کہ بجھتے ہوئی تارے
کیا کیا نہ مرے دیدہء بیدار نے دیکھا
بازارِ جہاں میں ہوں میں وہ گوہرِ یکتا
اب تک نہ جسے چشمِ خریدار نے دیکھا
لڑتے رہے حالات سے ہم اہلِ سفینہ
طوفاں سے ابھرے تھے کہ منجدھار نے دیکھا
میں جھوم کے جب دارو رسن چوم رہا تھا
حیرت سے مجھے مستیء کردار نے دیکھا
ڈوبا جو خلا میں کوئی ٹوٹا ہوا تارا
حسرت سے شبِ غم کے گرفتار نے دیکھا
کیفی کے قدم رک نہ سکے راہِ وفا میں
بڑھ بڑھ کے بہت سایہء دیوار نے دیکھا
زکی کیفی
اتنا تو مری چشمِ گنہگار نے دیکھا
یہ سچ ہے کہ میں نے کبھی دیکھا نہیں اس کو
لیکن یہ حقیقت ہے مجھے یار نے دیکھا
میں سوچ رہا تھا غمِ ہستی کا مداویٰ
اتنے میں مجھے حسنِ فسوں کار نے دیکھا
طاری ہیں فضاؤن پہ کہیں آپ،کہیں ہم
صحرا نے ہمیں، آپ کو گلزار نے دیکھا
وہ آئے تو دیکھا ہمیں تاروں نے جھجک کر
رک کرمرا گھر پھول کی مہکار نے دیکھا
دیکھیں مرے قدموں نے تو بڑھتی ہوئی راہیں
کٹتا ہوا رستہ تری رفتار نے دیکھا
دنیا نے حسیں بن کے مجھے جب بھی صدا دی
نفرت سے مرے عشق کے معیار نے دیکھا
دم توڑتی شمعیں ہوں کہ بجھتے ہوئی تارے
کیا کیا نہ مرے دیدہء بیدار نے دیکھا
بازارِ جہاں میں ہوں میں وہ گوہرِ یکتا
اب تک نہ جسے چشمِ خریدار نے دیکھا
لڑتے رہے حالات سے ہم اہلِ سفینہ
طوفاں سے ابھرے تھے کہ منجدھار نے دیکھا
میں جھوم کے جب دارو رسن چوم رہا تھا
حیرت سے مجھے مستیء کردار نے دیکھا
ڈوبا جو خلا میں کوئی ٹوٹا ہوا تارا
حسرت سے شبِ غم کے گرفتار نے دیکھا
کیفی کے قدم رک نہ سکے راہِ وفا میں
بڑھ بڑھ کے بہت سایہء دیوار نے دیکھا
زکی کیفی