آتش دان کا بُت صفحہ 30 تا 37

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فہیم

لائبریرین
صفدر نے ہیڈ فون اتار کر عمران کی طرف بڑھادیا! اور کچھ دیر بعد بولا۔ گیارہویں سڑک تیسری عمارت مجھے الجھن میں‌ مبتلا کررہی ہے۔
کیوں؟
آپ نے بھی اس کے متعلق مجھ سے سوالات کیے تھے۔ اور ایکسٹو نے بھی!
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ کسی کی قیامگاہ ہے!
پھر۔؟
ایک نائٹ کلب میں جو صرف بڑے آدمیوں کے لئے مخصوص ہے اور ہم اس وقت وہیں جارہے ہیں۔
یقیناً۔
عمران نے پروقار لہجے میں کہا۔ کیا تم رانا تہور علی صندوقی کو کوئی معمولی آدمی سمجھتے ہو!
یہ صندوقی کی بلا ہے؟
سلجوقی کا رشتہ دار ہوتا ہے۔
صفدر خاموش ہوگیا! اسے نہ جانے کیوں‌ الجھن سی محسوس ہورہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد بیوک گیارہویں سٹرک کی تیسری عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی اور سیدھی پورچ کی طرف چلی گئی۔!
سب سے پہلے جوزف نیچے اترا اور تھوڑے فاصلہ پر کھڑا ہوگیا۔
اس کے دونوں ہاتھ ریوالوروں کے دونون‌ دوستوں پر تھے! پھر ڈرائیور نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور وہ دونوں باہر آگئے۔
دو آدمی ان کی پیشوائی کے لئے بر آمدے سے اتر آئے تھے۔
رانا تہور علی۔ عمران نے برا سا منہ بنا کر بولا
اوہ۔ یس سر ! یس یور ہانی نس! ایک آدمی نے بوکھلا کر کہا۔
ہمیں‌ فون پر اطلاع مل گئی تھی۔ آپ تشریف لائیں گے۔ آپ کی میزیں مخصوص ہیں! مم ۔۔۔۔ مگر!
وہ جوزف کی طرف دیکھ کر خاموش ہوگیا۔
اور کیا کہنا ہے تمہیں!
م۔۔۔۔ مطلب یہ حضور والا کہ۔۔۔۔۔۔ دوسرے ممبروں کو اس پر اعتراض بھی ہوسکتا ہے۔ اس نے کہا اور پھر جوزف کی طرف دیکھنے لگا۔
جلدی سے ختم کرچکو بات! عمران نے جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
اگر حضور والا آپ کا باڈی گارڈ۔ اپنے ریوالور آفس میں‌ رکھوادے تو بہتر ہے۔
یہ ناممکن ہے! اگر ہمیں ایسا کرنا پڑا تو پھر ہم واپسی پر قناعت کریں گے۔
اوہ۔ نہیں ۔۔۔۔ جناب! یور ہانئی نس آُپ تشریف لے چلئے۔
دوسرا بولا۔
وہ دونوں آگے بڑھے۔ صفدر عمران سے ایک قدم پیچھے تھا اور ان کے پیچھے جوزف چل رہا تھا۔
راہنمائی کرنے والے انہیں ایک بڑے ہال میں لائے۔ یہاں چاروں طرف ٹھنڈی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی اور آرکسٹرا مدہم سروں میں جاز بجا رہا تھا۔
صفدر کو ایسا ہی لگا جیسے وہ کہانیوں والے پرستان کی کسی محفل میں پہنچ گیا ہو! ہر جانب سے ان کی طرف نظریں اٹھ رہی تھیں۔! لوگ زیادہ تر جوزف کو گھور رہے تھے!
صفدر کو اس پر بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں کچھ اور لوگ بھی مسلح نظر آرہے تھے لیکن ان کی راہنمائی کرنےوالوں نے جوزف کے مسلح ہونے پر اعتراض کیا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ انہیں ٹوک دے لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش ہی رہا۔
وہ ان میزوں پر پہنچ گئے جو ان کے لیے پہلے ہی مخصوص تھیں ایک میز پر جوزف تنہا بیٹھا‘ دوسری پر صفدر اور عمران نظر آئے۔
عمران نے جیب سے چند نوٹ نکال کر بخشش کے طور پر راہنمائی کرنے والوں کو دیئے اور وہ اسے مؤدبانہ انداز میں سلام کرکے وہاں سے چلئے گئے!
پھر فوراً بیروں کی ایک پوری فوج اُن کی میزوں کی طرف دوڑ آئی!
صفدر کو اچھی طرح یاد نہیں کہ عمران نے اُن سے کن چیزوں کی فرمائش کی تھی!
اس کا ذہن تو اس وقت ہوا میں اڑا جارہا تھا۔ کیونکہ میزوں کے درمیان اسے وہی بہری لڑکی تھرکتی ہوئی نظر آئی تھی۔ جسے وہ پچھلی رات دلکشا میں دیکھ چکا تھا۔
دفعتاً عمران نے اس کے پیر میں ٹھوکر ماری اور آنکھوں سے اشارہ کیا۔ کہ وہ خود کو سنبھالے۔
صفدر پھر عمران کی طرف متوجہ ہوگیا۔
یہاں اور لوگ بھی تو مسلح نظر آرہے ہیں! ۔ اس نے گڑبڑا کر کہا۔
ہاں۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک نے ہم پر احسان کیا تھا کہ ہمیں یہاں تک پہنچا گیا! لٰہذا بخشش کی رقم میں دونوں‌شریک ہوجائیں گے۔
عمران نے بائیں آنکھ دبا کر جواب دیا! پھر آہستہ سے بولا۔ خود کو قابو میں رکھو۔ یہاں کسی بات پر بھی تمہارے چہرے سے حیرت کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔
مگر اس وقت صفدر کیا کرتا جب اُسی میز پر شراب کی بوتلیں دیکھیں۔
کیا تم ہماری موجودگی میں شراب پینے کی جرات کرسکو گے سیکریڑی۔!
دفعتاً عمران نے غصیلے لہجے میں‌ پوچھا۔
میں نے تو نہیں منگوائی۔ ! صفدر بوکھلا کر بولا۔ مگر اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ اُس میز سے آگے نہیں بڑھی ویسے بھی آرکسٹرا کا شور دوسری آوازوں کو محدود رکھنے کے لیے کافی تھا!
ہمارے لیے انڈیلو۔! عمران میز پر گھونسہ مار کر بولا۔ تم نہیں پیو گے۔
صفدر نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور عمران کے متعلق تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ شراب طلب کرےگا۔
آپ پئیں گے! صفدر نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا!
ہاں رانا تہور علی صندوقی ضرور پئیں گے! اگر نہ پئیں تو ان کے نطفے میں فرق سمجھا جائے گا۔ صفدر بُرا سا منہ بنا کر گلاس میں شراب انڈیلنے لگا۔
بب۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔۔۔ اب سوڈا ملاؤ! عمران بڑبڑایا۔
صفدر نے سائیفن سے گلاس میں سوڈے کی دھار ماری اور بڑے ادب سے گلاس اُس کے سامنے پیش کردیا!
عمران ہونٹوں میں سگریٹ دبائے بیٹھا تھا اس نے خاص جاگیردارانہ اسٹائل میں “میچ“ کہا اور صفدر جھک کر اس کا سگریٹ سلگانے لگا۔
لیکن پھر اُسے حیرت ہوئی کیونکہ اس نے جو چیز بوتل سے گلاس میں انڈیلی تھی اس میں شراب کی بو تو ہرگز نہیں تھی۔ پھر؟ صفدر سوچ میں پڑگیا!
دفعتاً عمران نے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے سے جوزف کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
اس شب تاریک کے بچے سے کہہ دو کہ یہاں اس طرح بیٹھ کر ہونٹ نہ چاٹے۔ اسے یہاں نہیں مل سکتی! گھر پر پئے گا۔
صفدر نے اُٹھ کر اس کا پیغام جوزف تک پہنچا دیا! جوزف نے صرف پلکیں جھپکائی تھیں اور شائد آخری بار ہونٹوں پر زبان پھیر کر منہ بند کرلیا تھا۔!
صفدر پھر میز پر واپس آگیا۔
آرکسٹرا کی دھن پر تھرکنے والی لڑکی تھرکتی ہوئی ان کی طرف آرہی تھی۔ وہ قریب آگئی اور وہیں رک کر تھرکنے لگی!
صفدر نے سوچا کہ اُسے سر جھکائے ہی بیٹھے رہنا چاہیے کیونکہ بھلا رانا صاحب کی موجودگی میں اُسے کب حق حاصل تھا کہ وہ اس لڑکی میں دلچسپی لے سکتا!
اُف فوہ۔! اُف فوہ۔ عمران آہستہ آہستہ بڑبڑارہا تھا۔
فتنہ ہو! قیامت ہو! ہم تمہیں آسمان پر پہنچاسکتے ہیں۔۔۔۔ اُف فوہ۔! اُف فوہ۔!
وہ کچھ دیر تک اُن کی طرف متوجہ رہی پھر یک بیک جوزف کی طرف مڑگھی۔!
آہا۔۔۔۔۔ تم یہاں ہو پیارے۔۔۔! اس نے انگریزی میں گانا شروع کردیا! اشارہ جوزف کی طرف تھا۔
میں نے تمہیں کہاں کہاں‌ ڈھونڈا ہے۔
اندھیری اور سنسان راتوں میں۔
جب ہوا کی ٹھنڈی سانسیں رُکنے لگتی تھیں۔۔۔۔۔
میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تمہیں تلاش کرتی تھی!
وہ سانس لینے کے لئے رک گئی لیکن آرکسٹرا کان پھاڑتا رہا۔
جوزف نے بوکھلائے ہوئے انداز میں پہلو بدلد۔ وہ اس طرح ہانپ رہا تھا جیسے ابھی ڈھائی سو ڈنڈ لگائے ہوں!۔۔۔
لڑکی پھر تھرکتی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔
جوزف اپنی پیشانی پر پسینہ خشک کررہا تھا۔
یہ کیا مصیبت ہے عمران صاحب۔ یہ لڑکی تو بہری تھی۔! صفدر نے کہا۔
اب بھی بہری ہی ہے! مگر کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ اپنے کانوں میں آلہ سماعت لگائے ہوئے ہے! اوہ۔ پھر آرہی ہے۔۔۔۔۔ یہ ہے کیا!
صفدر نے عمران کے لہجے میں اضطراب محسوس کیا! اور مڑ کر دیکھنے لگا! وہ پھر تھرکتی ہوئی ان کی طرف آرہی تھی۔ اس بار اس کے ایک ہاتھ میں بوتل تھی اور دوسرے میں گلاس!
اُدھر مت دیکھو۔ سیدھے بیٹھو۔ عمران نے آہستہ سے کہا۔ لڑکی نے بوتل اور گلاس جوزف کی میز پر رکھ دیئے!
ہوشیار! عمران آہستہ سے بولا اور جیب میں رکھے ہوئے ریوالور کے دستے پر صفدر کی گرفت مضبوط ہوگئی!
پیئو۔ پیئو! لڑکی پھر گانے لگی۔
زندگی بڑی کڑوی چیز ہے۔ شراب سے بھی زیادہ تلخ۔
اس لئے یہ تلخی صرف شراب ہی کی تلخی سے مار کھاسکے گی۔
پیتے رہو! اگر زندہ رہنا ہے۔
ورنہ موت تمہیں تاریک بیابانوں میں کھینچتی پھرے گی۔
بب۔۔۔۔۔باس۔۔۔۔۔۔۔ جوزف عمران کی طرف دیکھ ہکلایا۔ لڑکی بھی عمران کی طرف دیکھنے لگی! وہ خاموش ہوگئی تھی لیکن تھرکے جارہی تھی۔
پی جاؤ۔ پرواہ نہ کرو ہم یہاں موجود ہیں! عمران نے ہاتھ ہلا کرکہا۔ اگر یہ خوبصورت ہاتھ زہر بھی پلائیں تو خاموشی سے پی جاؤ۔۔۔!
لڑکی نے مسکراکر سر کو خفیف سی جنبش دی! اور پھر جوزف کی طرف رخ کرکے گانے لگی!
میں تمہیں چاہتی ہوں۔
تہم بہت حسین ہو! پانی سے بھرے ہوئے سیاہ بادلوں کی طرح جاں بخش ہو!
تمہیں اندھیری راتوں نے جنم دیا ہے۔
اس لئے تمہاری آنکھوں میں ستارے روشن ہیں!
خاموش رہو۔۔۔! دفعتاً جوزف اٹھ کر چیخا! اور چاروں طرف قہقے بلند ہوئے! لڑکی بھی ہنستی ہوئی ایک طرف بھاگ گئی۔
جوزف گرجتا رہا۔ مجھے بے وقوف بناتی ہے! چھپکلی کی بچی! میں عورتوں کے پیچھے دُم ہلانے والا کتا نہیں ہوں۔!
جوزف! عمران نے ہاتھ ہلا کر سخت لہجے میں کہا۔ بیٹھ جاؤ!
بب۔۔۔۔باس۔ جیسے جوزف کو ہوش آگیا ہو۔۔۔۔!
بیٹھو۔۔۔۔!
جوزف نڈھال سا ہوکر کرسی پر گرگیا۔
لوگ اب بھی قہقے لگارہے تھے اور لڑکی دور ایک گوشے میں تھرک رہی تھی!
اچانک صفدر چونک پڑا کیونکہ اُسے ایک جگہ وہی سرخ ٹائی والا نظر آیا تھا جس کا تعاقب کرتا ہوا وہ ائیرپورٹ سے یہاں تک آیا تھا۔
اور شائد اسی کے لئے عمران نے بھی اتنا کھڑاگ پھیلایا تھا!
مرنے والے کا سوٹ کیس اب بھی اس کے پیروں کے پاس رکھا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top