اقتباسات آب گم از مشتاق احمد یوسفی!

یاز

محفلین
سب سے زیادہ تعجب انہیں اس زبان پر ہوا جو تھانوں میں لکھی اور بولی جاتی ہے۔ رپٹ کنندگان کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن منشی جی ایک شخص کو (جس پر ایک لڑکی سے زبردستی نکاح پڑھوانے کا الزام تھا) کو عقدبالجبرکنندہ کہہ رہے تھے۔ عملے کی آپس کی گفتگو سے انہیں اندازہ ہوا کہ تھانہ ہٰذا نے بنی نوع انسان کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک وہ جو سزایافتہ ہیں۔ اور دوسرے وہ جو نہیں ہیں، لیکن ہونے چاہییں۔ ملک میں اکثریت غیرسزایافتہ لوگوں کی ہے اور یہی بنائے فتور و فساد ہے۔
گفتگو میں جس کسی کا بھی ذکر آیا، وہ کچھ نہ کچھ "یافتہ" یا "شدہ" ضرور تھا۔ شارع عام پر مشکوک حرکات پر جن دو عورتوں کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سے ایک کو اے ایس آئی شادی شدہ اور دوسری کو محض شدہ یعنی گئی گزری بتا رہا تھا۔ ہیڈ کانسٹیبل جو خود انعام یافتہ تھا، وہ کسی وفات یافتہ کا بیانِ نزعی پڑھ کر سنا رہا تھا۔ ایک پرچے میں کسی غنڈے کے غیرقابویافتہ چال چلن کی تفصیلات درج تھیں۔ ایک جگہ آتش زدہ مکانِ مسکونہ کے علاوہ بربادشدہ اسباب اور تباہ شدہ شہرت کے بھی حوالے تھے۔ اے ایس آئی ایک رپورٹ کنندہ سے دورانِ تفتیش پوچھ رہا تھا کہ شخصِ مذکورہ الصدر کی وفات شدگی کا علم تمہیں کب ہوا۔
یہاں ہر فعل فارسی میں ہو رہا تھا، مثلاََ سمن کی تعمیل بذریعہ چسپاندگی، متوفی کی وجہ فوتیدگی، عدم استعمال اور زنگ خوردگی کے باعث جملہ رائفل ہائے تھانہ ہٰذا بمعہ کارتوس ہائے پارینہ کی مرورِ ایام سے خلاص شدگی اور عملے کی حیرانگی۔ اس تھانے میں ہتھیار کی صرف دو قسمیں تھیں۔ دھاردار اور غیردھاردار۔ جس ہتھیار سے گواہ استغاثہ کے سرین پر نیل پڑے اور کاسۂ سر متورم ہوا، اس کے بارے میں روزنامچے میں مرقوم تھا کہ ڈاکٹری معائنہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گواہِ مذکور کو بیچ بازار میں غیردھاردار آلے سے مضروب کیا گیا۔ مراد اس سے جوتا تھا۔
 

یاز

محفلین
چارپائی
سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو، وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت، نہ گنجائش، نہ تُک۔ انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بروقت چارپائی ایجاد کر لی ہوتی تو نہ صرف یہ کہ وہ موجودہ فرنیچر کی گھکھیڑ سے بچ جاتے، بلکہ پھر آرام دہ چارپائی چھوڑ کر، کالونیز بنانے کی خاطر، گھر سے باہر نکلنے کو بھی ان کا دل نہ کرتا۔ "اوور ورکڈ" سورج بھی ان کی سلطنت پر ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا۔ اور کم از کم آج کل کے حالات میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہنے کے لئے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی۔ ہم نے ایک دن پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے، انگریز تمام ایجادات کے مؤجد ہیں۔ آسائش پسند، بے حد پریکٹیکل لوگ ہیں۔ حیرت ہے چارپائی استعمال نہیں کرتے۔ بولے، اون کسنے سے جان چراتے ہیں۔ راقم الحروف کے خیال میں ایک بنیادی خیال ذہن میں ضرور رکھنا چاہئے۔ وہ یہ کہ یورپیئن فرنیچر صرف بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے۔ جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں، جس پر لیٹ نہ سکیں۔ مثال میں دری، گدیلے، قالین، جازب، چاندنی، چارپائی، کوچہِ یار اور پہلوئے دلدار کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
 

یاز

محفلین
ان کے گرد بچوں نے شور مچانا شروع کیا تو سلسلہ ملامت ٹوٹا۔ انہوں نے ان کے نام پوچھنے شروع کئے۔ تیمور،بابر، ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب۔ یا اللہ! پورا دودمانِ مغلیہ اس ٹپکتی جھگی میں تاریخی تسلسل سے ترتیب وار اترا ہے۔
ایسا لگتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے ناموں کا سٹاک ختم ہو گیا، مگر اولادوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ چھُٹ بھیوں پر اتر آئے تھے۔ مثلاً ایک لختِ جگر کا پیار کا نام (مرزا) کوکا تھا، جو اکبر کا دودھ شریک بھائی تھا جس کو اس نے قلعے کی فصیل پر سے نیچے پھنکوا دیا تھا۔ اگر حقیقی بھائی ہوتا تو اس سے بھی زیادہ سخت سزا دیتا۔ یعنی قزاقوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لئے حج پر بھجوا دیتا یا آنکھیں نکلوا دیتا۔ وہ رحم کی اپیل کرتا تو ازراہِ ترحمِ خسروانہ و شفقتِ برادرانہ جلاد کے ایک ہی وار میں سر قلم کروا کے اس کی مشکل آسان کر دیتا۔ جو شیرخوار یا گھٹنیوں چلتے بچے اندر رہ گئے تھے، ان کے ناموں سے بھی شکوہِ شاہانہ ٹپکتا اور تاج و تخت سے وابستگی کا نشان ملتا تھا، حالانکہ یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے کون تخت پر متمکن ہونے کے بعد قتل ہوا اور کون پہلے۔
 

یاز

محفلین
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
خان صاحب نے اب خود شیو کرنا اور شلوار میں کمربند ڈالنا بھی چھوڑ دیا۔ روزانہ خلیفہ آتا تھا۔ جیسا ہم پہلے کہیں بیان کر چکے ہیں، خلیفہ کو سائیسی، کوچوانی، ڈرائیوری، کھانا پکانا، بیراگیری، حجامت، باغبانی، پلمبنگ۔۔۔یہ کہئیے کیا کیا نہیں آتا تھا۔ اس فن میں بھی طاق تھا، جو ان سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔۔۔یعنی مصاحبی اور خوشامد۔ جب سب ضمنی دھندے ٹھپ ہو جاتے تو خلیفہ اپنے بنیادی پیشے کی طرف رجوع کرتا۔ اپنے بیٹے کو، جو اپنے آبائی پیشے سے متنفرومحجوب تھا، اکثر نصیحت کرتا کہ بیٹا حجام کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا۔ حجام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی۔تاوقتیکہ ساری دنیا سکھ مذہب اختیار کر لے! اور سکھ یہ کبھی نہیں ہونے دیں گے۔
 

فہد اشرف

محفلین
کون کیسے ٹوٹتا ہے
دس پندرہ منٹ بعد وہ دکان ميں تالا ڈال کر گھر چلے آئےاور بيوی سے کہہ ديا، اب ہم دکان نہيں جائيں گے، کچھ دير بعد محلّے کی مسجد سے عشاء کی اذان کی آواز بلند ہوئي۔ اور وہ دوسرے ہی اللہ اکبر پر وضو کرکے کوئی چاليس سال بعد نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو بيوی دھک سے رہ گئيں کہ خير تو ہے۔ وہ خود بھی دھک سے رہ گئے۔ اس ليے کہ انھيں دو سورتوں کے علاوہ کچھ بھی ياد نہيں رہا تھا۔ وتر بھی ادھورے چھوڑ کر سلام پھير ليا کہ يہ تک ياد نہيں آرہا تھا کہ دعائے قنوت کے ابتدائی الفاظ کيا ہيں۔
وہ سوچ بھی نہيں سکتے تھے کہ آدمی اندر سے ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اور يوں ٹوٹتا ہے! اور جب ٹوٹتا ہے تو اپنوں بيگانوں سے، حد يہ کہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے بھی صلح کرليتا ہے۔ يعنی اپنے آپ سے۔ اسی منزل پر بصيرتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دانش و بينش کے باب کھلتے ہيں۔

چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتے ہيں ديواروں کے بيچ
ايسے بھی محتاط لوگ ہيں جو پيکار و فشارِ زيست سے بچنے کی خاطر خود کو بے عملی کے حصارِ عافيت ميں قيد رکھتے ہيں۔ يہ بھاری و قميتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہي لير لير ہوجاتے ہيں۔ کچھ گم صم گمبھير لوگ اس ديوار کی مانند تڑختے ہيں جس کي مہين سی دراڑ جو عمدہ پينٹ يا کسی آرائشی تصوير سے با آسانی چھپ جاتی ہے، اس بات کی غمّازي کرتی ہے کہ نيو اندر ہی اندر کسی صدمے سے زمين ميں دھنس رہی ہے۔ بعض لوگ چينی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہيں، کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہيں مگر بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد ميں۔ اس کے برعکس کچھ ڈھيٹ اور چپکو لوگ ايسے اٹوٹ مادّے کے بنے ہوتے ہيں کہ چيونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہيں ليتے۔
کھينچنے
سے کھنچتے ہيں، چھوڑے سے جاتے ہيں سکڑ
آپ انھيں حقارت سے تھوک ديں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہيں کہ چھٹائے سے نہيں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خيال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بھلے تھے کہ پپول تو ليتے تھے۔ يہ چيونگ گم لوگ خود آدمی نہيں، پر آدم شناس ہيں۔ يہ کامياب و کامران و کامگار لوگ ہیں۔ يہ وہ ہيں جنھوں نے انسان کو ديکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پايا تو خود بھی کھوٹے ہوگئے۔ وقت کي اٹھتی موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سر پہ رکھا اورساعت گزراں نے اپنے تختِ رواں پہ بٹھايا۔
اور کچھ ايسے بھی ہيں کہ کار کے ونڈ اسکرين کی مانند ہوتے ہيں۔ ثابت و سالم ہيں تو سينہ عارف کی طرح شفاف کہ دو عالم کا نظارہ کرلو۔ اور يکا يک ٹوٹے تو ايسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا، نہ دَرکے نہ تڑخے۔ يکبارگی ايسے ريزہ ريزہ ہوئے کہ نہ عارف رہا، نہ دو عالم کی جلوہ گري، نہ آئينے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گيا۔ نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جورہی سو بےخبری رہی۔
اور ايک انا ہے کہ يوں ٹوٹتی ہے جيسے جابر سلطانوں کا اقبال، يا حضرت سليمان کا عصا جس کی ٹيک لگائے وہ کھڑے تھے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ليکن ان کا قالب بے جان ايک مدت تک اسی طرح استادہ رہا اور کسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رحلت فرما چکے ہيں۔ وہ اسی طرح بے روح کھڑے رہے اور ان کے اقبال اوررعب و دبدبے سے کاروبارِ سلطنت حسبِ معمولِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا کو دھيرے دھيرے گھن اندر سے کھاتا رہا، يہاں تک کہ ايک دن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گيا اور حضرت سليمان کا جسدِ خاکی فرشِ زمين پر آرہا۔ اس وقت ان کی امّت اور رعيّت پر کھلا کہ وہ دنيا سے پردہ فرماچکے ہيں۔
سو وہ ديمک زدہ عصائے پندار و جلال جس کے بَل قبلہ نے بےغِل وغش زندگی گزاری آج شام ٹوٹ گيا اور زيست کرنے کا وہ طنطنہ اور ہمہمہ سرنِگوں ہوا۔

 

فرقان احمد

محفلین
اور کچھ ايسے بھی ہيں کہ کار کے ونڈ اسکرين کی مانند ہوتے ہيں۔ ثابت و سالم ہيں تو سينہ عارف کی طرح شفاف کہ دو عالم کا نظارہ کرلو۔ اور يکا يک ٹوٹے تو ايسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا، نہ دَرکے نہ تڑخے۔ يکبارگی ايسے ريزہ ريزہ ہوئے کہ نہ عارف رہا، نہ دو عالم کی جلوہ گري، نہ آئينے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گيا۔ نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جورہی سو بےخبری رہی۔
زبردست!
 

یاز

محفلین
مشتاق احمد یوسفی کے چند ون لائنرز
۔
مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچائی ہوتی ہے۔

جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔

دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔

مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔

محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔

بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔

مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

حجام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی تاوقتیکہ ساری دنیا سکھ مذہب اختیار نہ کرلے اور یہ سکھ کبھی ہونے نہیں دیں گے۔

سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں۔

امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔

مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔

پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔

فقیر کے لیے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہے۔

سود اور سرطان کو بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔

بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے۔

ہم نے تو سوچا تھا کراچی چھوٹا سا جہنم ہے، جہنم تو بڑا سا کراچی نکلا۔

اپنے ہم عمر بڈھوں سے محض ہاتھ ملانے سے آدمی کی زندگی ہر مصافحے کے بعد ایک سال گھٹ جاتی ہے۔

آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیونکہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔

گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں مزہ دیتا ہے۔

ہارا ہوا مرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست لگنے لگتی ہے۔

ہم نے باون گز گہرے ایسے اندھے کنویں دیکھے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خود کو اوندھا دیں یعنی سر کے بل الٹے کھڑے ہوجائیں تو باون گز کے مینار بن جائیں گے۔

جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی۔

انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

جب آدمی کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی نال کہاں گڑی ہے اور پرکھوں کی ہڈیاں کہاں دفن ہیں تو وہ منی پلانٹ کی طرح ہوجاتا ہے جو مٹی کے بغیر صرف بوتلوں میں پھلتا پھولتا ہے۔

یہ بات ہم نے شیشم کی لکڑی، کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی میں ہی دیکھی کہ جتنا ہاتھ پھیرو، اتنا ہی چمکتی ہے۔

مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔

آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔

قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہوجائے۔

خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔

تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں۔

لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔

نام میں کیا رکھا ہے؟ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں، گلوں ہی کی خوشبو آئے گی۔

فرضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیر بہدف ہوتی ہیں۔

جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا۔

مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہیں۔

ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفید طلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے مافی الضمیر فروش کہنا چاہیے۔

مختار مسعود اپنے دل پسند موضوعات پر گھنٹوں ہمارے آگے بین بجاتے اور مجبورا خود ہی جھومتے رہتے ہیں۔

جب چمڑے کی جھونپڑی میں آگ لگ رہی ہو تو کیا گرمی کیا سردی۔
 
آخری تدوین:
Top