حیدر آباد دکن

  1. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: زمِیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر:::::: Shaz Tamkanat

    "زمِیں کا قرض" زمیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر عجیب قرض ہے یہ ،قرضِ بے طَلب کی طرح ہَمِیں ہیں سبزۂ خود رَو ، ہَمِیں ہیں نقشِ قَدم کہ زندگی ہے یہاں موت کے سَبب کی طرح ہر ایک چیز نُمایاں ، ہر ایک شے پِنہاں کہ نیم روز کا منظر ہے نیم شب کی طرح تماشہ گاہِ جہاں عِبرَتِ نظارہ ہے زِیاں...
  2. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: وہ پستیاں کہ ہمالہ تِری دُہائی ہے :::::: Shaz Tamkanat

    کُہرام وہ پستیاں کہ ہمالہ تِری دُہائی ہے تمام دیوتا خاموش، سر جُھکائے ہُوئے ہزار راکھشسوں کی ہنسی کا ہے کُہرام ہزار ناگ نِکل آئے ، پَھن اُٹھائے ہُوئے شاؔذ تمکنت 1985- 1933 حیدرآباد دکن، انڈیا
  3. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: زادِ سفر کو چھوڑ کے تنہا نِکل گیا :::::: Shaz Tamkanat

    غزل زادِ سفر کو چھوڑ کے تنہا نِکل گیا مَین کیا وطن سے نِکلا کہ کانٹا نِکل گیا بہتر یہی تھا اپنی ہی چَوکھٹ پہ رَوکتے اب کیا پُکارتے ہو، کہ جو نِکلا نِکل گیا ہم چل پڑے کہ منزلِ جاناں قرِیب ہے سستائے ایک لمحہ کو، رستہ نِکل گیا کُچھ لوگ تھے جو دشت کو آباد کرگئے اِک ہم ہیں، جن کے ہاتھ سے صحرا...
  4. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: خوار و رُسوا تھے یہاں اہلِ سُخن پہلے بھی ::::::Shaz Tamkanat

    غزل خوار و رُسوا تھے یہاں اہلِ سُخن پہلے بھی ایسا ہی کُچھ تھا زمانے کا چلن ، پہلے بھی مُدّتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے مَیں نے سِیکھا تھا لہُو رونے کا فن پہلے بھی ہم نے بھی پایا یہاں خِلعَتِ سنگ و دُشنام وضعدار ایسے ہی تھے اہلِ وطن پہلے بھی دِلنواز آج بھی ہے نِیم نِگاہی تیری دِل شکن...
  5. طارق شاہ

    شاذ تمکنت شاؔذ تمکنت :::::: یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے ::::::Shaz Tamkanat

    غزل یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے ثباتِ رنگ اِسی رنگِ بے ثبات سے ہے پرودِیئے مِرے آنسوسَحر کی کِرنوں نے مگر وہ درد، جو پہلوُ میں پچھلی رات سے ہے یہ کارخانۂ سُود و زیانِ مہر و وفا نہ تیری جیت سے قائم، نہ میری مات سے ہے مجھے تو فُرصتِ سیرِ صِفاتِ حُسن نہیں یہاں جو کام ہے، وابستہ تیری...
  6. کاشفی

    یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے - مخدوم محی الدین

    غزل (مخدوم محی الدین) یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح و شام لیے ہجومِ بادہء و گل میں ہجومِ یاراں میں کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام...
  7. کاشفی

    عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے - مخدوم محی الدین

    غزل (مخدوم محی الدین) عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ راٹ کٹے ہجر میں ملنے شبِ ماہ کے غم آئے ہیں چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پگھلتا ہی نہیں موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو پیار کے نامہ کو...
  8. محمد علم اللہ

    عندلیب آپا سے ملاقات

    بعض اوقات محبت اور احساس کے رشتے خون کے رشتوں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں ،جنھیں انسان چاہ کر بھی نہیں بھلا پاتا ، میں اس معنی میں خود کو انتہائی خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ میرے اتنے چاہنے والے لوگ ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم اور محبین کی دعاوں کا ہی نتیجہ ہے ، جو ہمارے عیبوں کو چھپا کر ہماری اچھائیوں کو...
  9. کاشفی

    حید ر آباد دکن: ہوٹل کی عمارت گر گئی،5افراد ہلاک ،10زخمی

    حید ر آباد دکن: ہوٹل کی عمارت گر گئی،5افراد ہلاک ،10زخمی حیدرآباد …بھارت کے شہر حیدرآباد میں ہوٹل کی عمارت گرنے سے 5 افرا دہلاک ہوگئے ، متعدد افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں بھارتی میڈیا کے مطابق حیدرآباد کے علاقے سکندرآباد میں دو منزلہ ہوٹل کی عمارت گرگئی ، عمارت حادثے میں 5 افراد ہلاک 10 زخمی...
  10. کاشفی

    لاَ اِلٰی ھَوٰلاَءِ وَلاَالیٰ ھوٰ لاَء - از: حضرت امجد حیدرآبادی

    لاَ اِلٰی ھَوٰلاَءِ وَلاَالیٰ ھوٰ لاَء از: حضرت امجد حیدرآبادی کامل نہ جہالت ہے، نہ آگاہی ہے سودا ئے گدائی، نہ سر شاہی ہے سر ڈھانکتا ہوں، تو پاؤں کھل جاتے ہیں کیا جامہء زندگی کی کوتاہی ہے یہ نقشِ حیات، موت سے بدتر ہے ہر سانس میں اک چھپا ہوا خنجر ہے رباعی سانچے میں اجل کے...
  11. کاشفی

    زمیں پہ چاند اترتا دکھائی دیتا ہے - خورشید احمد جامی

    غزل زمیں پہ چاند اترتا دکھائی دیتا ہے ترا خیال بھی تجھ سا دکھائی دیتا ہے جو ساتھ لے کے چلا تھا ہزار ہنگامے وہ شخص آج اکیلا دکھائی دیتا ہے ہوا چلی تو اندھیروں کی آگ تیز ہوئی ہر ایک خواب پگھلتا دکھائی دیتا ہے بڑے عجیب ہیں یہ درد و غم کے رشتے بھی کہ جس کو دیکھئے اپنا دکھائی دیتا ہے...
  12. کاشفی

    یہ وقت کا کرم ہے کوئی فلسفہ نہیں - جگجیون لعل استھانہ

    غزل (جگجیون لعل استھانہ - حیدر آباد دکن) یہ وقت کا کرم ہے کوئی فلسفہ نہیں اب کوئی اپنے گھر کا پتہ جانتا نہیں مجھ کو میرے نصیب کہ، کچھ بھی ملا نہیں ورنہ بہارِ وقت کے دامن میں‌ کیا نہیں اس حدثے سے بڑھ کے کوئی حادثا نہیں وہ میرا ہو کے بھی مجھے پہچانتا نہیں وہ کیا سمجھ سکے گا زمانے کے...
  13. کاشفی

    ان کو غم کا آخری قصہ سُنا کر رو دئے - نواب معظم جاہ شجیع

    غزل (نواب معظم جاہ شجیع ، حیدر آباد دکن) ان کو غم کا آخری قصہ سُنا کر رو دئے ضبط کر کے مسکرائے، مسکرا کر رو دئے آج اپنی بیکسی کا ہو گیا ہم کو یقین دِل کو دیکھا اور اُنہیں دل میں نہ پا کر رو دئے آگئیں گزری ہوئی باتیں نظر کے سامنے آنکھ اُٹھا کر اُن کو دیکھا، سر جھکا کر رو دئے آپ...
  14. کاشفی

    شبِ ہجر وہ دمبدم یاد آئے - نواب معظم جاہ شجیع

    غزل (نواب معظم جاہ شجیع ، حیدر آباد دکن) شبِ ہجر وہ دمبدم یاد آئے بہت یاد آکر بھی کم یاد آئے اک ایسا بھی گزرا ہے فرقت میں‌ عالم نہ تم یاد آئے نہ ہم یاد آئے کرم پر فدا دیدہ و دل تھے لیکن کرم سے زیادہ ستم یاد آئے تری یاد جب آئی تنہا ہی آئی خوشی یاد آئی نہ غم یاد آئے زمانہ اُنہیں...
Top