۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔
تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے
لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے
ہے خون ِ...
وہ ملنے کو تڑپتا ہے چلو ہم مان لیتے ہیں
اسے مجھ سے محبت ہے یہ قصہ جان لیتے ہیں
محبت ،عشق ،مستی کو سمجھنا بھی ضروری ہے
ولی،مومن و غالب ،میر کا دیوان لیتے ہیں
محبت کرنے والوں سے یہی پیغام ملتا ہے
جنہیں ملنے کی حسرت ہو وہ لمبی تان لیتے ہیں
گریباں چاک ہوتا ہے ،کبھی رسوا بھی ہوتا ہے
محبت میں...
۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔اساتذہ اور دوستوں سے کچھ تنقید اور تبصرے کی گزارش ہے کہ کئی جگہ کچھ اطمئنان نہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔
تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے...
یوم دفاع ِ پاکستان پر میرے والد صاحب کا خراج تحسین ۔نظم یوم ِدفاع
ہماری سرزمینِ پاک میں دشمن در آئے تھے
اسی شب ہم نے عزمِ خاص کے سورج جگائے تھے
قیامت ساز ہنگامے وہ اپنے ساتھ لائے تھے
مگر ہم نے مقابل میں نئے محشر اٹھائے تھے
جوان و پیر و کمسن سب بھرے گھر سے نکل آئے
کماں تھی باپ کے ہاتھوں...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل ۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا
وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا
شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا
آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا
کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا
منصفی...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک۔ نعت۔ احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے منتخب کی گئی۔
میں جاہ طلب ہوں نہ کوئی جاہ حشم ہے
اک بندہ ناچیز طلبگارِکرم ہے
تو احمدِ مختار نویدِ بن مریم
ہاں تو ہی دعائے دمِ تعمیر حرم ہے
موسیٰ کے لئے برق تھی ،میرے لئے قندیل
اب وہ ہی تجلّی سرِ دیوار...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
اشکِ غم و فراق ہیں گنگ و جمن کی آگ
یہ آگ ڈھونڈتی ہے تری انجمن کی آگ
آرائش جمال سے پہلے ترا جمال
یہ سادگی کی آگ ہے وہ بانکپن کی آگ
اپنے لبوں کی آپ ہی تعریف کیجئے
جب آپ کہہ رہے ہیں گلوں کہ...
حالیہ مشاعرے کے لیے کہی گئی میری غزل
تری نسبتوں کا نشاں چاہیے
جبیں کو یہی آستاں چاہیے
مجھے ایک ایسا جہاں چاہیے
اثر جس میں ہو وہ فغاں چاہیے
مَحّبت کی ارزاں دکاں چاہیے
مگر جنس اس میں گراں چاہیے
نہ سمجھا کوئی آنسوؤں کو مرے
مجھے مجھ سااک ترجماں چاہیے
میں لوح و قلم کا تو منکر نہیں
مگر آج تیر و...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
ترے جمال کو ہم لاجواب کہتے ہیں
ہمِیں نہیں، یہ مہ و آفتاب کہتے ہیں
کہاں وہ چہرہ انور کہاں یہ مہرمنیر
ہم آفتاب کو ذروں کا خواب کہتے ہیں
ترے جمال کے اوراق میری ترتیلیں
ترے جمال کو ام الکتاب کہتے...
میرے حصے میں بھی ثواب آئے
ہے شب ِ قدر ، بے حساب آئے
آج رحمت کے جام بٹتے ہیں
ہر سیہ کار اب شتاب آئے
کشت ِ ویراں میں کچھ نہیں اُگتا
فکر میری پہ بھی شباب آئے
رات بھر آج ہوں کھڑا در پر
جانے کس وقت کچھ جواب آئے
رات افضل ہو کیوں نہ راتوں پر
جس میں معجز نما کتاب آئے
نام ورد ِ زباں ہے احمد کا
مجھ...
میرے والد صاحب مرحوم (سید خورشید علی ضیا عزیزی جے پوری) کی ایک اور غزل۔
صراحی سر نگوں ، مینا تہی اور جام خالی ہے
مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے
کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں
نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے
یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے
کبھی...
ایک غز ل کی تازہ کاوش احباب و محفلین کی خدمت میں ۔
شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے
ترے غم کی رفاقت سے یہ عمر ِجاودانی ہے
مرا پیہم تبسم ہی مرے غم کی نشانی ہے
مرا دھیما تکلّم ہی مری شعلہ بیانی ہے
فقیہِ شہر کا اب یہ وظیفہ رہ گیا باقی،
امیر ِ شہر کی دہلیز پہ بس دُم ہلانی ہے
کوئی زنداں...
ایک غزل احباب کی بصارتوں کی نذر ۔ ۔۔برائے نقدو نظر۔
ہم تو ہیں دیوانگی کا سلسلہ۔۔۔۔۔کیا ہمارا کیا زمانے کا گلا
آرزوؤں کے لہو کا تھا صلا۔۔۔۔۔ جنتیں کھوکر یہ سنگ در ملا
خوش ہے ان کے پاس دل ،پھرکیا گلا ۔۔۔۔۔دوست ہی جب دشمنوں سے جا ملا
سوزنِ تدبیر ایسی گم ہوئی۔۔۔۔۔ چاک نہ تقدیر کا میری سلا
صبحدم...
ایک قدرے تازہ غزل پیش ہے۔احباب کی نظروں کی نذر۔ (تنقیدو تبصرہ بسرو چشم۔)
قیودِ زیست نے مشکل میں ڈال رکھا ہے
ترے خیال نے لیکن، سنبھال رکھا ہے
۔۔۔
جو تیرے سامنے ہم نے سوال رکھا ہے
یہی سمجھ لے کہ امرِ محال رکھا ہے
۔۔۔
جو زخم تجھ سے نہ دیکھا گیا نظر بھر کے
وہ ہم نے ایک زمانے سے پال رکھا ہے
۔۔۔...
ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر
آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر
حاصل ِکاوش ِ اہل ِعلم و ہنر
جو ہوا بے خبر وہ ہوا با خبر
راز سینے میں ایسا ہے میرے جسے
ڈھونڈتے ہیں شب و روز شمس و قمر
زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و وامق ہوے در بدر
آبلوں سے جنوں کو ملا حوصلہ
کتنی ہی منزلیں بن گئیں رہگزر...
استاد محترم الف عین صاحب ایک اور غزل برائے آپریشن حاضر ہے ۔
پھر نیا عشق کر لیا جائے
آنکھ میں حسن بھر لیا جائے
وہ ملے یا نہیں ملے لیکن
شہر میں اُس کے گھر لیا جائے
روز کے مرنے سے تو بہتر ہے
ایک ہی روز مر لیا جائے
منزلِ عشق ہے بہت ہی دور
زادِ رھ خوب دھر لیا جائے
زندگی آگ کا سمندر...
اگر چہ یہ کاوش اصلاح سخن میں پیش ہو چکی ہے تاہم احباب اگر رائےدینا چاہیں تو بسرو چشم۔
شیشے کی صداؤں سے بندھا ایک سماں تھا
میں منتظر ِجنبشِ انگشتِ مغاں تھا
پیہم جو تبسم مرے چہرے سے عیاں تھا
وہ اس دلِ صد چاک پہ اک کوہِ گراں تھا
نومیدئ عالم ہوئی مہمیز جنوں کو
اوپر سے مہر بان کفِ کوزہ گراں تھا...
والد صاحب کی ایک غزل بفرمائش محترمی محمد خلیل الرحمٰن صاحب
نہ تیری آرزو دو دن، نہ تیری آرزو برسوں
تجھے پا کر کیا کرتا ہوں اپنی جستجو برسوں
مجھے دیر و حرم جانا ضروری تھا مرے ساقی
مرے ہونٹوں کو ترسے ہیں ترے جام و سبو برسوں
بڑی تاخیر سے تیرا پیامِ بے رخی آ یا
خزاں کے واسطے ترسی بہار ِ...
کچھ اشعار برائے اصلاح و تنقید احبائے محفل کی توجہ اورقیمتی آراءکے لیے۔
ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر
آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر
حاصل ِکاوش ِ اہل ِعلم و ہنر
جو ہوا بے خبر وہ ہوا با خبر
راز سینے میں ایسا ہے میرے جسے
ڈھونڈتے ہیں شب و روز شمس و قمر
زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و...
حضرت ابو اسما کہتے ہیں ،ابوذررضی اللہ عنہ کے پاس گیا اس وقت وہ زبدہ بستی میں قیام پذیر تھے۔ ان کے پاس ایک سیاہ فام خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔جس کے بال پراگندہ تھے ،اس پر نہ تو خوبصورتی کے کوئی آثار تھے اور نہ ہی خوشبوکے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم لوگ دیکھ رہے ہوکہ یہ خاتون مجھے کیا کہہ رہی...