کراچی اور اردو

  1. کاشفی

    جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح - والی آسی

    غزل (والی آسی - لکھنؤ) جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح وہ ہمیں بھول گئے ایک کہانی کی طرح دوستو ڈھونڈ کے ہم سا کوئی پیاسا لاؤ ہم تو آنسو بھی جو پیتے ہیں تو پانی کی طرح غم کو سینے میں چھپائے ہوئے رکھنا یارو غم مہکتے ہیں بہت رات کی رانی کی طرح تم ہمارے تھے تمہیں یاد نہیں ہے شاید...
  2. کاشفی

    مانگی ہے جان آپ نے ایمان لیجئے - عبدالرفیق

    غزل (عبدالرفیق - علیگڑھ) مانگی ہے جان آپ نے ایمان لیجئے اب تو خدا کے واسطے پہچان لیجئے دار و رسن کا کس لئے احسان لیجئے لطف و کرم سے آپ مری جان لیجئے مایوسیوں سے فرحت ارمان لیجئے مجبوریوں سے صورت امکان لیجئے مجھ کو نجات دیجئے میری تڑپ سے آپ لیکن تڑپ حیات ہے یہ جان لیجئے آواز ہے جرس کی...
  3. کاشفی

    میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے - آنند سروپ انجم

    غزل (آنند سروپ انجم ) میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے مرے پروں کو ہوا کیا اڑان سے پہلے مرے نصیب میں رستوں کی دھول لکھی تھی نہ مل سکی مجھے منزل تکان سے پہلے یہ کون شخص تھا چالاک کس قدر نکلا کہ بات چھیڑ گیا درمیان سے پہلے میں اس کے درد کا درماں تو جانتا تھا مگر وہ کچھ تو بولتا اپنی...
  4. کاشفی

    روز خوابوں میں آ کے چل دوں گا - آلوک شریواستو

    غزل (آلوک شریواستو) روز خوابوں میں آ کے چل دوں گا تیری نیندوں میں یوں خلل دوں گا میں نئی شام کی علامت ہوں خاک سورج کے منہ پہ مل دوں گا اب نیا پیرہن ضروری ہے یہ بدن شام تک بدل دوں گا اپنا احساس چھوڑ جاؤں گا تیری تنہائی لے کے چل دوں گا تم مجھے روز چٹھیاں لکھنا میں تمہیں روز اک غزل دوں گا
  5. کاشفی

    اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے - جلیل مانک پوری

    غزل (جلیلؔ مانک پوری) اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے یہ قفس یہ آشیانا اور ہے موت کا آنا بھی دیکھا بارہا پر کسی پر دل کا آنا اور ہے ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی بندہ پرور یہ فسانا اور ہے رات بھر میں شمع محفل جل بجھی عاشقوں کا...
  6. کاشفی

    عشق ہو جاؤں پیار ہو جاؤں - افروژ رضوی

    غزل (افروژ رضوی) عشق ہو جاؤں پیار ہو جاؤں میں جو خوشبوئے یار ہو جاؤں جب بھی نکلوں میں ڈھونڈ نے اس کو دھول مٹی غبار ہو جاؤں اس کے وعدے کا اعتبار کروں پھر شب انتظار ہو جاؤں اوڑھ لوں اس کی یاد کی چادر اور خود پر نثار ہو جاؤں میں ترا موسم خزاں پہنوں اور فصل بہار ہو جاؤں ایک شب اس کو...
  7. کاشفی

    سامنے جب کوئی بھرپور جوانی آئے - ساقی امروہوی

    غزل (ساقی امروہوی) سامنے جب کوئی بھرپور جوانی آئے پھر طبیعت میں مری کیوں نہ روانی آئے کوئی پیاسا بھی کبھی اس کی طرف رخ نہ کرے کسی دریا کو اگر پیاس بجھانی آئے میں نے حسرت سے نظر بھر کے اسے دیکھ لیا جب سمجھ میں نہ محبت کے معانی آئے اس کی خوشبو سے کبھی میرا بھی آنگن مہکے میرے گھر میں بھی...
  8. کاشفی

    پتھر کے خدا، پتھر کے صنم، پتھر کے ہی انساں پائے ہیں - سدرشن فاخر

    غزل (سدرشن فاخر) پتھر کے خدا، پتھر کے صنم، پتھر کے ہی انساں پائے ہیں تم شہرِ محبت کہتے ہو ہم جان بچا کر آئے ہیں بت خانہ سمجھتے ہو جس کو پوچھو نہ وہاں کیا حالت ہے ہم لوگ وہیں سے لوٹے ہیں بس شکر کرو لوٹ آئے ہیں ہم سوچ رہے ہیں مدت سے اب عمر گزاریں بھی تو کہاں صحرا میں خوشی کے پھول نہیں شہروں...
  9. کاشفی

    اگر ہم کہیں اور وہ مسکرا دیں - سدرشن فاخر

    غزل (سدرشن فاخر) اگر ہم کہیں اور وہ مسکرا دیں ہم ان کے لیے زندگانی لٹا دیں ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں چلو زندگی کو محبت بنا دیں اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں قیامت کے دیوانے...
  10. کاشفی

    ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی - طفیل چترویدی

    غزل (طفیل چترویدی) ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی دیکھ تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی لوگ کردار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی شہر تلوار سے تم جیت گئے ہو لیکن یوں دلوں کی تو حکومت نہیں ملنے والی راستے میں اسے دیکھا ہے کئی روز کے بعد آج تو رونے کو فرصت...
  11. کاشفی

    گلزار زندگی یوں ہوئی بسر تنہا - گلزار

    غزل (گلزار) زندگی یوں ہوئی بسر تنہا قافلہ ساتھ اور سفر تنہا اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں عمر گزری ہے اس قدر تنہا رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے رات کاٹے کوئی کدھر تنہا ڈوبنے والے پار جا اترے نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں رات ہوتی نہیں بسر تنہا ہم نے دروازے تک تو...
  12. کاشفی

    محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں - جگر بریلوی

    غزل (جگر بریلوی) محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں ہمیں کیا اس سے وہ کون اور کیا ہیں یہ کیا کم ہے حسیں ہیں دل ربا ہیں زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے سخنور کون شے ہیں اور کیا ہیں مٹاتے رہتے ہیں ہم اپنی ہستی کہ آگاہ مزاج دل ربا ہیں نہ جانے درمیاں کون آ گیا ہے نہ...
  13. کاشفی

    عدم ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا - عبدالحمید عدم

    غزل (عبدالحمید عدم) ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے میں دوستوں کے...
  14. کاشفی

    اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں دم بخود ہوں اب سرِ...
  15. کاشفی

    تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی...
  16. کاشفی

    دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے...
  17. کاشفی

    فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ ان حسیں...
  18. کاشفی

    جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں - محبوب خزاں

    غزل (محبوب خزاں) جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں تمام عمر یہ افسردگان محفل گل کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
  19. کاشفی

    دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی - شہریار

    غزل (شہریار) دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا یہ...
  20. کاشفی

    جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا - شہریار

    غزل (شہریار) جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
Top