مصطفیٰ زیدی

  1. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی مسافر۔۔۔۔۔مصطفی زیدی

    مِرے وطن تری خدمت میں لے کے آیا ہوں جگہ جگہ کے طلسمات دیس دیس کے رنگ پرانے ذہن کی راکھ، اور نئے دلوں کی امنگ نہ دیکھ ایسی نگاہوں سے میرے خالی ہاتھ نہ یوں ہو میر ی تہی دامنی سے شرمندہ بسے ہوئے ہیں میرے دل میں سینکڑوں تحفے بہت سے غم ، کَئ خوشیاں ، کَئ انوکھے لوگ کہیں سے کیف ہی...
  2. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی غزل،،سُن اے حکیمِ ملت و پیغمبرِ نجات،،،مصطفی زیدی

    سُن اے حکیمِ ملت و پیغمبرِ نجات میرے دیارِ قلب میں کعبہ نہ سومنات اِک پیشہ عشق تھا سو عوّض مانگ مانگ کر رُسوا اُسے بھی کر گئ سوداگروں کی ذات ڈرتا ہوں یوں کہ سچ ہی نکلتے ہیں پیش تر اس کاروبارِ شوق میں دل کے توّہِمَات محویّتِ نشاط میں قُربت کے سو قَرن ٹوٹی ہوئ رگوں سے جدائ کی ایک...
  3. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی مِری پتھر آنکھیں،،،،مصطفی زیدی

    اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات کل کے دریاوں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں میری پلکوں کے دریچے مرِی بنجر آنکھیں میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر...
  4. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی حرفِ سادہ ،،مصطفی زیدی

    معاشرانِ خراباتِ حرفِ سادہء مئے زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے قتیلِ زمزمہء و صلِ نالہء ہجراں نوائے حسرتِ غیر عاشقانہ بھی سنتے روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے حقیقتِ اذلی کا ترانہ بھی سنتے اس انتہائے جلال و جمال سے آگے خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے زکواۃ دل کبھی دیتا غرورِ کج...
  5. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی جہاں میں ہوں،،،،،،،،مصطفی زیدی

    نَفس کو فِکرِ جو ہر ہے جہاں میں ہوں سمندر ہی سمندر ہے جہاں میں ہوں بجھی جاتی ہیں قندیلیں توّھُم کی طلوعِ عقلِ خاور ہے جہاں میں ہوں نظر آتی ہے اپنی ماہیت جس میں وہ آئینہ میسر ہے جہاں میں ہوں اَزل کی بے نقابی او ر اَ جل کی بھی سبھی امکاں کے اندر ہے جہاں میں ہوں نہ کوہِ...
  6. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی نذرِ داغ،،،،،،،،،،مصطفی زیدی

    اُمید و بیمِ دست و بازوِ قاتل میں رہتے ہیں تمہارے چاہنے والے بڑی مشکل میں رہتے ہیں نکل آ اب تو ان پردو ں سے باہر ، دُخترِ صحرا کہ باہر کم ہیں وہ طوفان جو محمل میں رہتے ہیں جنھیں دیکھا نہیں دنیا کی بے تعبیر آنکھوں نے بہت سے لوگ ان خوابوں کے مستقبل میں رہتے ہیں چلو...
  7. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی نذرِ غالب مصطفی زیدی

    اس کشمکشِ ذہن کا حاصل نہیں کچھ اور انکار کو ٹھکرائے نہ ، اقرار کو چاہے مفرور طلب رات کو حاصل کرے بن باس مغرور بدن گرمئ بازاز کو چاہے سنبھلے نہ خمِ زیست سے بوجھ آب و ہواکا آسائشِ دنیا درو دیوار کو چاہے آنکھیں روشِ دوست پہ بچھتی چلی جایئں...
  8. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی دو راہہ مصطفی ذیدی

    جاگ اے نرم نگاہی کے پراسرار سکوت آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے جو خود اپنے ہی سلا سل میں گرفتار رہے اُن خداوں سے میرے غم کی دواء کیا ہوگی سوچتے سوچتے تھک جایئں گے نیلے ساگر جاگتے جاگتے سو جائے گا مدھم آکاش اِس اچھلتی ہوئ شبنم کا ذرا سا قطرہ کسی معصوم سے رخسار پہ جم جائے گا ایک تارہ...
  9. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی شہرِ جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات مصطفی زیدی

    شہرِ جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات اُس شہر میں جہاں تیرے خوں سے حنا بنے یوں رائیگاں نہ جائے تری آہِ نیم شب کچھ جنبشِ نسیم بنے،کچھ دعا بنے اِس رات دن کی گردشِ بے سُود کے بجائے کوئ عمودِ فکر کوئ زاویہ بنے اِک سمت اِنتہاءَ اُفق سے نمود ہو اِک گھر دیارِ دیدہ و دل سے جدا بنے اِک داستانِ...
  10. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی چراغاں مصطفی زیدی

    تیری راہ پر ہم نے کلیاں بکھیری تھیں،تارے سجائے تھے کیا کچھ کیا تھا جو برسوں سے چاک و دریدہ چلا آرہا تھا ،وہ اپنا گریباں سِیا تھا نئے پھول مالی سے منگوائے تھے ،بام و در پر نیا رنگ و روغن کیا تھا کتابیں سلیقے سے رکھ دیں تھی،بوتل ہٹا دی تھی گھر میں چراغاں کیا تھا اگر عِلم ہوتا کہ تو آج کی شب نہ...
  11. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی سایہ مصطفی زیدی

    تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے دُھواں دُھواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی ہر ایک سمت سے چیخیں سنائ دیتی ہیں صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی گھنے درخت ، درو بام ، نغمہ و فانوس تمام سحر و طلسمات و سایہ و کابوس ہر ایک راہ پر آوازِ پائے نا معلوم ہر ایک موڑ پہ ارواحِ زِشت و بد کا جلوس...
  12. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا مصطفی زیدی

    کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا اِک رشتہ ءِ وفا تھا سو کس...
  13. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی افتاد مصطفی زیدی

    اے آتشِ تبسم و اے شبنمِ جمال خاموش آنسووں کی طرح جل رہے ہیں ہم تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ دانش کے باوجود برسوں تیری خیال میں پاگل رہے ہیں ہم ہر بزمِ رنگ و رقص میں شرکت کے ساتھ ساتھ تنہا رہے ہیں اور سرِ مقتل رہے ہیں ہم دیکھا ہے تونے ہم کو بہاراں کے روپ میں مجروح قافلے کی طرح چل رہے ہیں ہم سب...
  14. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا مصطفی زیدی

    اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا پلکوں پہ آکے رک سی گئ تھی ہر ایک موج کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا آکر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ...
  15. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی ۔ مصطفیٰ زیدی

    جب ہوا شب کو بدلتی ہوئ پہلو آئ مصطفی زیدی جب ہوا شب کو بدلتی ہوئ پہلو آئ مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئ میرے مکتوب کی تقدیر کے اشکوں سے دُھلا میرِی آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئ اپنے سینے پہ لِیے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ اب تو ان راہ گزاروں میں میری خو آئ...
  16. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ مصطفی زیدی

    غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ پہنچے سرِ صلیب فقط بے نشان لوگ اخلاقیاتِ عشق میں شامل ہے یہ نیاز ہم ورنہ عادتا" ہیں بہت خود گمان لوگ چھوٹی سی اک شراب کی دکان کی طرف گھر سے چلے ہیں سن کے عشاء کی اذان لوگ دل اک دیارِ رونق وَرم ہے لٹا ہوا گزرے اس طرف سے کئ مہربان لوگ اے دل انہی کے طرزِ...
  17. علی فاروقی

    مصطفیٰ زیدی ایک شام،،،،، مصطفی زیدی

    ایک شام یو ں تو لمحوں کے اس تسلسل میں اب سے پہلے بھی عمر کٹتی تھی موم بتی کی روشنی میں نظر حافظے کے ورق الٹتی تھی ریت کے سوگوار ٹیلوں پر چاندنی رات بھر بھٹکتی تھی آج لیکن تھکے ہوے دل پر جسم کا تار تار بھاری ہے شام کی دم بخود ہواوں پر صبح کا انتظار بھاری ہے مقبروں سے اٹھی ہوئ...
  18. ش

    مصطفیٰ زیدی اقوام متحدہ ۔۔ مصطفیٰ زیدی

    تم میں کیا کچھ نہیں؟ احساس ، شرافت ، تہذیب مجھ میں کیا ہے ؟ نہ بصیرت ، نہ فراست ، نہ شعور تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خوبی سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی دن آیا میں تو انُ تیرہ نصیبوں میں پلا ہوں جن کو تم سے وہ ربظ تھا جو بھوک کو اخلاق سے ہے ایسی دُزدیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو ہم تو...
  19. ش

    مصطفیٰ زیدی نوروز ۔۔۔ مصطفیٰ زیدی

    نوروز شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں جشنِ نوروز میں دھرتی کے دریچے جاگے سرخیاں چونک اُٹھیں ، تیرگیاں ڈوب گئیں تم بھی جاگو کہ یہ اعلانِ سحر خواب نہیں درد کا بوجھ بھی تھا ، بارشِ الزام بھی تھی میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک جُرعۂ شہر میں کچھ تلخی ایّام بھی تھی...
  20. ش

    مصطفیٰ زیدی تہذیب ۔۔۔۔ مصطفیٰ زیدی

    تہذیب ( ایک تمثیل) شہر میں غل تھا کہ بنگال کا ساحر آیا مصر و یونان کے اھرام کا سیّاحِ عظیم چین و جاپان کے افکار کا ماہر آیا ایک ٹیلے پہ طلسمات کا پہرہ دیکھا میں نے بھی دل کے تقاضوں سے پریشاں ہو کر آخر اسُ ساحر طنّاز کا چہرہ دیکھا کتنا مغرور تھا اس شخص کا مضبوط بدن کتنا...
Top