کلاسیکی غزل

  1. فرخ منظور

    ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے ۔ ثاقب لکھنوی

    ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا...
  2. فرخ منظور

    حسرت موہانی کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں ۔ حسرت موہانی

    کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں شورشِ‌ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں حُسن کو تیرے کیا کہوں، اپنی نظر کو کیا کروں غم کا نہ دل میں‌ ہو گزر، وصل کی شب ہو...
  3. فرخ منظور

    حسرت موہانی نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے ۔ حسرت موہانی

    نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے غمِ جہاں سے...
  4. فرخ منظور

    مہدی حسن شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں ۔ مہدی حسن

    شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں گلوکار: مہدی حسن کلام: میر تقی میر
  5. فرخ منظور

    سودا کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟ ۔ مرزا رفیع سودا

    اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔ کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟ نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟ سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟ ناصحا! اُٹھ...
  6. فاتح

    امیر مینائی سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔ امیر مینائی

    یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے...
  7. فرخ منظور

    بہادر شاہ ظفر ہمارے آپ خفا ہو کے کیا مکاں سے گئے ۔ بہادر شاہ ظفر

    ہمارے آپ خفا ہو کے کیا مکاں سے گئے تمہارے جانے سے یاں ہم بھی اپنی جاں سے گئے گئے جو کوچۂ قاتل میں آہ! حضرتِ دل مری طرف سے وہ اے ہمدمو جہاں سے گئے نہ آیا شام کے وعدے پہ تو جو ماہ لقا خدنگ آہ! گزر اپنی آسماں سے گئے گئے جو ہم سے خفا ہو کے حضرتِ ناصح بُرا بھلا ہمیں کہتے ہوئے زباں سے گئے قطعہ...
  8. فرخ منظور

    ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو ۔ شبلی نعمانی

    غزل ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو رہبری کی دہنِ یار کی جانب خط نے خضر نے چشمۂ حیواں یہ دکھایا ہم کو دل...
  9. فرخ منظور

    تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں ۔ شبلی نعمانی

    غزل تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے تم خفا ہو تو اجل ہی کو...
  10. فرخ منظور

    تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا ۔ شبلی نعمانی

    غزل تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی چاک آ کر تا بداماں رہ گیا دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا ہم تو پہنچے بزمِ جاناں تک مگر شکوۂ بیدادِ درماں رہ گیا کیا قیامت...
  11. فرخ منظور

    ولی دکنی شغل بہتر ہے عشق بازی کا ۔ ولی دکنی

    غزل شغل بہتر ہے عشق بازی کا کیا حقیقی و کیا مجازی کا ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام ذکر اُس زلف کی درازی کا ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی جب سوں دیکھا سوار تازی کا تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا آج تیری نگہ نے مسجد میں ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا گر نہیں راز فقر سوں...
  12. فرخ منظور

    امیر مینائی جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق ۔ امیر مینائی

    غزل جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق دل مرا شیشہ...
  13. فرخ منظور

    مہدی حسن دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں ۔ مہدی حسن

    دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں گلوکار: مہدی حسن شاعر: مرزا غالب دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟ لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں...
  14. کاشفی

    دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا - پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی

    غزل (پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی) دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا ساقی ہے کیا ، شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا یہ دل کی تازگی ہے ، وہ دل کی فسردگی اس گلشن ِ جہاں کی خزاں کیا بہار کیا کس کے فسونِ حسن کا دنیا طلسم ہے ہیں لوح آسماں پہ یہ نقش و نگار کیا اپنا نفس ہوا ہے گلوگیر وقت...
  15. فرخ منظور

    میر لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے ۔ میر تقی میر

    غزل لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے...
  16. فرخ منظور

    میر گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے ۔ میر تقی میر

    غزل گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں...
  17. فرخ منظور

    میر مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی ۔ میر تقی میر (اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی)

    غزل مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی...
  18. فرخ منظور

    میر طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی ۔ میر تقی میر

    غزل طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل ہمیں گلزار میں مدت سنا کی مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا نہیں تقصیر اس ناآشنا کی گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل رہی تھی جان سو برسوں جلا کی انہی نے...
  19. فرخ منظور

    سودا بے وجہہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا ۔ رفیع سودا

    غزل بے وجہہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گلزار دیکھنا نرگس کی طرح خاک سے میری اگیں ہیں چشم ٹُک آن کر یہ حسرتِ دیدار دیکھنا کھینچے تو تیغ ہے حرمِ دل کی صید پر اے عشق! پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا ہے نقصِ جان دید ترا پر یہی ہے دھن جی جاؤ یا رہو مجھے اِک بار دیکھنا اے طفلِ...
  20. الف عین

    یہی اک شہر میں۔۔۔۔۔ مظہر جانجاناں

    نہ تو ملنے کے وہ قابل رہا ہے نہ مجھ کو وہ دماغ و دل رہا ہے یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے نہیں آتا اسے تکیے پہ آرام یہ سر پاؤں سے تیرے ہِل رہا ہے ۔۔۔۔ مرزا مظہر جانجاناں
Top