فرخ منظور

  1. فرخ منظور

    احمد مشتاق غزل : کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں ۔از: احمد مشتاقؔ

    غزل کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور ایسی لذّت نہ...
  2. فرخ منظور

    تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا ۔ نوا

    تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا...
  3. فرخ منظور

    نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم ۔ وحشت

    نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم محوِ حیرت ہیں اب جہاں ہیں ہم ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم صبر و تاب و تواں کے جانے سے ہائے گُم کردہ کارواں ہیں ہم دل کی لے کر خبر بھی دل کی نہ لی پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم آ کے جلدی کرو مسیحائی اب کوئی دم کے میہماں ہیں ہم آئینہ...
  4. فرخ منظور

    مرگِ آذر (منٹو کی یاد میں) از نور بجنوری

    مرگِ آذر (منٹو کی یاد میں) از نور بجنوری مے کشو! بادۂ احمر کا چھلکتا ہوا جام لبِ ساقی کے چناروں کی طرف لوَٹ گیا آہ! وہ انجمِ افتادہ سرِ جادۂ غم ظلمتیں لے کے ستاروں کی طرف لوٹ گیا خارزاروں پہ چھڑک کر دلِ سرکش کا لہو آخرِ کار بہاروں کی طرف لوٹ گیا مدھ بھری سانولی راتوں کے رسیلے سپنے کس کے بے...
  5. فرخ منظور

    اختر شیرانی لے آئے اِنقلابِ سپہرِ بریں کہاں ۔ اختر شیرانی

    لے آئے اِنقلابِ سپہرِ بریں کہاں اللہ ہم کہاں وہ ثُریّا جبیں کہاں؟ در ہے نہ آستاں ، نہ حرم ہے نہ بُتکدہ یارب مچل پڑی ہے ہماری جبیں کہاں؟ سُورج کی سب سے پہلی کِرن خوشنما سہی لیکن تر ی نظر کی طرح دلنشیں کہاں؟ ہاں دل کی حسرتوں کا تو ماتم کریں گے ہم لیکن وہ خوں فشانیء چشمِ حزیں کہاں دامن...
  6. فرخ منظور

    نظیر ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے ۔ نظیر اکبر آبادی

    ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے مجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے...
  7. فرخ منظور

    تم ہی کہو کیا کرنا ہے ۔ فیض کی ایک نظم فرخ/سخنور کی آواز میں

    تم ہی کہو کیا کرنا ہے ۔ فیض کی ایک نظم فرخ/سخنور کی آواز میں
  8. فرخ منظور

    رقیب سے ۔ فیض احمد فیض کی نظم فرخ منظور/سخنور کی آواز میں

    رقیب سے ۔ فیض احمد فیض کی نظم فرخ منظور/سخنور کی آواز میں
  9. فرخ منظور

    حساب غرق ہوا، آفتاب غرق ہوا ۔ از فرخ منظور

    حساب غرق ہوا، آفتاب غرق ہوا وہ چاند نکلا تو اپنا عذاب غرق ہوا کتابِ عشق سے نخچیر سازی سیکھے تھے ملے ہیں تم سے تو سارا نصاب غرق ہوا بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا عبث ہے ڈھونڈنا امواجِ...
  10. فرخ منظور

    میری دوسری غزل -

    دل کے صحرا میں اب حباب کہاں تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟" مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں" اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں ایسا نکھرا مگرشباب کہاں بے طلب ہم کو جو کرے سیراب ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں مکتبِ عشق...
  11. فرخ منظور

    میری پہلی غزل "محفل" کی نذر

    میسّر اب قیادت ہو گئی ہے خصومت ہی سیاست ہوگئی ہے نشاطِ وصل کی جو آرزو تھی اب اس سے بھی عداوت ہوگئی ہے صنم ہم بھی کبھی پوجا کئے تھے سمٹ کر اب یہ وحدت ہوگئی ہے دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“ مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے جسے سمجھے تھے سعئ...
Top