تاجکستانی نصابی کتاب میں شبلی نعمانی کا تذکرہ

حسان خان

لائبریرین
تاجکستان کے مکاتب میں رائج ادبیاتِ تاجک: برائے صنفِ دہم کی کتاب میں صائب تبریزی پر مضمون میں یہ چیز پڑھنے کو ملی:

دانشمندِ هند شبلیِ نعمانی در 'شعرالجم' قضاوت می‌کند، که: "صائب، اگرچه تمامِ استادان و هم‌عصرانش را به ادب یاد می‌کرده، لیکن به بعضی اساتیدِ (استاد‌های) سخن نهایت عقیده‌مند بوده‌است. زیاده از همه، به خواجه حافظ ارادت می‌ورزد و این دلیلِ عمده‌ایست بر ذوقِ سلیمِ او..."
ترجمہ اور اصل اردو متن: ہند کے دانشمند شبلی نعمانی نے 'شعرالعجم' میں داوری کی ہے کہ: "صائب اگرچہ تمام اساتذہ بلکہ ہم عصروں کو ادب سے یاد کرتا تھا، لیکن خاص خاص اساتذہ کا نہایت معتقد تھا، سب سے زیادہ خواجہ حافظ کا معترف تھا اور یہ اس کی صحیح المذاقی کی بہت بڑی دلیل ہے۔"

مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تاجکستانی طلبہ ہمارے عالمِ شہیر شبلی نعمانی اور اُن کی ممتاز تصنیف ‘شعرالعجم’ کا نام اپنی نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں، لیکن اس خوشی سے فزوں تر افسوس یادِ ماضی کی اس تلخ بازگشت پر ہوا کہ محض ایک صدی قبل ہم بھی اس ہزار سالہ عظیم الشان فارسی تمدن اور فارسی زبان و ادب و ثقافت کے اس وسیع منطقے سے منسلک تھے، لیکن گذشتہ صدی میں جس طرح ہمارا اس بلند مرتبہ فارسی تمدن سے تعلق منقطع ہوا ہے اور نتیجتاً جس طرح ہماری مجموعی ادبی و ثقافتی حیات رو بہ زوال بلکہ رو بہ مرگ ہوئی ہے، اگر میں اس انقلابِ فجیعِ روزگار پر حکیمِ طوس فردوسی کی ہم نوائی کرتے ہوئے ‘تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو’ کہوں تو بالکل بجا ہے۔

ویسے، اسی صنفِ دہم کی کتاب میں ابوالمعانی میرزا بیدل عظیم آبادی پر بھی ایک ۲۶ صفحات کا تفصیلی مضمون شامل ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عربی زبان نے بھی ہماری ادبی اور تمدنی حیات میں گہرا کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا اردو داں اہلِ علم کو عربی زبان پر توجہ دینی چاہیے۔
 
عربی زبان نے بھی ہماری ادبی اور تمدنی حیات میں گہرا کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا اردو داں اہلِ علم کو عربی زبان پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
اردو داں خود اردو پر توجہ نہیں دے رہے۔ یہ ایک زوال پذیر زبان ہے ۔ فارسی کا حال بھی یہی ہے
 

تلمیذ

لائبریرین
اہل برصغیر کے فارسی اور اردو داںطبقے کے لئتے قابل فخر۔ شراکت کا شکریہ، عزیزم۔
آپ کے مراسلے کا دوسرا پیراگراف محل نظر ہے۔شاید یہ مرور زمانہ کے اثرات ہیں کہ شبلی جیسے نابغے ایک صدی کے بعد ہی فراموش کر دئیے جاتے ہیں۔
 
جو ملّت شبلی جیسے ادبی نابغوں کو ایک صدی میں فراموش کر دے، اُس ملّت کا خدا ہی حافظ ہے۔

درست
کچھ دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں سوال پوچھا گیاکہ شبلی نعمانی کی سیرہ البنوی کی کتاب ان کے کس شاگرد نے مکمل کی۔ شرکا کراچی کی یونی ورسٹیوں کے طالب علم تھے مگر کوئی جواب نہ دے سکا
 

محمد وارث

لائبریرین
جو ملّت شبلی جیسے ادبی نابغوں کو ایک صدی میں فراموش کر دے، اُس ملّت کا خدا ہی حافظ ہے۔

درست ہے خان صاحب۔

لیکن، یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارے مشاہیر کی پذیرائی کم تو ہو سکتی ہے لیکن اُن کا نام بالکل ہی فراموش نہیں ہو سکتا نہ ہی اُن کا کام اور نام مٹ سکتا ہے :)
 
Top