موجودہ حالات میں جمہوریت کافی نہیں ، قتال فی سبیل اللہ کو عام کرنا ہوگا، منور حسن

ظفری

لائبریرین
بہرحال وہ پرانی پوسٹ ملاحظہ فرمایئے ۔

آپ دیکھیں کہ یہاں جہاد کی کیسی توجیحات اور تشریحات پیش کیں جا رہی ہیں ۔ اور اپنی توجیحات اور تشریحات تک کا ان کے پاس جواب نہیں ۔

جہاد اسلام میں ایسے نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں کتابچوں میں بتایا جارہا ہے ۔ جہاد کے لیئے اسلام میں ایک پورا قانون ہے ۔ جس کو بڑی وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے چند بنیادی نکات ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئیں ۔ جہاد علماء نے نہیں بلکہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے ۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ لوگوں پہ اللہ تعالیٰ کے حدود ، کوئی عام آدمی نافذ کردے ۔ کوئی تنظیم نافذ کردے ۔ کوئی جماعت نافذ کردے ۔ یہ ذمہ داری باقاعدہ ایک حکومت کی ہے ۔ یہی ذمہ داری جہاد کے معاملے میں ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ جہاد کس مقصد کے لیئے کرتے ہیں ۔ اسلام میں جہاد ، نہ تو مالِ غنیمت کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ ہی دنیا کو تسخیر کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ کسی مذہبی تبلیغ کے لیئے ہوتا ہے ۔ نہ اپنا دین لوگوں پہ نافذ کرنے کے لیئے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نظام کے غلبے کے لیئے ہوتا ہے ۔ اسلام میں جہاد صرف " ظلم و ادوان " کے خلاف ہوتا ہے ۔ جس طریقے سے کوئی سرکش ہوجاتا ہے ۔ تو آپ اس کے خلاف اقدام کرتے ہیں ۔ جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا فرمائی ہے ۔ اس بنیادی بات کو پہلے سمجھ لینا چاہیئے ۔ اس دنیا میں اللہ نے امتحان کا جو پلان مقرر کر رکھا ہے ۔ اس کے لیئے اس نے یہ اہتمام کیا ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو آزاد رکھا جائے ۔ اور یہ عقل و رائے کی ہی آزادی ہے جس کو اللہ یوں بیان فرماتا ہے کہ " میں نے اپنے تکمیلی نظام میں لوگوں پر کوئی جبر نہیں کیا ( لا ابراھا فی دین ) ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں‌نےانسانوں‌کو یہ حق دیا ہے کہ " جس کا جی چاہے وہ ایمان قبول کرے ، جس کا جی چاہے وہ کفر اختیار کرے " ۔ یہ فرمان ہے آزادی کا حریت کا ۔ چنانچہ اللہ چاہتا ہے کہ دنیا میں جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کی آزادی رہے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں کتنی بلاغت کیساتھ فرمایا ہے کہ " یہ دن ( یوم النہر) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ مہینہ ( ذی الحج ) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ شہر ( مکہ ) جو حرمت رکھتا ہے ، اس سے بڑی اسلام میں اور کیا کسی کی ہوسکتی ہے ۔ مگر یہاں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر حرمت تمہاری جان ، مال ، آبرو کو حاصل ہے ۔ " سو یہ وہ حرمت ہے ۔ جس کی حفاظت کرنا ہر اجتماعی نظام کی ذمہ داری ہے ۔ یہی حفاظت ، حکومت ایک قانون بنا کر کرتی ہے ۔ اگر قومیں سرکش ہوجائیں تو پھر ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے ۔ جہاد ایک وسیع اصطلاح ہے ۔ جہاد صرف جنگ کے لیئے قرآن مجید میں استعمال نہیں‌ ہوتا ۔ اصل لفظ قتال ہے ۔ اور قتال کا حکم لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو حکومتوں ، قوموں ، قبیلوں ، جماعتوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے ہے ۔
اگر اس نوعیت کا کہیں ارتکاب ہو رہا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ جان و مال اور آبرو و عقل رائے کے خلاف ظلم ہورہا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاد فوراً فرض ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کے پاس اس ظلم کا ازالہ کرنے کی طاقت ہے تو تب آپ جہاد کے لیئے اٹھیں گے ۔ اس کے لیئے قرآن مجید نے نسبت و تناسب کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور جب یہ ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر ڈالی گئی تو 1 نسبت 2 کی حساب سے ڈالی گئی ۔ اس وقت مسلمان کہاں جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر یہ پوزیشن میسر نہیں ہے تو پھر تصادم کی فضا نہ پیدا ہونی دی جائے ۔ آپ حالات میں خرابی نہ پیدا ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں تاکہ آپ اپنے اندر طاقت بھی پیدا کریں اور قوت بھی پیدا کریں ورنہ جرم ِ ضعیفی کی سزا ، مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر اس کے بعد آپ خودکشی کریں گے ۔ اور اب کیا ہورہا ہے ۔ افغانستان میں جہاد کرکے ہم نے کیا کیا ۔ سامراجی قوتوں کے جانے کے بعد ہم نے اپنے ہی لوگوں کے گلے کاٹے ۔ اب پاکستان میں بھی ہم جہاد کر رہے ہیں ۔ کس کے خلاف کر رہے ہیں ۔ خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں ۔ اصل میں جہاد کو جب ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے قانون سے مبرا قرار دیکر اپنے نظریوں اور عقائد میں ڈھال لیا ہے ۔ اور اب ہر جگہ کا ایک امیر المومینن ہے ۔ جس کے ہاتھ میں اب لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل رائے کا اختیار آگیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہیں کسی کو بھی اغواء کرکے ، اس کے سر قلم کے مناظر والی وڈیو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ کسی بھی خاتون کا فاحشہ قرار دیکر اس کو زندگی سے محروم کردیں ۔۔۔ جب اس سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اب کم عمر بچوں کو ورغلا کر انہیں بازاروں ، چوراہوں ، مسجدوں ، جنازوں ، شادیوں وغیرہ میں خود کش حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ہے وہ جہاد ۔۔۔ جس کی نوید مولوی عرصے سے سنا رہے ہیں ۔ اور یہ ہے وہ آثار جس کے بعد مسلمان ایک عظیم قوم بن کر سامنے آنے والی ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
ایک قاری بہن کے سوال کا جواب جو 313 اصحابہ کرام کے جہاد سے متعلق تھا ۔

آپ سے ایک سوال ہے کہ کیا کبھی آپ کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ جو کہا جارہا ہے ۔ اس کا ماخذ کیا ہے ۔ اس کا پس منظر کیا ہے ۔ یا جو بات کہی جارہی ہے اور اس کا تعلق اگر قرآن سے ہے تو اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک سورہ کی دو آیتیں اوپر سے اور دو آیتیں آخر سے لیکر ایک تاثر دیدیا گیا ہو اور سورہ کا اصل ماخذ پس منظر میں چلا گیا ہے ۔ یا آپ نے کبھی اس قسم کی تحقیق کی ۔ یا بیان سن کر یا پڑھ کر فورا ً ہی یقین کر لیا کہ بس یہی صحیح ہے ۔ اور یہ حرفِ آخر ہے ۔ ا سکے بعد اس میں کسی تصحیح یا غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔ آپ کیساتھ یقیناً ایسا ہی ہے ۔ کیونکہ میں‌ نے قرآن مجید کی جہاد کے بارے میں بنیادی باتیں لکھیں ہیں ۔ اور اگر آپ نے اس کو غور سے پڑھا ہوتا تو آپ میرے کسی جملے کو " کوٹ " کرتیں اور کہتیں کہ یہاں مجھے اختلاف ہے کیونکہ یہ بات میرے علم میں اس طرح آئی ہے جو آپ کی بات سے بلکل مختلف ہے ۔ یہ کسی بھی بحث کا علمی انداز ہوتا ہے ۔ جہاں انسان حقائق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ خیر میں یہاں زیادہ نہیں الجھتا ۔ آپ کے باقی سوالوں‌کا جوابات میں جلد ہی یہاں پوسٹ کروں گا ۔ مگر ابھی میں نے جو ریڈ کلر میں آپ کا سوال ظاہر کیا ہے ۔ اس کامیں جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کو جہاد کے معاملے میں اللہ کے قانون کا تھوڑا بہت اندازہ ہوجائے ۔
آپ نے سوال کیا ہے تو آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ اس 313 صحابہ پر مشتمل لشکر کا پسِ منظر کیا تھا ۔ یعنی مدینہ میں تھے ۔ یعنی ہجرت کرکے مدینہ آچکے تھے ۔ اپنا سامان حرب جیسے تیسے تیار کر چکے تھے ۔ مکہ والے ان پر حملہ کرنے آرہے تھے ۔ یہ لوگ مکہ والوں پر حملہ کرنے نہیں نکلے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اللہ سے جو دعا مانگی وہ یہ تھی " اے اللہ ! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی “
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی ’’سورۃ انفال‘‘ میں اس کا ذکر ہے۔
اب آپ آئیں مکہ کی طرف ۔۔۔ کفار کے مظالم عروج پر ہیں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ ہجرت کا حکم آجاتا ہے ۔ یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے جتنے بھی دوچار ساتھی ہیں وہ آپ کیساتھ آگے بڑھیں اور ان کفار کیساتھ جہاد کریں ۔ اللہ فتح نصیب فرمائے گا ۔ یہاں اللہ نے مصلحت کا راستہ اختیار کرنے کو کہا ۔ ہجرت کا حکم صادر فرمایا ۔ ایک خاص جگہ جاکر اپنی جماعت کو مضبوط کرنے کو کہا گیا ۔ مگر جب وقت سے پہلے حالات ایسے ہوگئے کہ جنگ ناگزیر ہوگئی تو اللہ نے فتح دلادی ۔ اب آپ جنگ ِ احد کو بھی دیکھیں کہ وہاں فتح نہ ہونے کے اسباب کیا تھے ، جبکہ اللہ کے پیغمبر اس وقت موجود تھے ۔ اس پر بھی غور فرمائیں ۔
اس کے بعد آپ دیکھ لیں کہ اللہ نے ایک نسبت دو کے تناسب سے جنگ کرنے کا حکم دیا ۔ یعنی دشمن کے مقابلے میں کم ازکم نصف طاقت ضرور حاصل ہو تب اللہ مدد فرمائے گا ( اس میں بھی اللہ کی حکمت پوشیدہ ہے ۔ ورنہ ہر جماعت ، ہرجھتہ ، ہر فرد آج کی طرح اس وقت بھی جہاد کرنے نکل پڑتا ) ۔ آج ہم جہاد کے معاملے میں کہاں کھڑے ہوئے ہیں ۔ لوگ 313 کی تعداد کا حوالہ تو ضرور دیتے ہیں مگر ا سکا صحیح پس منظر بیان نہیں کرتے کہ اللہ نے ان کو کیوں ، کس طرح فتح نصیب فرمائی ۔ کیا آپ سمجھتیں ہیں کہ آج کسی جماعت کو 313 کا ہندسہ حاصل ہوجائے تو کیا اس کو دشمن کے مقابلے میں فتح حاصل ہوجائے گی ۔
آپ تاریخ اٹھائیں اور دیکھیں کہ مسلمانوں میں جو مزاحمتوں کی جو تحریکیں اٹھیں ۔ اس میں آپ نے جہاد بھی کیا ، آپ کے بڑے صالحین جہاد کرنے کے لیئے اٹھے ۔ تاریخ پر ایک نظر ڈال کر دیکھئے کہ کہاں کامیابی ہوئی ۔ اصل میں دنیا کے اندر میدان جنگ میں کامیابی کی اپنی ایک سائنس ہے ۔ اور اسی کے مطابق کامیابی ہوگی ۔ ٹیپو سلطان کو کامیابی ہوئی ، بخت خان کو جنگِ آزادی میں کامیابی ہوئی ۔ ؟ سید احمد شہید کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ مہدی سوڈانی کو کامیابی ہوئی ۔ انور پاشا کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ امام شامل کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ ملا عمر کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ صدام حسین کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ جنگِ رمضان میں مصر کو کامیابی ہوئی ۔؟ کارگل میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ ؟
آج آپ کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ذرا ان سے اپنی نسبت اور تناسب کا موازانہ تو کیجئے ۔ صفر اور لاکھ ہے ۔ ہے کیا آپ کے پاس ۔ ؟ نہ آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے ، نہ آپ کے پاس علوم ہے ، نہ آپ کے پاس کوئی پس منظر ہے ، نہ آپ کی اقتصادی حالت اس قابل ہے ۔ جنگ کیا کوئی کھیل ہے کہ کوئی قوم آج جنگ کا فیصلہ کر لے ۔ ہمارے پاس آج رہنمائی اور جنگ کا کیا طریقہ ہے کہ آپ یہاں ایک بم چلا دیں ، وہاں ایک خودکش حملہ کردیں ، معصوم لوگوں کے پرخچے اڑادیں ۔ گھر جاتی ہوئی ، راہ چلتی ہوئی عورتوں کو قتل کردیں ۔ یہ تو ایک بدترین ظلم ہے ۔ آپ کو جہاد کرنا ہے تو اس کے لیئے تو آپ کو طاقت چاہیئے ۔ وہ ہوگی تو ہوگا ، ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس وقت ہمیں اپنے لیئے امن کا وقفہ حاصل کرنا ہے ۔ جس کے دوران ہم اپنی ارسرِنو تعمیر کرسکیں ۔ قومیں مہینوں یا سالوں میں نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے صدی بھی لگ سکتی ہے ۔ پانچ سو سال قبل جب ہمارا زوال شروع ہوا تھا اگر یہی حکمتِ عملی اس وقت اختیار کر لی جاتی تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔ جب تک ہمیں امن کا زمانہ میسر نہیں آئے گا ہم کبھی بھی اپنی تعمیر اور ترقی کی راہ پا نہیں سکتے ۔ لہذا کسی کی طاقت اور ظلم کا رونا رونے کے بجائے ، ہمیں اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں کا ازالہ کرنا پڑے گا ۔ بصورتِ دیگر ایک بھٹکی اور انتشار میں گھری قوم کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔
 

زیک

مسافر
بہت سارے محققین قائل ہیں۔۔۔ اور میں خود ذاتی طور پر اسی طرف مائل ہوں۔۔۔ کہ جب تک آپ کو دفاع کی ضرورت نہ پڑے اس وقت تک کوئی جہاد نہیں ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں۔۔۔ ان سب کا بیک گراونڈ اگر صحیح طرح دیکھا جائے۔۔۔اور درست طریقے سے تحلیل کی جائے۔۔۔ تو معلوم ہوگا۔۔ کہ وہ ساری جنگیں بھی دفاعی تھیں۔
پہلے پیرے سے متفق اور دوسرے سے غیر متفق
 
محترم بھائی۔۔ نہایت احترام کے ساتھ عرض کروں گا۔۔۔ آپ نے لکھا ہے کہ اسی محفل پر میرا یہ سرخ کیا ہوا جملہ( ایرانی طرز کا خونی انقلاب ناگزیر ہے)وجود ہے۔۔۔
ذرا اس جملے کا لنک تمام لوگوں کو دیں۔۔۔ تاکہ آپ کےسچ اور جھوٹ کا علم سب کو ہوجائے۔۔۔۔
بجائے اس کے کہ آپ منور حسن کے اس جاہلانہ بیان کی مذمت کرتے۔۔۔ میرے اوپر چڑھائی کرنے آئے۔۔۔
اور پھر آپ کی یہ منطق بھی عجیب ہے۔۔ ۔ کہ قادری اور عمران خان نے خون سے انقلاب آنے کی بات کی ہے۔۔۔۔ ارے بھائی۔۔ انہوں نے خون دینے کی بات کی ہے(اور ہم چودہ صدیوں سے خون دیتے آئے ہیں، آج بھی پاکستان میں مظلوم ہیں، لیکن الحمد للہ کسی کے خون کو حلال قرار نہیں دیا، کسی پر خودکش نہیں کیا، کسی فوجی کو نہیں مارا)۔۔۔ خون لینے کی بات ہرگز نہیں کی۔
جبکہ آپ کے منور حسن صاحب جہاد اور قتال کی بات کر کے خون لینے کی بات کررہے ہیں۔۔۔ ان کے اس بیان کی مذمت سے آپ کو غصہ نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔ نہیں معلوم کیاوجہ ہے؟؟؟

آئندہ اگر کسی خبر کو شئیر کرنے سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے ۔۔ تو آپ پہلے بتادیں کہ اس طرح کی خبر شئیر نہ کریں۔۔۔ ہم نہیں کریں گے۔۔۔

اب آپ کی یہی بات کہ تفرقے کی آپ نفی کرتے ہیں۔۔۔ تو ذرا یہ بتا دیں کہ منور حسن کے اس بیان سے۔۔ قتال اور جہاد سے۔۔۔تفرقہ آئے گا یا اتحاد ویگانگی؟
وہ جہاد کس کے خلاف کرنے جارہے ہیں؟؟ اتنا ہی اگر شوق ہے تو چلے جائیں افغانستان۔۔۔یا غزہ اور خوب جہاد کریں۔۔۔ پاکستان میں وہ کس کو پکار رہے ہیں؟؟ آیا وہ اپنے سیاسی یا مذہبی مخالفین کو دھمکی تو نہیں دے رہے؟؟
سب سے زیادہ اتحاد، وحدت اور بھائی چارے کے داعی ہم ہیں۔۔۔ اور اس کا عملی مظاہرہ پاکستان میں بارہا کرچکےہیں۔۔ آج بھی پاکستان کے شیعہ، سنی، عیسائی اور دسری اقلیتیں متحد ہیں۔۔ اور اس جہادی وتکفیری کلچر کو اکھاڑ پھیکنا چاہتے ہیں۔
آپ کی دی گئی خبر سے تکلیف نہیں ہونی آپ کا طرز واضع ہے تو بحث کیسی اور یہی میں نے بیان کیا کہ آپ سے تو کوئی گلہ ہے ہی نہیں آپ کی پوسٹس ہوتی ہی یک طرفہ ہیں۔
یہ آپ کے انقلاب والی پوسٹ کچھ زیادہ دور نہیں گئی ہوگی دھرنوں والے کسی نہ کسی مراسلے میں ہی نظر آ جائے گی آپ کو اور یاد تو ہو گی ہی ویسے بھی اپنی سوچ کو یاد کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ معذرت کہ میرے پاس وقت کی تنگی ہے آپ کی تمام پوسٹس میں نہیں کھنگال سکتا :)
منور حسن کی جاہلت کی میں نے اس پر سو بار لعنت بھیج کر مذمت کی تو ہے اس طرح تو ہمت آپ نے بھی نہیں کی، اگر کہیں تو کسی جلسے میں اس جاہل کو جوتا مار کر سند حاصل کر لوں آپ سے۔
میں نے گلہ تو ان لوگوں سے کیا جن کے نشتر میں تیر پہلے سے تیار تھے اور وہ برسانا شروع ہو گئے۔ مجھے اس طرزِ عمل افسوس ہوا ورنہ میرا دور دور تک منور حسن اور ان کے پیشروؤں اور ان کے مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے افسوس تو اس ماحول کے بگڑنے کا ہوتا ہے جسے بہت سے لوگ سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔

آپ کو چاہیے تھا آپ خبر کے ساتھ اس کی سورس کا لنک بھی دیتے۔ اور نہ ہی یہاں سے کسی نے پوچھنے کی زحمت کی۔

منور حسن جاہل اور لعین ہے یہاں موجود اس پر تنقید کرنے والے تو نہیں نا۔ تو طرزِ عمل بھی مختلف ہونا چاہیے تھا ، یہ کیا کہ جیسے مائک یا موقع ملنے کی دیر تھی۔
 

عثمان

محفلین
میرا خیال ہے ہالوکاسٹ ہمارے ایمان کا حصہ نہیں اس لیے نا ہٹلر سے نفرت یا اس سے ملاقات کرنے والوں یا اس کے مداحوں سے ہماری نفرت کی کوئی وجہ بنتی ہے۔
:eek:
اور کون کون سے شرپسندوں سے نفرت نہ کرنا آپ کے ایمان کا حصہ نہیں ؟
 
:eek:
اور کون کون سے شرپسندوں سے نفرت نہ کرنا آپ کے ایمان کا حصہ نہیں ؟
میں نے ہالوکاسٹ کی بات کی ہے۔
پراپیگینڈے اور صرف اس وجہ سے کہ یورپ ہٹلر کے خلاف لڑ رہا تھا میں اس کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ جنگیں لڑنے کے لیے وجوہات بنائی جاتی ہیں اور پروپیگیٹ کی جاتی ہیں، کوئی نئی بات نہیں۔
ہٹلر پاگل نہیں تھا کہ صبح اٹھ کر لڑنا شروع ہو گیا وجوہات تھیں ویسی ہی وجوہات جیسی مغرب اور امریکہ کے پاس تھیں اس سے لڑنے کے لیے۔

×× ویسے معافی چاہتا ہوں میرا ہر گز مقصد آپ کی دل آزاری نہیں تھا۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
میں نے ہالوکاسٹ کی بات کی ہے۔
پراپیگینڈے اور صرف اس وجہ سے کہ یورپ ہٹلر کے خلاف لڑ رہا تھا میں اس کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ جنگیں لڑنے کے لیے وجوہات بنائی جاتی ہیں اور پروپیگیٹ کی جاتی ہیں، کوئی نئی بات نہیں۔
ہٹلر پاگل نہیں تھا کہ صبح اٹھ کر لڑنا شروع ہو گیا وجوہات تھیں ویسی ہی وجوہات جیسی مغرب اور امریکہ کے پاس تھیں اس سے لڑنے کے لیے۔

×× ویسے معافی چاہتا ہوں میرا ہر گز مقصد آپ کی دل آزاری نہیں تھا۔
منکرین ہولوکاسٹ سمیت بھانت بھانت کی سازشی تھیوریوں پر ایمان رکھنے والوں کا نیٹ پر عام گزر رہتا ہے۔ میرا دل ان سب کا سامنا کرنے میں کافی مضبوط ہوچکا ہے۔ آپ کو مجھ سے معافی کی ضرورت نہیں۔
 

منقب سید

محفلین
حسینی ظفری
برادران میں عمل کے لحاظ سے بے عمل ہی سہی لیکن ہوں تو مسلمان ہی۔ قرآن و حدیث کے احکامات کی اہمیت میرے نزدیک بھی اتنی ہی ہے جتنی ایک عام مسلمان کے نزدیک۔ جہاں تک میں اپنی ناقص عقل کے مطابق سمجھ پایا ہوں تو اسلام میں پہلا کام دعوت و تبلیغ کا ہے۔ دور جاہلیت قدیم میں اسلام کے پھیلنے کا انحصار برداشت کے جذبے کے زیر اثر رہتے ہوئے دعوت و تبلیغ پر تھا۔ اس وقت مسلمان مسلمان ہوتا تھا اور کافر کافر۔ جہاد کے احکامات پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل کیا جاتا تھا۔ امام المجاھدین کسی بھی عام مجاہد سے زیادہ چاک و چوبند تھے۔ تب اقتدار یا مال غنیمت کا حصول فقط ترویج اسلام اور احکامات الہیہ کے اتباع کے لئے تھا۔ اب دور جاہلیت جدید ہے جس میں اسلام کو اتنا خطرہ یہود نصاریٰ سے نہیں جتنا باہمی مسلکی اختلافات سے ہے۔ ایک دوسرے کو کافر کہہ کر اپنے پیروکاروں سے داد و تحسین وصول کرنا اور جہاد کے نام پر بیت المال بھر کے بھی ایجنسیوں یا خفیہ ہاتھوں سے GIVE MORE کا مطالبہ کرنا کہاں کا اسلام ہے؟ چلیں کچھ دیر کو تسلیم کر لیں کہ جہاد اپنی اصل روح کے ساتھ جاری ہے اور ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا چُکا ہے۔ اب یہ بتائیں اس کا خلیفہ کیا ہوگا؟ سُنی؟ شیعہ؟ دیوبندی؟وہابی؟ یا کسی اور مسلک سے؟ برادران جہادی ٹرمنالوجی صرف نوجوانوں کی حد تک ہے مرکزی سطح پر کیا چل رہا ہے یہ وہاں تک پہنچ کر اور اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی علم میں آتا ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر حقیقی معنوں میں جہاد نہیں ہو رہا کیوں کہ ایک حدیث ابو داود میں موجود ہے وہ ان الفاظ کے ساتھ ہے"وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ" (جہاد اس وقت سے جاری ہے جب سے اللہ تعالی نے مجھے مبعوث فرمایا اور وہ جاری رہے گا یہاں تک کہ میری امت کا آخری گروہ دجال سے قتال کرے گا) دیکھیں ضعیف ابوداود 2532. گو کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اگر اسے ہی بنیاد بنا کر اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ہاں واقعی جہاد جاری ہے دنیا میں کہیں نہ کہیں تو بہرحال مجھ جیسے عام مسلمان کے علم میں نہیں ہے اور ہمیں تو وہی نظر آتا ہے جو نظروں کے سامنے ہے اور جو نظروں کے سامنے ہے اسے دل اس لئے جہاد تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ یہ مسلکی اختلافات کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
(مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں).
{اس کی سند میں يزيد بن أبي نُشبةَ ہے جس کے بارے میں ابن حجر التقريب میں فرماتے ہیں "مجهول" (مجہول ہے)۔ اسی وجہ سے فتح الباری 6/67 میں فرمایا "وفي إسناده ضعفٌ" (اس کی اسناد میں ضعف ہے). البتہ یہ الفاظ علماء کرام نے اپنی عقائد کی کتاب میں ضرور ذکر کئے ہیں جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "والحج والجهاد ماضيان مع ولي الأمر من المسلمين،برهم وفاجرهم، إلى قيام الساعة، لايبطلهما شيئ ولاينقضهما" شرح العقيدة الطحاوية 387 (حج اور جہاد مسلمانوں کے حکمرانوں کے ساتھ تاقیام قیامت جاری وساری رہیں گے خواہ وہ حکام نیک ہوں یابد، انہیں کوئی بھی چیز باطل یا ساقط نہیں کرسکتی)
(جہاد اس وقت سے جاری ہے جب سے اللہ تعالی نے مجھے مبعوث فرمایا) حدیث کے ان الفاظ میں بھی رد ہے ان پر جو دعوت وتبلیغ کو ضعف کی حالت میں جہاد میں شمار نہیں کرتے اور لازماً ہر آن جہاد بالسیف پر ان احادیث کو محمول کرتے ہیں کہ اس حدیث میں فرمایا جب سے مجھے اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا وہی والا جہاد تاقیام قیامت ہر وقت جاری وساری ہے جبکہ ہم جانتے ہیں جہاد بالسیف تو بعثت کے فوراً بعد مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں فرض نہیں ہوا بلکہ وہ تو مدینہ نبویہ میں ہجرت فرمانے کے بعد ہی فرض ہوا ہے۔ جہاد کی دو اقسام ہے ایک جہادِ طلب جس میں مسلمان خود کافروں کو اسلام یا جزیہ کے دعوت دینے کے بعد ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دوسری قسم جہاد ِدفاع ہے جس میں کافر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو مسلمان اپنا دفاع کرتے ہیں}.
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
آپ کو چاہیے تھا آپ خبر کے ساتھ اس کی سورس کا لنک بھی دیتے۔ اور نہ ہی یہاں سے کسی نے پوچھنے کی زحمت کی۔۔
قبلہ سورس تو اسی خبر میں لکھا ہواتھا۔۔۔۔ دنیا نیوز
البتہ لنک دینے کی میں نے ضرورت محسوس نہیں کی۔۔۔ ویسے بھی اگلے دن کے اکثر اخبارات کی شہہ سرخی یہی خبر تھی۔
اگر خبر جھوٹی ہوتی تو یقینا آپ کو مجھ سے گلہ ہونا چاہیے تھا کہ خواہ مخواہ میں جھوٹی باتیں پھیلا رہے ہو۔۔۔ جب خبر سچی ہو تو پھر کوئی شکایت نہ ہونی چاہیے۔
بہر حال مہم خبر کے اندرموجود پیغام ہے۔۔۔ جس سے آپ بھی میری طرح غیر متفق ہیں۔۔ا ور مذمت کرتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
سب کو جہاد کا شوق ہے مگر جہاد اصغر کا کوئی جہاد اکبر کی تو بات ہی نہیں کرتا کیوں کے سب کو پتا ہے وہ کس طرح کے لوگ ہیں اور یہ کام ان سے ہو نہیں پائے گا
 
جهاد اکبر اور جهاد اصغر کے بارے میں تفصیل یہاں دیکھ لیں۔

حق کی تبلیغ جہاد ہے ۔میں تو کہوں گا کہ میں حق پر ہوں اور جو تبلیغ میں کروں گا وہ حق ہے۔ بہت سارے لوگ جو مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں کہیں گے کہ یہ خالد محمود چوہدری تو خود کافر ہے ۔ اور جب آپ تبلیغ کریں گے تو میں آپ میں سو سو نقص نکالوں گا۔



آج کے دور میں حقیقی اور اوّلین جہاد اپنی ذات میں کمزوریاں تلاش کرنا اور اپنی اصلاح کرنا اصل جہاد ہے۔ نہ کہ دوسروں کو غلط سمجھنا اور انہیں اپنی سوچ اور فکر کے مطابق چلانے کی کوشش کرنا خاص طور پر جبراً۔۔۔۔۔


اگر ہم میں سے ہر ایک صرف اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح کی طرف ساری توجہ دے اور خود کو انبیاء سلام اللہ علیہما اور خصوصاً حضرت محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ کے نقشِ قدم پر چلانے کی کوشش کرے تو معاشرہ بتدریج صحیح راستہ پر آسکتا ہے۔


جہاد بمعنی قتال والے معاملہ کو حکومت کے لئے رہنے دیں۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حاکم تو جہاد کے اصل کو نہیں جانتے تو خاموش رہیئے اللہ تعالیٰ سے اچھے حکمرانوں کیلئے دعا کیجئے جب تک آپ اپنے ووٹ کی طاقت سے ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔

اور اگر آپ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے حکمرانوں کو یا نظام کو بدل نہیں سکتے اور آپ حکمرانوں اور معاشرہ کے مظالم سے تنگ ہیں تو تاوقت یہ کہ حکومت اور حکمران آپ کی مرضی کے نہیں آجاتے ہجرت فرما لیجئے۔۔۔۔۔۔


تاریخ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے حقیقی پیروکار ظالم کسی بھی صورت نہیں ہو سکتے ہاں مظلوم ہو سکتے ہیں
 

فیصل حسن

محفلین
بہرحال وہ پرانی پوسٹ ملاحظہ فرمایئے ۔

آپ دیکھیں کہ یہاں جہاد کی کیسی توجیحات اور تشریحات پیش کیں جا رہی ہیں ۔ اور اپنی توجیحات اور تشریحات تک کا ان کے پاس جواب نہیں ۔

جہاد اسلام میں ایسے نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں کتابچوں میں بتایا جارہا ہے ۔ جہاد کے لیئے اسلام میں ایک پورا قانون ہے ۔ جس کو بڑی وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے چند بنیادی نکات ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئیں ۔ جہاد علماء نے نہیں بلکہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے ۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ لوگوں پہ اللہ تعالیٰ کے حدود ، کوئی عام آدمی نافذ کردے ۔ کوئی تنظیم نافذ کردے ۔ کوئی جماعت نافذ کردے ۔ یہ ذمہ داری باقاعدہ ایک حکومت کی ہے ۔ یہی ذمہ داری جہاد کے معاملے میں ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ جہاد کس مقصد کے لیئے کرتے ہیں ۔ اسلام میں جہاد ، نہ تو مالِ غنیمت کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ ہی دنیا کو تسخیر کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے ۔ نہ کسی مذہبی تبلیغ کے لیئے ہوتا ہے ۔ نہ اپنا دین لوگوں پہ نافذ کرنے کے لیئے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نظام کے غلبے کے لیئے ہوتا ہے ۔ اسلام میں جہاد صرف " ظلم و ادوان " کے خلاف ہوتا ہے ۔ جس طریقے سے کوئی سرکش ہوجاتا ہے ۔ تو آپ اس کے خلاف اقدام کرتے ہیں ۔ جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا فرمائی ہے ۔ اس بنیادی بات کو پہلے سمجھ لینا چاہیئے ۔ اس دنیا میں اللہ نے امتحان کا جو پلان مقرر کر رکھا ہے ۔ اس کے لیئے اس نے یہ اہتمام کیا ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو آزاد رکھا جائے ۔ اور یہ عقل و رائے کی ہی آزادی ہے جس کو اللہ یوں بیان فرماتا ہے کہ " میں نے اپنے تکمیلی نظام میں لوگوں پر کوئی جبر نہیں کیا ( لا ابراھا فی دین ) ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں‌نےانسانوں‌کو یہ حق دیا ہے کہ " جس کا جی چاہے وہ ایمان قبول کرے ، جس کا جی چاہے وہ کفر اختیار کرے " ۔ یہ فرمان ہے آزادی کا حریت کا ۔ چنانچہ اللہ چاہتا ہے کہ دنیا میں جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کی آزادی رہے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں کتنی بلاغت کیساتھ فرمایا ہے کہ " یہ دن ( یوم النہر) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ مہینہ ( ذی الحج ) جو حرمت رکھتا ہے ، یہ شہر ( مکہ ) جو حرمت رکھتا ہے ، اس سے بڑی اسلام میں اور کیا کسی کی ہوسکتی ہے ۔ مگر یہاں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر حرمت تمہاری جان ، مال ، آبرو کو حاصل ہے ۔ " سو یہ وہ حرمت ہے ۔ جس کی حفاظت کرنا ہر اجتماعی نظام کی ذمہ داری ہے ۔ یہی حفاظت ، حکومت ایک قانون بنا کر کرتی ہے ۔ اگر قومیں سرکش ہوجائیں تو پھر ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے ۔ جہاد ایک وسیع اصطلاح ہے ۔ جہاد صرف جنگ کے لیئے قرآن مجید میں استعمال نہیں‌ ہوتا ۔ اصل لفظ قتال ہے ۔ اور قتال کا حکم لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل و رائے کو حکومتوں ، قوموں ، قبیلوں ، جماعتوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے ہے ۔
اگر اس نوعیت کا کہیں ارتکاب ہو رہا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ جان و مال اور آبرو و عقل رائے کے خلاف ظلم ہورہا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاد فوراً فرض ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کے پاس اس ظلم کا ازالہ کرنے کی طاقت ہے تو تب آپ جہاد کے لیئے اٹھیں گے ۔ اس کے لیئے قرآن مجید نے نسبت و تناسب کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور جب یہ ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر ڈالی گئی تو 1 نسبت 2 کی حساب سے ڈالی گئی ۔ اس وقت مسلمان کہاں جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اگر یہ پوزیشن میسر نہیں ہے تو پھر تصادم کی فضا نہ پیدا ہونی دی جائے ۔ آپ حالات میں خرابی نہ پیدا ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں تاکہ آپ اپنے اندر طاقت بھی پیدا کریں اور قوت بھی پیدا کریں ورنہ جرم ِ ضعیفی کی سزا ، مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر اس کے بعد آپ خودکشی کریں گے ۔ اور اب کیا ہورہا ہے ۔ افغانستان میں جہاد کرکے ہم نے کیا کیا ۔ سامراجی قوتوں کے جانے کے بعد ہم نے اپنے ہی لوگوں کے گلے کاٹے ۔ اب پاکستان میں بھی ہم جہاد کر رہے ہیں ۔ کس کے خلاف کر رہے ہیں ۔ خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں ۔ اصل میں جہاد کو جب ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے قانون سے مبرا قرار دیکر اپنے نظریوں اور عقائد میں ڈھال لیا ہے ۔ اور اب ہر جگہ کا ایک امیر المومینن ہے ۔ جس کے ہاتھ میں اب لوگوں کی جان ، مال ، آبرو اور عقل رائے کا اختیار آگیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہیں کسی کو بھی اغواء کرکے ، اس کے سر قلم کے مناظر والی وڈیو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ کسی بھی خاتون کا فاحشہ قرار دیکر اس کو زندگی سے محروم کردیں ۔۔۔ جب اس سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اب کم عمر بچوں کو ورغلا کر انہیں بازاروں ، چوراہوں ، مسجدوں ، جنازوں ، شادیوں وغیرہ میں خود کش حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ہے وہ جہاد ۔۔۔ جس کی نوید مولوی عرصے سے سنا رہے ہیں ۔ اور یہ ہے وہ آثار جس کے بعد مسلمان ایک عظیم قوم بن کر سامنے آنے والی ہے ۔
ذرا بولڈ الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں، کیا یہ بہتر نہ ہو کہ سنجیدہ نوعیت کی ایسی تحریر کو ایک نظر، پوسٹ کرنے سے قبل پھر دیکھ لیا جائے؟ یہ صرف املا کی اغلاط نہیں بلکہ ایک آیت و چند تراکیب و اصطلاحات آپ نے بالکل غلط لکھ دی ہیں، اور سونے پہ سہاگا یہ آپ کی پرانی پوسٹ ہے
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
ذرا بولڈ الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں، کیا یہ بہتر نہ ہو کہ سنجیدہ نوعیت کی ایسی تحریر کو ایک نظر، پوسٹ کرنے سے قبل پھر دیکھ لیا جائے؟ یہ صرف املا کی اغلاط نہیں بلکہ ایک آیت و چند تراکیب و اصطلاحات آپ نے بالکل غلط لکھ دی ہیں، اور سونے پہ سہاگا یہ آپ کی پرانی پوسٹ ہے
اس طویل مراسلے میں املاء کی چند لاشعوری اغلاط کا ذکر تو آپ نے کردیا باقی کی "سنجیدہ نوعیت کی ایسی تحریر" کی بابت آپ نے کوئی رائے نہیں دی۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
ذرا بولڈ الفاظ کو ملاحظہ فرمائیں، کیا یہ بہتر نہ ہو کہ سنجیدہ نوعیت کی ایسی تحریر کو ایک نظر، پوسٹ کرنے سے قبل پھر دیکھ لیا جائے؟ یہ صرف املا کی اغلاط نہیں بلکہ ایک آیت و چند تراکیب و اصطلاحات آپ نے بالکل غلط لکھ دی ہیں، اور سونے پہ سہاگا یہ آپ کی پرانی پوسٹ ہے
میرے محترم فیصل حسن بھائی ۔
آپ نے بلاشبہ ایسی " غلطیوں کی نشان دہی فرمائی جو کہ " ٹائپوز" قرار پاتی ہیں ۔
دراصل یہ پوسٹ صاحب پوسٹ کی ذاتی سوچ پر استوار ہوتے ان کے ذاتی " کی بورڈ " سے ابھری ہے ۔
اس لیئے ایسی " ٹائپوز" قابل گرفت نہیں ۔ یہ املا کی غلطیاںآپ جیسی صاحب علم ہستی کو نفس مضمون سے کبھی بھی بھٹکا نہیں سکتیں ۔
بہتر عمل یہ ہوتا کہ آپ صاحب پوسٹ کی اس " لاشعوری غلطی " کی نشان دہی ذاتی پیغام سے کر دیتے ۔ یا اپنے اقتباس میں ہی درستگی کر دیتے ۔
محترم ظفری بھائی سے تو لاشعوری طور پر غلطی ہوئی ۔ اور آپ اس غلطی کو جان بوجھ آگے پھیلا گئے ۔۔۔
ہمیں اک آیت کی تلاوت سے " نیکیاں " کمانے کے لیئے " قرات " کے مکمل آداب سکھائے جاتے ہیں۔ مخارج بارے مکمل آگہی دی جاتی ہے ۔ اعراب رٹائے جاتے ہیں ۔
مگر اس آیت میں موجود " بیان " ہم سے کیا چاہتا ہے ۔ ہم اس نے نگاہ چرائے جاتے ہیں ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top