طارق شاہ

محفلین

تُو نے دیکھی ہیں وہ پیشانی، وہ رُخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لُٹا دی ہم نے

تجھ پہ اُٹھّی ہیں وہ کھوئی ہُوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمْر گنْوادی ہم نے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

اب احتیاط کی کوئی صُورت نہیں رہی
قاتِل سے رسم راہ سَوا کرچُکے ہیں ہم

دیکھیں ہیں کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے سِتم میں سب کو خفا کرچُکے ہیں ہم

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

جانے اُس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں
پھر سے ہوگیا شامِل زندگی کے دھارے میں

اسم بُھول بیٹھے ہم ، جسم بھول بیٹھے ہم !
وہ مجھے مِلی یارو رات اِک ستارے میں

اپنے اپنے گھر جا کر سُکھ کی نیند سو جائیں
تو نہیں خسارے میں ، میں نہیں خسارے میں

میں نے دس برس پہلے، جس کا نام رکھا تھا
کام کر رہی ہوگی جانے کِس ادارے میں

موت کے درندے میں اِک کشِش تو ہے ثروت !
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں، خودکشی کے بارے میں

ثروت حسین
 
جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے
 

طارق شاہ

محفلین

اُسے تو کھو ہی چُکے، پھر خیال کیا اُس کا
یہ فکر کیسی کہ اب ہو گا حال کیا اُس کا

وہ ایک شخص! جسے خود ہی چھوڑ بیٹھے تھے
گُھلائے دیتا ہے دِل کو ملال کیا اُس کا

وہ نفرتوں کے بھنْور میں بھی مُسکرا کے مِلا
اب اِس سے بڑھ کے بَھلا ہو کمال کیا اُس کا

اب اِس طرح بھی نہ یادوں کی کرچیاں چُنیے
نہ تھا فراق سے بہتر وصال کیا اُس کا

خالد شریف
 

طارق شاہ

محفلین
دِل

شعلہٴ عِشق بُجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

اِس کو منظور نہیں ہے مِری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے

میرے لفظوں میں بھی چُھپتا نہیں پیکر اُس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے

عرفان صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

بہتر ہے لاکھ لُطف و کرَم سے تِرے سِتم
اپنے زہے نصِیب، کہ ہوں یہ سِتم نصِیب

شیخ محمد ابراہیم ذوق
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

جاتے ہیں کوئے یار کو، اِس میں جو ہو سو ہو
اے ذوق! آزماتے ہیں آج اپنے ہم نصیب

شیخ محمد ابراہیم ذوق
 
آخری تدوین:
Top