عربوں کی ترکوں کے خلاف بغاوت

زبیرخان

محفلین
عربوں کی ترکوں کے خلاف بغاوت کوبہت ابہام کے پیرائے میں بیان کیاجاتاہے جس سے تاثریہ ابھرتاہے کہ نجد میں ابھرنے والی تحریک دراصل ترکوں کے خلاف تھی اوراسے انگریزوں نے پوری مددفراہم کی یہاں تک کہ ٹی وی پربھی اس بات کوبڑی شدومدسے بیان کیاجاتاہے لیکن اس سلسلے میں کبھی بھی مستندتاریخ سے استفادہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی ہے صرف مفروضات سے ہی زیادہ ترکام لیاجاتاہے میں نے بھی فیس بک میں متعددمرتبہ پڑھاہے کہ کس طرح برٹش حکومت نے عربوں کوترکوں کے خلاف استعمال کیا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1809 میں حکومت برطانیہ نے خلیج فارس میں وہابی اقتدارکواپنے لئے ایک شدیدخطرہ سمجھ لیاتھا ویں رانٹ اور کرنل لیونل اسمتھ کے ماتحت ایک بیڑابھیجاگیاجس نے امام مسقط سے مل کروہابیوں کوشکست دی اورتواورترکوں نے وہابیوں کی سرکوبی کیلئے مصرکے محمد علی پاشاسے مدد لی جس نے وہابیوں کوشکست دینے کے بعد دارالحکومت کولوٹ لیااورآگ لگادی۔فلبی مذکورالصدر ص 102-103
اس موقع پربرطانیہ کی حکومت نے محمد علی پاشاکے بیٹے ابراہیم پاشاکومبارک باد دینے کیلئے ایک خاص قاصدبھیجا۔(ایضا ص 102)یعنی وہ محمد علی پاشاجس کی مددترکوں نے لی اسے مبارک باد دینے کیلئے ہندوستان برٹش گورنمنٹ کاوفدجاتاہے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہے انگریزوں نے وہابیوں سے جنگ بھی کی اورانہیں شکست دی جیساکہ مذکورالصدرمیں ہے اب اگروہابی انگریزوں کے ایجنٹ تھے توسوال یہ ہے کہ پھرانگریزوں نے ان کے خلاف جنگ کیوں کی کیااینجنٹوں کے خلاف جنگ کی جاتی ہے۔
 
Top