مسئلہ یہ بھی تو درپیش ہے اس بار مجھے
جس جگہ در تھا نظر آتی ہے دیوار مجھے
خواب ایسا تھا کہ آنکھوں سے سنبھالا نہ گیا
نیند ایسی تھی کہ کرتی رہی بیدار مجھے
یوں ہی کب تک ہے محبت کے بھنور میں جینا
اب کے ہر طور اترنا ہے کسی پار مجھے
تجھ کو دیکھا تو ان آنکھوں میں اجالے اترے
تیرے ہونٹوں سے ملی قوتِ...
طرحی غزل
ہم سنگ ِ رہگزر نہ کسی آستاں کے ہیں
ٹھوکر کوئ بتائے تو آخر کہاں کے ہیں
وہ پھول ہیں جو آنکھ سے اوجھل کہیں کھلے
ہم رنگ نو بہار نہ صحن ِ خزاں کے ہیں
دیوار چنتے رہتے ہیں شام و سحر کوئی
کچھ لوگ جو یہ تیرے مرے درمیاں کے ہیں
ان آندھیوں نے رات کسے در بدر کیا
تنکے یہ رہگزار پہ کس آ شیاں...
سب کا حصہ تھا مکاں میں ، سو مکاں بیچ دیا
میں نے جس گھر کو بچانے میں جہاں بیچ دیا
کون سمجھے گا کہ رشتوں کی محبت کیا ہے
میں نے کِس کِس کیلئے خود کو کہاں بیچ دیا
عاطف چوہدری
چلو چھوڑو پرانی داستاں کا ذکر کیا کرنا ،
ہُوا جو بھی وہ ہونا تھا ،
کیا ترکِ وفا کس نے، وہ میں تھا یا کہ تم جاناں ،
چلو گر یوں ہوا کہ تم نے بخشے ہجر کے لمحے ،
تو کیوں الزام دوں تم کو ،
محبت کی حقیقت ہی ہے کچھ ایسی ،
چلو ہم نے ہمشہ ساتھ رہنے کے اگر پیماں کیئے بھی تھے ،
تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ...
یوں تو دشوار بھی نہیں آئی
راہ ہموار بھی نہیں آئی
فاصلہ خود ہی کر لیا پیدا
بیچ دیوار بھی نہیں آئی
عشق میں جیتنے کی خواہش تھی
ہاتھ تو ہار بھی نہیں آئی
خواب اس بار بھی بہت دیکھے
نیند اس بار بھی نہیں آئی
اپنے حصے میں پھول تھے ہی نہیں
شاخِ پر خار بھی نہیں آئی
دشمنی دشمنوں کو بھولی تھی
تہمتِ یار...
میں ٹوٹ کے اس وقت کے آثار سے نکلا
آنسو بھی نہ اک چشمِ عزادار سے نکلا
دنیا سے عداوت تو بہت بعد میں ٹھہری
پہلے میں تِرے دل ، تری گفتار سے نکلا
لہجہ ترا کچھ اور تھا ، آنکھوں میں تھا کچھ اور
اقرار کا پہلو ترے انکار سے نکلا
ھے رقصں میں ھوتے ھوئے تنہائی کا دکھ بھی
میں دشت سے نکلا ھوں کہ دیوار سے...
پرانی رھگزاروں سے
میں جب تنہا گزرتا ہوں
بھلا کر دکھ زمانے کو
میں تم کو یاد کرتا ھوں
میں اکثر بیٹھ جاتا ہوں
اسی اک پیڑ کے نیچے
جہاں بیتے زمانوں میں
تمھارا نام لکھا تھا
سنو اس پیڑ پہ اب بھی
تمہارا نام روشن ھے
اسے پہروں میں تکتا ہوں
میں اس پر ھونٹ رکھتا ھوں
شجر میرے لئے جاناں
محبت کی...
کسی کے خواب آنکھوں میں سجا لیتے تو اچھا تھا
محبت روگ بنتی ھے بنا لیتے تو اچھا تھا
انا کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ھے
وفا کی لاج پر اس کو منا لیتے تو اچھا تھا
عاطف چوھدری
کتاب: چاند چہرے عذاب ٹھہرے
کہاں ممکن تھا میں دل سے تیری یادیں مٹا دیتا
بھلا کیسے میں جیتا پھر اگرتجھ کو بھلا دیتا
عجب دل کی یہ حسرت ہے فلک سے لیکر دھرتی تک
اگر بس میں میرے ہوتا تیری آنکھیں بنا دیتا
تجھے کھونے کا منظر بھی قیامت سے کہاں کم تھا
خدا اُس دن ہی سورج کو سوا نیزے پہ لا دیتا
تیری رسوائی کے ڈر سے لبوں کو سی لیا...
خوشی اب اس لئے بھی تم سے مل کر ہو نہیں سکتی
کہ پہلے سی کوئی ساعت میسر نہیں ہو نہیں سکتی
بدلتے موسموں کے ساتھ ممکن ہے بدل جائے
مگر میری محبت سے وہ منکر ہو نہیں سکتی
اجڑ بھی جائے تو اس میں محبت کی نمو ہو گی
یہ میرے دل کی دھرتی ہے یہ بنجر ہو نہیں سکتی
ہمارے ضبط پر اب بھی تعجب ہو رہا ہے...