دوسری دفعہ کا ذکر ہے ٹوپیاں فروخت کرنے والا ایک شخص درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کی ٹوپیوں والا بیگ درخت کے اوپر بیٹھے بندر لے گئے ہیں اور پہن بھی رکھی ہیں۔ اسے اپنے دادا کی بات یاد آئی کہ بندر انسانوں کی نقل اتارتے ہیں۔ اس نے اپنی ٹوپی اتار کر پھینک دی۔
ایک بندر نے...
یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئی ہے پسینوں میں سحر آج
وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج
راج بہادر اوج
قضا