کیا اب قران کے بیس مختلف نسخے پڑھنا ہوں گے ؟

طالوت

محفلین
ماہنامہ رُشد (لاہور) جون 2009
مدیر اعلٰی حافظ نضیر مدنی
99 -جے ماڈل ٹاؤن ، لاہور ۔ پاکستان ۔ فون : 5866476/5866396

صفحہ – 677
جمع کتابی:
جمع کتابی سے ہماری مراد وہی کام ہے جسے "مجمع الملک فہد" نے شروع کیا ہے ، آگے بڑھانا ہے ۔ جس طرح مجمع الملک فہد نے چار متداولہ روایات پر مصاحف نشر کئے ہیں اسی طرح باقی وہ تمام روایات جو قرات عشرہ کے نام سے کلیات اور مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں اور علمی طور پر موجود ہیں اور قراءت کے بے شمار علماء دنیا بھر میں موجود ہیں ، جو خدمت قران میں اپنی زندگیاں صرف کر رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں طلبہ قرات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، اس کو عملی طور پر مصاحف کی شکل میں شائع کیا جائے ، تاکہ وہ روایات جو کتب میں موجود ہیں اور زبانی پڑھائی جاتی ہیں عملی اور کتابی طور پر مصاحف کی صورت میں سامنے آ جائیں۔ یہ مبارک کام اگر ہو جائے تو کئی اہم فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جنھیں زبانی بحث و مباحثہ سے ہم حاصل نہیں کر سکتے۔ ان فوائد میں سے چند اہم فوائد ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔

جمع کتابی کے فوائد:
پہلا فائدہ:
قراءت متواتر کو مصاحف کی شکل میں جمع کرنے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے تا قیامت فتنہ انکار قرات کا عوامی سطح پر قلع قمع ہو جائے گا۔ کوئی بھی شخص اگر انکار قرات کی طرف پیش قدمی کرنا چاہے اور عوام کو اس کے مقابلہ میں مصحف پیش کر دیا جائے تو عوام اس کی بات پر کان دھرنے کی بجائے اس کے درپے ہو جائیں کہ تو قران کا انکار کرتا ہے۔
دوسرا فائدہ:
حجیت قرات کے لئے عوام کی سطح پر خاص علمی دلائل دینے کی چندہ ضرورت نہ رہے گی صرف قران کا دکھا دینا ہی کافی ہو گا جس سے وہ مطمئن ہو جائے گے۔ اگر ابتداء میں مطمئن نہ بھی ہوں تو کم از کم انکار نہیں کر سکیں گے کیونکہ اگر انکار کیا تو قران کا انکار لازم آئے گا۔
تیسرا فائدہ:
جمع کتابی کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آج کل دنیا میں قران کے متعلق جو نمائشیں ہوتی ہیں ، جن میں قران کی مختلف شکلوں مثلاً چھوٹے ترین یا بڑے ترین خط میں قران ، ایک بینر پر لکھا ہوا مکمل قران ، قران کے قدیم سے قدیم نسخہ جات ، ؐکتلف خطوں میں لکھے ہوئے متعدد قرانوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جو کہ مسلمانوں کی قران سے محبت کی غمازی کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر جمیع روایات میں شائع شدہ قران بھی موجود ہوں گے تو ایسی نمائشوں میں ایک علمی اضافہ ہو گا جس سے اس کی اہمیت مزید بڑھے گی۔
چوتھا فائدہ:
جمع کتابی کا ایک انتہائی اہم فائدہ یہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث کی سرکوبی ہو گی ، کیونکہ انکار حدیث کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ احادیث سے قرات کا ثبوت ہوتا ہے جو کہ منکرین قرات کے مطابق قران کی قطعیت کے منافی ہے ۔ لہذا وہ احادیث جن میں قرات کا ذکر ہے غیر مستند ہیں اور جن راویوں سے وہ روایات

صفحہ - 677
منقول ہیں وہ غیر ثقہ ہیں۔ جب قرات مصاحف کی شکل میں موجود ہوں گی تو جس طرح قرات کا انکار نا ممکن ہوگا اسی طرح انکار حدیث جو قرات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، ختم ہو جائے گا اور اس سے انکار حدیث کی باقی بنیادوں پر بھی زد پڑے گی۔
پانچواں فائدہ:
جمع کتابی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی روایتکا مصحف جب تحقیق کے بعد شائع ہو جاتا ہے تو وہ رسم اور ضبط میں معیار بن جاتا ہے۔ پھر جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو مصحف کی طرف رجوع کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح جن روایات میں مصحف شائع ہو چکے ہیں وہ رسم اور ضبط بھی ایک معیار بن چکے ہیں اور جن روایات میں مصاحف شائع نہیں ہوتے اور ان میں پایا جانے والا اختلاف شائع شدہ مصاحف میں موجود بھی نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مصاحف مطبوعہ میں اشمام الحرکۃ با لحرکۃ کی مثال تو موجود ہے جیسے قیل لیکن کسی بھی مصحف میں اشمام الحرف بالحرف کی مثال موجود نہیں۔ جس طرح صراط اور اصدق میں ص اور زاء کا اشمام اگرچہ کتب میں موجود ہے۔ اسی طرح امام یعقوب کی قرات میں یاءات زائد کی ہے جو یاءات زوائد وقف اور وصل دونوں میں پڑھی جاتی ہے ہیں۔ ایسی مثالوں کے لئے بھی مصاحف کی صورت میں معیار مقرر کرنے کی ضرورت ہے جو کہ جمع کتابی کی صورت میں حاصل ہو جائے گا۔

جمع کتابی کے سلسلہ میں "کلیتہ القران ، جامعہ لاہور الاسلامیہ اور دیگر اداروں کی خدمات
کلیتہ القران الکریم ، جامعہ لاہور الاسلامیہ
کلیتہ القران ، جامعہ لاہور الاسلامیہ نےجہاں خدمت قران کے کے بہت سے سلسلے شروع کر رکھے ہیں ، وہاں جمع کتابی کے سلسلے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا اور اس میں وہ کام کیا ہے کہ جو تاریخ اسلام میں اپنی نوعیت اور جامعیت کے اعتبار سے یگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ وہ یہ کہ قرات قرانیہ عشرہ متواترہ ، جو کہ کلیات اور مدارس میں صدیوں سے پڑھائی جا رہی ہیں اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ قواعد و ضوابط اور پڑھنے کے انداز تو کتب قرات میں موجود ہیں ، لیکن باقاعدہ مصاحف کی شکل میں موجود نہیں ہیں ، کلیتہ القران الکریم ، جامعہ لاہور کے فضلاء میں سے تقریباً بارہ محقق اساتذہ نے محنت شاقہ فرما کر تین سال کے عرصہ میں وہ تمام غیر متداولہ قرات میں سولہ مصاحف تیار کر لئے ہیں اور جیسا کہ راقم نے پہلے عرض کیا ہے کہ یہ کام اپنی نوعیت اور جامعیت کے حوالے سے تاریخ اسلامی کا پہلا کام ہے۔ یہ کام کویت کے عالمی ادارہ "حامل المسک الاسلامیہ" کی سربراہ تنظیم "لجنۃ الزکاۃ للشامیۃ و الشیوخ" کے ایما پر کیا گیا ہے ، جس کی مراجعت کے لئے مذکورہ تنظیم کے ذمہ داران کا "لجنتہ مراجعۃ المصاحف" مصر سے تعاقد ہے اور آج کل یہ مشروع اسی ادارہ کے زیر اہتمام تنفیذی مراحل میں ہے۔
ان مصاحف کی تیاری میں "مجمع الملک فید" کی طرف سے شائع کردہ روایت حفص کے مصحف کو اساس بنایا گیا ہے اور قرات عشرہ کے متعدد اختلافات کے مطابق علم رسم ، علم ضبط اور علم الفواصل کی فنی تفصیلات کا لحاظ کرتے ہوئے رسم مصحف میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ ذیل میں ہم متعدد علوم سے متعلق ان کتب کی ایک فہرست ذکر کرتے ہیں ، جن کی روشنی میں اس سارے علمی کو سرانجام دیا گیا ہے۔

صفحہ - 679
کتب علمی قراءات
1۔ جامع البیان فی القراءات السبع المتواترہ از امام ابو عمرو دانی
2۔ النشر فی القراءات العشر از امام ابن جزری
3۔ غیث النفع فی القراءات السبع امام صفاقسی
4۔عنایات رحمانی شرح شاطبیۃ از استاد القراء قاری فتح محمد پانی پتی
5۔ البدور الزاھرۃ فی القراءات العشر المتواترہ من طریقی الشاطیہ والدرۃ از شیخ عبدالفتاح القاضی
6۔ مصحف دار الصحابۃ بالقراءات العشر المتواترہ از جمال الدین محمد شریف
7۔ القراءات العشر فی ھامش القران الکریم از محمد کریم راجح
8۔ اجذاء مختلفۃ فی القراءات العشر المتواترہ از قاری رحیم بخش پانی پتی
کتب علم رسم
1۔ المقنع فی معرفۃ رسم المصاحف والا مصار از امام دانی
2۔ المحکم فی نقط المصاحف از امام دانی
3۔ کتاب المصاحف از امام ابوبکر عبداللہ بن سلیمان بن اشعث السجستانی بالمعروف بابن ابی داؤد
4۔ مختصر التبین لھجاء التنزیل از امام ابو داؤد سلیمان بن نجاح
5۔ عقیلۃ اتراب القصائد از امام ابو القاسم شاطبی
6۔ دلیل الحیران از الشیخ ابراہیم بن احمد المارغنی
7۔ تنبیہ الخلان علی اعلان بتکمیل مورد الظمان از علامہ عبدالواحد الاندلسی
8۔ نثر المرجان فی رسم نظم القران از محمد غوث بن محمد النائطی
9۔ جامع البیان فی معرفۃ رسم القران از علی اسمعایل الھنداوی
10۔ نفائس البیان فی رسم القران از شیخ محمد ادریس العاصم
کتب علم ضبط
1۔ کتاب النقط از امام ابو عمر ودانی
2۔ المحکم فی نقط المصاحف از امام ابو عمرو دانی
3۔ کتاب اصول الضبط و کیفیتہ علی جھتہ الاختصار از امام ابو داؤد سلیمان بن نجاح
4۔ الطراز فی شرح ضبط الخراز از الامام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ التنیسی
5۔ سمیر الطالبین فی رسم و ضبط الکتاب المبین از شیخ علامہ علی محمد الضباع
6۔ ارشاد الطالبین الی ضبط الکتاب المبین از ڈاکٹر محمد سالم المحیسن

صفحہ - 680
کتب علم الفاوصل و عدالآری
1۔ ناظمتہ الزھر فی علم الفواصل از امام ابو القاسم شاطبی
2۔ بشیر السیر شرح ناظمتہ الزھر از علامہ عبدالفتاح القاضی
3۔ کاشف العسر شرح ناظمتہ الزھر از قاری فتح محمد پانی پتی
4۔ ھدایات الرحیم از قاری رحیم بخش پانی پتی

مجمع الملک فھد بن عبدالعزیز
گزشتہ صفحات میں ہم مجمع کتابی کے سلسلہ میں خدمات پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ مجمع الملک فھد نے روایت حفص کے علاوہ باقی تین متداول روایات میں مصاحف شائع کر کے باقاعدہ اس کام کی بنیاد ڈالی ہے یقینا وہ اس بارے میں ہونے والے کام کے اجراء میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ جس فکرہ کے مطابق ذمہ داران کلیہ القران یہ کام شروع کیا تھا وہ مجمع کے کام ہی سے سامنے آیا ۔ مجمع الملک فھد کا علمی کام کون سے شیوخ نے کن کتب کی روشنی میں کیا ، اس کی تفصیل ہر ایک مصحف کے آخر میں موجود ہے۔
ہماری حالیہ اطلاعات کے مطابق مجمع الملک فھد نے بھی روایات غیر متداولہ پر کام شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالٰی جمع کتابی کے مشروع کے سلسلہ میں اہل جہد کی مبارک کاوشیں بارآور فرمائے۔ آمین
دارالقراءت البانیۃ
جمع کتابی کے سلسلے میں علاقہ البانیہ کا ایک ادارہ دارالقراءت بھی کام کر رہا ہے ، جس کے تحت قراءات سبعہ کی چودہ مرویات میں سے غیر متداولہ قراءات کی طباعت کا مشروع جاری ہے۔ اہل ادارہ نے اپنے کام کے تعارف کے لئے باقاعدہ ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے۔ طباعت مصاحف کی سلسلہ میں اس ادارہ کا انداز یہ ہے کہ ایک ایک مصحف کی تیاری کر کے اس کی تکمیل کرتے ہیں اور پھر دوسرے مصحف پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ادارہ فی الحال دو مصاحف یعنی مصحف بزی اور مصحف قنبل پر کام مکمل کر چکا ہے اور لجنۃ مراجعۃ المصاحف مصر کے رئیس شیخ القراء ڈاکٹر احمد عیسٰی معصراوی کی زیر نگرانی تیرہ افراد کی کمیٹی ان دونوں مصاحف کی مراجعت کر چکی ہے اور یہ مصاحف طباعت کے مرحلے میں ہیں۔ اہل ادارہ آج کل روایت ہشام اور روایت ابن ذکوان کی تیاری کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی انھیں بھی اپنے بابرکت پرواگرام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
نوٹ
چار متداولہ روایات کو مجمع املک فھد کے علاوہ عالم اسلام کے متعدد ممالک کے مختلف طباعتی اداروں نے بھی نشر کیا ہے۔ وہ مطبوعہ مصاحف جن ان چار روایات میں مختلف مکتبوں کی طرف سے مطبوع ہیں ان میں سے تیس کے قریب اداروں کے مصاحف ہمارے پاس موجود ہیں ، جس کی مکمل فہرست آپ قراءات متداولہ اور ان میں مطبوع" مصاحف کا ایک تعارف" کے زیر عنوان لکھے گئے مقالے میں دیکھ سکتے ہیں۔

صفحہ - 681
دعوت فکر !
اے اہل قران ! سلف اپنے حصے کا کام کر چکے ان کے پاس حفاظت قران کے جو ذرائع تھے وہ بروئے کار لائے اور حفاظت کلام حمید کا حق ادا کر دیا۔ اب ہمارے کرنے کے دو کام ہیں ایک تو یہ کہ قران کے تلفظ اداء کو محفوظ کریں جس کی طرف مرد درویش ڈاکٹر لبیب سعید نے ہمیں دعوت فکر دی ، اپنے حصے کا کام کیا اور مقالہ لکھ کر اپنا پیغام بھی ہم تک پہنچا دیا ۔ اب ہمارے ذمہ یہ قرض باقی ہے کہ اس کی کوششیں رنگ لائیں، اس کا لگایا ہوا پودا پھل آور درخت بنے، اس کا ولولہ اہل قران کے لئے محرک بنے ، اس کے جذبوں کی تپش حاملین قران محسوس کریں اور حفاظت قرانی کا شوق ، شوق صاحبان نظر بنے۔
ہم منتظر ہیں کہ حمیت قرانی کا کون سا پیکر اس آواز پر لبیک کہتا ہے ؟ کون سا لحن داؤدی کا مالک اپنی آواز کو اس کام کے لئے وقف کرتا ہے ؟ کون سا تلفظ داداء کا ماہر اس کار خیر کو اپنا مشغلہ بناتا ہے ؟ اور کون سا صاحب ثروت اس مبارک کام کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھولتا ہے۔
دوسرا مسئلہ جمع کتابی کا ہے تو اس باب میں ہم نے چند فوائد کی روشنی میں اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ صاحبان علم و بسط کو اس طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم حفاظت قران کی ذمہداری سے کلی طور پر عہد برآں ہو سکیں۔ اس بارے میں علماء کی رائے اگر یہ ہو کہ یہ کام خلاف مصلحت ہے لہذا نہیں کرنا چاہیے تو عرض ہے کہ یہ کام پہلے مجمع املک فھد اور دیگر ادارے شروع کرا چکے ہیں۔ اس کے فوائد جو ہم نے ذکر کئے ہیں اس بات کے متقاضی ہیں کہ یہ کام ہونا چاہیے لیکن اس کام کو کرنے کے بارے میں ہماری چند سفارشات ہیں:

1۔ یہ کام علمی نوعیت کا ہونا چاہیے ،عوامی نوعیت کا نہ ہو تاکہ وہ لوگ جو علم قراءات سے ابتدائی واقفیت بھی نہیں رکھتے وہ کہیں فتنے کا شکار نہ ہو جائیں۔
2۔ جمع روایات میں قران شائع کرنے کے بعد اس کو پوری دنیا کی لائبریریوں میں پہنچا یا جائے ۔ عوامی سطح پر لانے سے پرہیز کیا جائے البتہ رائے عامہ ہموار کرنے کے بعد عوامی سطح پر بھی لایا جا سکتا ہے۔
3۔ یہ کام ان اداروں کی زیر نگرانی ہونا چاہیے جو مصاحف کی تیاری اور طباعت میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً ادارہ مجمع املک فھد اور ادارہ بحوث علمیہ مصر کی لجنۃ مراجعۃ المصاحف وغیرہ۔
اللہ ہمیں قران کی خدمت کے لئے چن لے اور ان خدمات کو ذریعہ نجات بنائے ۔ آمین۔

-----------------------------------------------------------------------
یہ قران کی خدمت ہو رہی ہے یا مزید انتشار کے سامان ؟ یا محض منکرین حدیث کی گردنیں اڑانے کا لائنسنس جاری کروانے کی کوشش ؟ گویا اب ہوگا یہ کہ کس میں مجال ہے جو کسی بات سے انکار کر دے ؟ نسخہ نمبر 12 لاؤ ، ارے یہ تو منکر قران ہے دیکھو دیکھو قران میں کیا لکھا ہے ۔ شاید "آیت" رجم کا بھی کوئی ایسا ہی حل نکال لیا جائے ۔
وسلام
 
قرآن کی سات مشہور طریقوں سے قراءت کی جاتی رہی ہے جس میں کہیں کہیں زیر زبر پیش وغیرہ کا اختلاف ہے اور یہ حقیقت ہے ۔ یہ جو اعراب ہم دیکھتے ہیں یہ تو حجاج بن یوسف نے لگوائے تھے اس سے پہلے قرآن کی کتابت بغیر زیر زبر پیش کے ہوتی تھی۔
 

arifkarim

معطل
قرآن کی سات مشہور طریقوں سے قراءت کی جاتی رہی ہے جس میں کہیں کہیں زیر زبر پیش وغیرہ کا اختلاف ہے اور یہ حقیقت ہے ۔ یہ جو اعراب ہم دیکھتے ہیں یہ تو حجاج بن یوسف نے لگوائے تھے اس سے پہلے قرآن کی کتابت بغیر زیر زبر پیش کے ہوتی تھی۔

القلم قرآن فانٹ کے متن پر تیاری کے دوران ہمنے مختلف برصغیری نسخوں سے رہنمائی حاصل کی تھی۔ گو کہ ان سب میں زیر، زبر ، پیش کا ٹکراؤ اتنا خاص نہیں تھا۔ البتہ علامات قرآنی میں خاصا فرق موجود تھا۔ یوں‌ایک "حلوہ" سے بچنے کیلئے معروف زمانہ قرآن پبلشنگ سسٹم کے متن کا انتخاب کیا گیا جو کہ بقول انکے بہت سے معروف مفتیان و علماء کرام نے کئی بار پروف ریڈ کیا ہے!
 

باسم

محفلین
قرآت کا اختلاف حق ہے اس کا واضح ثبوت قدیم ترین مصحف ہے۔
ابتدا میں قبائل عرب کو مختلف قبیلے کے لہجے میں پڑھنے میں دشواری ہوئی تو سبعہ احرف کے ذریعے امت پر آسانی ہوئی
جب تک اس کا علم رہا اختلاف نہ ہوا جب لاعلمی ہوئی تو اختلاف بھی ہوا پھر جمع عثمان رضی اللہ عنہ کے ذریعے یہ اختلاف ہمیشہ کیلیے ختم ہوگیا
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار یا پانچ مصاحف تیار کرواکر مختلف دینی مراکز میں بھجوائے، ان مصاحف میں تمام قرآت کو جس قدر ہوسکا جمع کیا گیا اور جہاں ممکن نہ ہوا وہ کسی ایک مصحف میں لکھ دی گئی اور ہر علاقے میں وہی مصحف مشہور ہوا جو وہاں بھیجا گیا تھا اور اب تک ایسا ہی ہے اور اختلاف سے بچنے کی یہی بہترین صورت تھی۔
یہی وجہ ہے کہ پاک و ہند میں مصحف مدینہ رائج نہیں ہوسکا اور نہ عرب ممالک میں جدید عربی رسم الخط میں مصاحف چھاپنے کی تجویز کو پزیرائی مل سکی ۔
علمی سطح پر متواتر قرآت کو مصحف کی شکل میں باقی رکھنے کی ضرورت اگر ہے بھی تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے امام مصحف کو شائع کیا گیا۔
عوامی سطح پر نہ امام مصحف کی اشاعت مناسب ہے نہ متواتر قرآت کے مصاحف کی
ایک سوال : قدیم اسلامی مخطوطات کی ایک کتاب میں امام مصحف سے نقل شدہ قدیم نسخے کی کراچی میں موجودگی کا علم ہوا
کسی صاحب کو معلوم ہے کہ یہ کس میوزیم میں ہے؟
 

طالوت

محفلین
قرآن کی سات مشہور طریقوں سے قراءت کی جاتی رہی ہے جس میں کہیں کہیں زیر زبر پیش وغیرہ کا اختلاف ہے اور یہ حقیقت ہے ۔ یہ جو اعراب ہم دیکھتے ہیں یہ تو حجاج بن یوسف نے لگوائے تھے اس سے پہلے قرآن کی کتابت بغیر زیر زبر پیش کے ہوتی تھی۔

کمال حیرت ہے ، پھر یہ دعوٰی کیونکر کیا جا سکتا ہے کہ قران میں اختلافات نہیں ۔ اور پھر یہ دعوی کہ قران ہم تک من و عن پہنچا ؟ رہی اعراب تو محض اعراب ہی نہیں نقطے بھی بعد میں لگائے گئے ۔ کہانی دلچسپ ہے ۔
وسلام
 
کمال حیرت ہے ، پھر یہ دعوٰی کیونکر کیا جا سکتا ہے کہ قران میں اختلافات نہیں ۔ اور پھر یہ دعوی کہ قران ہم تک من و عن پہنچا ؟ رہی اعراب تو محض اعراب ہی نہیں نقطے بھی بعد میں لگائے گئے ۔ کہانی دلچسپ ہے ۔
وسلام
ایک حیرت وہ ہوتی ہے جو جہالت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اور دوسری حیرت وہ ہے جو علم عطا کرتا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ آپکے والی حیرت کس قسم کی ہے:);)۔ ۔ ۔ ۔
 

طالوت

محفلین
ایک حیرت وہ ہوتی ہے جو جہالت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اور دوسری حیرت وہ ہے جو علم عطا کرتا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ آپکے والی حیرت کس قسم کی ہے:);)۔ ۔ ۔ ۔
ظاہر ہے میرے نام کے آگے پیچھے کہیں بھی عالم مولانا محترم ڈاکٹر یا شیخ وغیرہ دکھائی نہیں دیتا تو یقینا یہ جہالت کی کوکھ سے جنم لی ہوئی حیرت ہو گی:rolleyes: اگر آپ اسے علمی حیرت میں تبدیل فرمائیں تو بندہ ممنون ہو گا۔
منتظر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وسلام
 
اس موضوع پر ابوبکر الباقلانی کی کتاب 'الانتصار' پڑھ لیں، سیوطی کی 'الاتقان فی علوم القرآن' پڑھ لیں۔ ۔ ۔ان سب سے بھی شرح صدر نہ ہو تو کتاب 'الابریز' میں قرآن کے سات حروف پر نازل ہونے کی نفیس تحقیق موجود ہے اسے پڑھ لیجیئے۔ میرے لئے اتنے لمبے مبحث کو یہاں نقل کرنا سردست ممکن نہیں ہے۔:)
 

طالوت

محفلین
قران پر نقاط و اعراب حجاج بن یوسف والئی عراق اور امیر المومنین عبدالملک مروان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ مگر عربی زبان ہو یا کوئی اور زبان ، حروف وضع کرنے والوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ حرفوں کے درمیان فرق کو ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں ۔ عربی زبان کے اٹھائیس حروف میں سے قریبا 22 حروف ہم شکل ہیں ۔ اور بغیر اعراب کے شاید تو معاملہ کچھ سمجھا جا سکے مگر بغیر نقاط کے ایسے حروف وضع کرنے والا ضرور دماغی خلل کا شکار ہے ۔ ارو ظاہر ہے ایسا نہیں ۔ بلکہ نقاط و اعراب کا ثبوت دور جاہلیت کے عربی ادب سے بھی ملتا ہے ۔ اور نہ بھی ملے تو یہ بات اس قدر کلاف عقل ہے کہ مانی ہی نہیں جا سکتی ۔ میں بھی لمبی مباحث نقل نہیں کر سکتا نہ ہی یہ میری عادت ہے ۔ آپ اس سلسلے میں جناب تمنا عمادی کی "اختلاف قرات اور قراء" پڑھ لیں امید ہے بہت سے معاملات صآف ہو جائیں گے ۔ قارئین حضرات کو بھی میں اسے پڑھنے کا مشورہ دوں گا ۔ اس کتاب میں نہ صرف نقاط و اعراب کے حوالے سے مفصل و مدلل بحث کی گئی ہے بلکہ اسما رجال کی مدد سے قراء کی زندگی کا بھی بہتر انداز میں جائزہ لیا گیا ہے ۔

میں تو ان عقلی و نقلی دلائل سے اس بات پر مطمئن ہوں کہ نقاط و اعراب نہ صرف قران سے پہلے عربی رسم خط میں رائج تھے بلکہ قران نازل ہونے کے بعد بھی ان کو برابر استعمال کیا جاتا رہا ۔ کیونکہ اگر میں اس میں شک کا اظہار کروں تو قران کے عربی مبین ہونے کے دعوے کی نفی ہوتی ہے ۔ میرے خیال میں تو اس فتنہ کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کئے گئے ہیں تاہم موضوع کا رخ بدل جاتا ہے اسلئے اس پر میں اظہار غیر ضروری خیال کرتا ہوں۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
دوست اگر آپ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں تو بات اور بھی واضح ہو جائے گی ۔ اس سلسلے میں جناب رحمت اللہ طارق صاحب کی تحقیق بھی اسی کتاب میں موجود ہے ۔

تاہم میں اب پھر سے حیرت میں ہوں کہ اس قدر علم رکھنے والے لوگ جیسے مودودی صاحب تک اختلاف قرات کے برجوش حامی رہے جبکہ یہ تو عام سمجھ کی بات ہے ۔ شاید روایت پرستی کا اثر ہے وگرنہ یہ تو کوئی عام سمجھ رکھنے والا بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے اور پھر مودودی صاحب تاریخ کے اس قدر شیدائی ہیں کہ کچھ بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ اور پھر اختلاف قرات سے قران کی جو حیثیت متعین ہوتی ہے وہ اہل اسلام کے لئے خاصی پریشان کن ہونا چاہیے ۔ کیونکہ قران ہی واحد شئے ہے جس کے باعث ہم اسلام کا مضبوطی سے دفاع کرتے آئے ہیں ۔
وسلام
 
قراءت کا اختلاف قیاس آرائی یا روایت نہیں بلکہ حقیقت ہے اور ہر دور میں یہ حقیقت موجود رہی ہے اسکو جھٹلانے کا مطلب خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ۔ ۔جب قرآن میں اللہ تعالی نے فرما دیا کہ 'ہم نے یہ ذکر نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں'۔ ۔ ۔ تو اسکا مطلب یہی ہے کہ قرآن کو ان سات قراءتوں سے پڑھنا اس آیت میں بیان کی گئی حفاظت کے خلاف نہیں جاتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو معاذاللہ اللہ کا وعدہ جھوٹا ثابت ہوتا کیونکہ قرآن کی سات انداز سے قراءت ایک حقیقت ہے۔ اور یہ آیت بھی ایک حقیقت ہے پس یہ دونوں حقیقتیں متعارض و متناقض نہیں ہیں۔
 

طالوت

محفلین
جی ہاں یہ آپس میں بالکل متضاد نہیں ۔ بےشک کسی قاری کی قرات میں قران کی تین سورتیں اڑا دی جائیں یا آیتوں کا اضافہ کر لیا جائے ۔ سبحان اللہ !
اور اختلاف قرات کے قریب قریب سارے راوی و قاری غلام ، عجمی الاصل ، کئی ایک مجہول الحال کوئی کسی کا شاگرد نہیں کوئی کسی کا استاد نہیں کسی نے سرے سے قران پڑھا نہیں مگر قاری ۔
بات وہی ہے صاحب کہ اختلاف قرات نہ تو کسی طور ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے قران کا محفوظ ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دعویٰ مسلمین کا کہ رسول عربی کے زمانے سے قران بغیر کسی زیر زبر پیش کے اضافے و کمی کے چلا آتا ہے ۔ یہ خود فریبی ان حضرات کی ہے جو اس پر یقین رکھتے ہیں ۔ ااور اختلاف قرات کے یقین پر قران میں اتنے نقائص پیدا ہونے کے باوجود آپ کا یہ فرمانا کہ "قرآن کی سات انداز سے قراءت ایک حقیقت ہے۔ اور یہ آیت بھی ایک حقیقت ہے پس یہ دونوں حقیقتیں متعارض و متناقض نہیں ہیں" ۔ ؟‌؟ ؟؟ ویسے میں مذکورہ کتاب کر برقیانے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ اختلاف قرات کے فتنے کے خاتمے میں اپنا فرض پورا کر سکوں ۔ اگر آپ اس کے خلاف ہیں تو اپنا فرض پورا کیجئے فیصلہ خود قارئین کر لیں گے ۔

میرے خیال میں آپ نے جو پیار بھرے انداز میں ہنستے مسکراتے مجھے جہالت کی کوکھ کا طعنہ دیا تھا اس پر نظر ثانی فرما لیں۔

وسلام
 

شاکر

محفلین
بات وہی ہے صاحب کہ اختلاف قرات نہ تو کسی طور ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے قران کا محفوظ ہونا ثابت ہوتا ہے
بھائی، گزارش ہے کہ ماہنامہ رشد کے جس شمارے سے آپ نے فقط ایک مضمون نقل کیا ہے۔ اس شمارے کے سات صد پلس صفحات میں‌ اختلاف قراءت کی حقیقت کو کئی طرح سے ثابت کیا گیا ہے۔ نیز دور حاضر میں‌اختلاف قراءات پر کئے جانے والے متجددین کے ہر چھوٹے بڑے اعتراض کے جوابات دئے گئے ہیں۔ اور یاد رہے کہ یہ صرف حصہ اول تھا۔ اسی قراءات نمبر کا دوسرا حصہ بھی چند ماہ پہلے شائع ہو چکا ہے۔ اور بلاشبہ اختلاف قراءات کے موضوع پر اردو زبان میں‌اس سے بہتر مواد موجود نہیں۔
حقیقت سے نظریں‌چرانے سے کچھ حاصل نہیں۔ یہ خالص علمی موضوع ہے ۔ تمنّا عادی صاحب کے پیش کردہ شبہات کا جواب بھی اسی رشد کی جون 2009 کی اشاعت ،قراءات نمبر حصّہ اوّل، میں‌صفحہ 475 پر بعنوان "منکر قراءات علامہ تمنا عادی کے نظریات کا جائزہ" ملاحظہ فرما لیں۔ یکطرفہ مطالعہ کی بنیاد پر دلائل کا وزن کئے بغیر فیصلے کر لینا دانشمندی نہیں۔ اگر آپ رشد کی ان دونوں‌اشاعتوں کو مکمل پڑھ لیں تو مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی مخلص شخص اختلاف قراءات کی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا۔
الحمدللہ یہ دونوں خصوصی نمبرز ان پیج فارمیٹ میں‌دستیاب ہیں۔ اور ادارہ محدّث کی اجازت بھی حاصل ہے۔ لہٰذا ان شاء اللہ جلد ہی احباب اسے کتاب و سنت ڈاٹ کام پر یونی کوڈ حالت میں‌ ملاحظہ فرما سکیں‌گے۔
 

طالوت

محفلین
شکریہ شاکر ۔ بقیہ بات ان خصوصی نمبرز کے مطالعہ کے بعد ہو گی ۔ تاہم یہ دلائل ایسے نہیں کہ آسانی سے ہضم کئے جا سکیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان پر مزید بحث کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ مولانا عمادی اور جناب رحمت اللہ طارق نے قرات سے متعلق ممکنہ مثبت و منفی دونوں قسم کی دلیلیں متقدمین کی طرف سے پیش کئے ہیں جو ان کی دیانت داری اور موضوع پر مکمل مطالعے کا مظہر ہے ۔ مگر بہرحال خصوصی نمرز کا انتظار رہے گا۔
وسلام
 

باسم

محفلین
عربی زبان ہو یا کوئی اور زبان ، حروف وضع کرنے والوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ حرفوں کے درمیان فرق کو ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں ۔ عربی زبان کے اٹھائیس حروف میں سے قریبا 22 حروف ہم شکل ہیں ۔ اور بغیر اعراب کے شاید تو معاملہ کچھ سمجھا جا سکے مگر بغیر نقاط کے ایسے حروف وضع کرنے والا ضرور دماغی خلل کا شکار ہے ۔ اور ظاہر ہے ایسا نہیں ۔ بلکہ نقاط و اعراب کا ثبوت دور جاہلیت کے عربی ادب سے بھی ملتا ہے ۔ اور نہ بھی ملے تو یہ بات اس قدر خلاف عقل ہے کہ مانی ہی نہیں جا سکتی ۔
یہ موقف عقلی بنیادوں پر بظاہر مضبوط ہے مگر بغیر نقاط کے حروف کو درست پڑھنا ایسا خلاف عقل بھی نہیں
"قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے" اس جملے کو بغیر نقطوں کے لکھا جائے تب بھی اردو پڑھ لینے والا اس جملے کو درست پڑھے گا
پھر جب اس کے ساتھ معلم کی تعلیم بھی شامل ہوتو غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے
اب اس کے ساتھ اگر معلم نقطے بھی لگادے تو غلطی کا امکان نہ رہے گا ۔
جب ہم قرآن مجید کے قدیم ترین مصاحف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک والا ناموں کے عکس دیکھتے ہیں تو ہمیں ان میں نقاط نظر نہیں آتے۔
اس صورتحال میں، بیان کیے گئے موقف کو تسلیم کرنا مشکل ہے
بلکہ قدیم ترین امام مصحف پر کی گئی تحقیق تو اس بات کو بہت واضح کردیتی ہے۔
"طوپ کاپی میں محفوظ مصحف کا جائزہ لینے سے ایک بات سامنے آئی کہ دوسرے مصاحف میں ادغام کی جو علامت استعمال ہوئی ہے اس کے ایک بڑے حصے میں وہی علامت استعمال ہوئی ہے۔
حرف "ب" کے اوپر ایک لائن "ت" کے اوپر دو لائنیں اور حرف "ث" پر تین لائنیں لگائی گئی ہیں تاکہ حروف ایک دوسرے سے جدا نظر آسکیں اور اسی طرح حرف "ن" اور "ی" بھی اوپر بیان کیے گئے طریقے کے مطابق لکھے گئے تھے۔ یعنی ایک لائن حرف "ن" کے اوپر اور دو لائنیں حرف"ی" کے نیچے لگائی گئی تھیں، ان ایک جیسے حروف کے مجموعے میں لفظ "ث" پر لگائی جانے والی تین لائنیں بہت شاذ نظر آتی ہیں۔
اسی طرح حرف"ج"،"ح" اور "خ" ہیں۔"ج" پر ایک لائن اور "خ" کے اوپر ایک لائن اور "ح" بغیر کسی نقطے کے نظر آتا ہے۔
دذرذس ش ط ظ
ان حروف پر نہ کوئی علامت ادغام ہے نہ ہی کوئی خط ۔ یہ اسی حالت پر برقرار رہتے ہیں جیسے ادغام سے پہلےہوتے ہیں۔
حرف صاد اور ضاد کا فرق بغیر کسی لائن یا علامت کے استعمال کیے سابقہ حرف سے پتہ چلایا جاتا ہے، حرف "ف" پر ایک خط اور "ت" کے نیچے ایک خط کھینچ کر انہیں مختلف ظاہر کیا گیا ہے۔"
روزنامہ امت 10 مئی 2009، ترجمہ مولانا سلمان احمد عباسی
اور اس تحقیق کے نتیجے پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے
"ہماری نظر میں طوپ کاپی مصحف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مصحف انسانیت کو یہ پیغام دیتا ہے آج پڑھا جانے والا قرآن اپنی اصلی حالت پر برقرار ہے۔ بار بار دیا جانے والا پیغام یہ ہے کہ ہم تک پہنچنے والی مشہور اور مستند قرائتیں بلا تحریف ہیں۔"
 

انتہا

محفلین
ہم یہ بات دیانت داری سے سوچیں کہ اگر اس فورم پر کوئی عیسائی آ جائے تو یہ باتیں پڑھ کر وہ تو یہی سمجھے گا کہ مسلمانوں کے تو بیس قرآن ہیں اور ہماری صرف چار انجیل کی کتابیں ہیں۔ ان مسلمانوں سے تو ہم عیسائی ہی اچھے ہیں۔ ایسے دھاگے جن میں اس طرح کے علمی اختلافات کر کے آخر کس چیز کو پھیلایا جا رہا ہے؟ ذرا ہم سب اس کو سوچیں۔
آیا ان سے علم میں اضافہ ہو رہا ہے یا تفرقہ میں؟
 
Top