کیا صدارتی نظام پاکستان کو برادری سسٹم سے نجات دلا سکتا ہے

مہوش علی

لائبریرین
جب صدر مشرف نے پہلی مرتبہ اختیارات کو ضلعی سطح تک تقسیم کرنے کا نظام متعارف کروانا چاہا تو ملک میں ایک ہاہا کار مچ گئی اور ہمارے نامور دانشور ابھی تک مشرف صاحب پر اس نظام کو متعارف کروانے پر تنقید کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان کے اعتراضات کے برعکس ہم نے دیکھا کہ کسی علاقے کی عوام کو موقع ملا کہ وہ اپنے علاقے کی تقدیر خود بنائے ورنہ اس سے قبل سارے ترقیاتی پروگرام صوبائی سطح سے کبھی نیچے ہی نہیں آ پاتے تھے۔


اب پاکستان میں جمہوریت کا مسئلہ ہے۔

اور مسئلہ یہ ہے کہ چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر بقیہ پورے پاکستان میں جمہوریت "برادری سسٹم" اور "لسانیت" و "صوبائی قومیت" اور علاقے میں "آپکی جاگیردارانہ طاقت" کی بنیاد پر چل رہی ہے۔

کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟

تو میرے خیال میں اسکا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے "پارلیمانی نظام" کی جگہ "صدارتی نظام" کا نفاذ۔ یہ برادری سسٹم ملک گیر سطح پر امیدوار کے کام نہیں آ سکتا، یہ صوبائی تعصبات و لسانیت ملک گیر سطح پر امیدوار کو اتنا زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا [جبکہ چھوٹے علاقے میں یہ فیصلہ کن ہو سکتا ہے]، اور کسی امیدوار کی جاگیردارنہ طاقت ملک گیر سطح پر اسکو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

تو کیا وجہ ہے کہ قوم کے دانشور کالم نگار ابھی تک پاکستان کی جمہوریت کے ان Evils کو بے نقاب نہیں کرتے اور نہ ہی اسکا کوئی حل پیش کرتے ہیں، بلکہ انکا سارا کا سارا زور صرف لفظ "آمر" پر مرتکز ہو کر رہ گیا ہے؟

بات یہ ہے کہ مشرف صاحب نے اس صدارتی نظام کو نافذ کرنے کے لیے کوششیں بھی کیں، مگر پھر یہی میڈیا کے دانشور کالم نگار اور دیگر پارٹیاں انکے ایسے پیچھے پڑے کہ پانی کے ڈیمز کی طرح مشرف صاحب کو اس پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ بہرحال یہ فکر زندہ رہنی چاہیے کیونکہ جیسے ضلعی نظام نے کراچی میں ایم کیو ایم کے آدھے مسائل حل کر دیے، اسی طرح یہ صدارتی نظام پاکستانی جمہوریت کے ان آدھے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
بات یہ نہیں کہ نظام کونسا ہونا چاہیے، بات یہ ہے کہ نظام کے چلانے والے اس سے مخلص بھی ہیں یا نہیں۔ صرف مشرف پر کیا موقوف پاکستان میں جو بھی جس نظام کے تحت بھی آیا وہ آمریت کا نمائندہ بن کر آیا۔ مشرف نے پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے بھی وہ حرکتیں کر لیں کہ خدا کی پناہ۔ اگر وہ صدارتی نظام نافذ کر دیتے تو اندازہ لگائیے، ممکن ہے آئین کی کتابوں پر اسوقت لوگ پکوڑے کھا رہے ہوتے۔
جاگیردارانہ یا برادری نظام کو ختم کرنے کیلیے تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ صدارتی نظام کے نام پر آمریت کے فروغ کی۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہماری ”سیاسی“ جماعتیں تین ماہ میں الیکشن مہم میں دو سو ارب خرچ کر سکتے ہیں۔۔۔۔ہمارے صدر صاحب ہر دوسرے ہفتے غیرملکی دوروں پر ملینز لُٹا سکتے ہیں لیکن ہم تعلیم کیلیے چند ارب بجٹ نہیں بڑھا سکتے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ساجد،
نواز شریف اور بینظیر نے پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے جو حرکتیں کیں کیا وہ مشرف صاحب سے کم تھیں؟ حالانکہ مشرف صاحب صدارتی نظام کے تحت نہیں بلکہ مارشل لاء اور فوج کے بل پر آئے تھے اور چاہتے تو بطور ڈکٹیٹر بہت کچھ زیادہ کر سکتے تھے۔

اور آپکا یہ تجزیہ کہ صدارتی نظام میں اختیارات زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور ان پر کوئی چیک نہیں ہوتا، یہ ایک مفروضہ ہے۔ میں الفاظ کو تبدیل کرتی ہوں اور میں نے اوپر جہاں جہاں "صدارتی نظام" لکھا ہے اسے "جمہوری صدارتی نظام" کر لیں۔

تو کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ "جمہوری صدارتی نظام" میں "پارلیمانی جمہوری نظام" کی طرح صدر پر کوئی چیک نہیں ہے اور صدر سب کام بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے کر سکتا ہے؟

////////////////////////

اصل میں پاکستان میں جمہوری جماعتیں بہت کمزور ہیں اور وہ ملک کے لیے کوئی بڑی تبدیلی کے لیے کوئی بھی بڑا اقدام نہیں اٹھا سکتیں۔ صدر مشرف کو دعا دیں کہ انہوں نے ملک کو ڈیڑھ سو سالہ پرانے پولیس کے قانون سے نجات دلائی۔ اور مشرف صاحب کی قابلیت کو مانیں کہ انہوں نے ملک میں پہلی مرتبہ اختیارات کو ضلعی سطح تک پہنچایا اور عوام کو حقیقی جمہوری اقدار سے روشناس کروایا۔ ورنہ شاید پیپلز پارٹی اور نواز شریف اگلے پچاس سال میں بھی اس پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے یہ کام نہ کر پاتے۔

//////////////////////////

جمہوری صدارتی نظام کو اگر جمہوریت کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کسی طرح بھی جمہوری پارلیمانی نظام سے کمتر نہیں ہے۔ اسی لیے امریکہ اور جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں [چند ایک کو چھوڑ کر] یہی نظام نافذ ہے۔ پارلیمانی نظام زیادہ تر برطانیہ اور اسکی سابقہ کالونیز ممالک میں ہے، مگر پاکستان میں برادری اور دیگر عصبیتوں کی وجہ سے یہ نظام پاکستان کے لیے مفید نہیں ہے۔

تعلیم پر مشرف دور میں کئی ارب کا بجٹ بڑھا ہے، مگر آپ جتنی بھی کوشش کر لیں مگر پاکستان کے حوالے سے نواز شریف یا پیپلز پارٹی اگلے کئی سالوں تک اس برادری سسٹم اور جاگیردارنانہ برائیوں کو پارلیمانی نظام کے تحت ختم نہیں کر پائیں گی۔ تو یہ چیز ایک خواب ہی ثابت ہو گا کہ یہ اسمبلی و پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے جاگیردار خود سے تعلیم کو ایسا عام کرنا چاہیں گے کہ جس سے ان کا مزارع ان کے اثر سے آزاد ہو جائے۔

آپ نے پارلیمانی نظام کے تحت ہونے والے اس الیکشن میں دو سو ارب روپے خرچ ہونے کا ذکر کیا۔ مگر صرف یہ صدارتی نظام ہے کہ جہاں احمدی نجات جیسا شخص انتہائی مفلس ہوتے ہوئے بھی، اور اپنے پیچھے کوئی سیاسی جماعت نہ ہوتے ہوئے بھی صدر کا انتخاب جیت جاتا ہے۔ تو بتلائیں کہ پاکستان کے اس پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے کب یہ ممکن ہو گا کہ ایک مفلس پاکستانی بغیر برادری و روپے پیسے کے صرف اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر قوم کی قیادت کر سکے؟ [قیادت تو دور کی بات، وہ سب سے نچلی سطح یعنی ضلعی سطح پر بھی سیٹ نہیں لے سکتا کیونکہ اس کا گناہ ہے مفلس ہونا اور کوئی برادری نہ رکھنا۔]

کاش کہ صدر مشرف ضلعی نظام بنانے کے بعد نیشنل سیکورٹی کونسل بنانے کی بجائے اپنے پرانے موقف [یعنی صدارتی نظام] کی طرف بڑھتے رہتے۔ مگر میں نے دیکھا کہ ضلعی سطح پر اختیارات تقسیم کرنے پر میڈیا کے قلم کاروں اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ مشرف صاحب مجھے انتہائی ڈیفینسیو کونے میں پڑے نظر آئے کہ جس کے بال و پر قوم کے ان سپوتوں نے اتنے کاٹ دیے کہ وہ پھڑپھڑا تو سکیں مگر اڑ نہ سکیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
صدر مشرف کو دعا دیں کہ انہوں نے ملک کو ڈیڑھ سو سالہ پرانے پولیس کے قانون سے نجات دلائی۔
اس کے کیا معنی ہوئے؟ پولیس نظام میں کونسی تبدیلی کی گئی ہے؟
ضلعی حکومتوں کا جس کو فائدہ ہوا ہو، وہ تو ایسی باتیں کر سکتا ہے لیکن مجھے تو اس کا کوئی فائدہ آج تک نظر نہیں آیا۔ اور یہ کوئی نیا نظام تو نہیں تھا اس سے پہلے بھی کافی عرصہ یہ رائج رہا ہے۔
 

اعجاز

محفلین
صحیح بات ہے حجازی مجھے بھی یہی شک ہے :)
مہوش۔ اگلی دفعہ بے شک آپ بن جائیں پریزیڈنٹ اور لے آئیں‌ صدارتی نظام لیکن پلیز ابھی آرٹیکل 6 کی ضرورت ہے :grin:
 

مہوش علی

لائبریرین
بات تو ٹھیک ہے لیکن بات یہ ہے کہ کہیں آپ مسٹر مشرف کی نوکری میں توسیع کے نقطہ نظر سے تو بات نہیں کر رہیں؟ :grin:

اختلافات اپنی جگہ، مگر ملککے متعلق میری نیک نیتی پر اتنا تو یقین رکھئیے :)


ساجد:
اس کے کیا معنی ہوئے؟ پولیس نظام میں کونسی تبدیلی کی گئی ہے؟
ضلعی حکومتوں کا جس کو فائدہ ہوا ہو، وہ تو ایسی باتیں کر سکتا ہے لیکن مجھے تو اس کا کوئی فائدہ آج تک نظر نہیں آیا۔ اور یہ کوئی نیا نظام تو نہیں تھا اس سے پہلے بھی کافی عرصہ یہ رائج رہا ہے۔

پولیس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ میں دیکھتی ہوں کہ کوئی لنک مل جائے جہاں آپ تفصیل سے ان تبدیلیوں کو پڑھ سکیں۔ موٹے موٹے الفاظ میں پولیس چلانے کا طریقہ کار وہی تھا جو انگریزوں نے 1850 کے لگ بھگ چالو کیا تھا۔
پھر پولیس میں بھرتی کی صرف سفارش پر ہوتی تھی۔ اس چیز کو ختم کر کے باقاعدہ معیار مقرر کیے گئے ہیں اور اب انتہائی پڑھے لکھے لوگ پولیس میں منتخب کیے جا رہے ہیں [کم از کم پولیس بھرتی کا شعبہ سفارش سے پاک ہو گیا ہے] ۔ امید ہے کہ جب یہ نئی پود پولیس کا انتظام آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ میں لینا شروع کرے گی تو پولیس کا کردار پاکستان میں پہلی مرتبہ بدلنا شروع ہو گا۔

/////////////

جہاں تک ضلعی حکومت کا تعلق ہے تو یہ چیزیں اہم ہیں:

1۔ پہلے دور میں بھی ضلعی حکومتیں تھیں، مگر بالکل بے کار کیونکہ اختیارات انہیں نہیں دیے گئے تھے بلکہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہی تھے۔ یعنی علاقے کے ٹیکسز ضلعی حکومت جمع کرتی تھی، اور اسے آگے صوبائی حکومت کو بھیجتی تھی۔ پھر یہ صوبائی حکومت دوبارہ اسے ضلعوں میں بھیجتی تھی۔ مگر اس سارے پراسس میں بہت زیادہ کرپشن ہو جاتی تھی۔ مثلا حکومت اگر ایک پارٹی کی ہے تو وہ تمام ٹیکس اپنی پارٹی کے ضلعوں میں لگا دیتی تھی اور باقی علاقے کے لوگ ٹیکس دینے کے باوجود بھی ہاتھ ملتے رہ جاتے تھے۔
[یعنی یہ بہت زیادتی تھی کہ ایک آدمی سے پانی اور صفائی کا ٹیکس تو لیا جائے اور خرچ اسے دوسرے ضلعے میں کیا جائے]۔

مشرف صاحب نے پہلی مرتبہ حقیقی جمہوریت کو متعارف کرواتے ہوئے ضلعی حکومتوں تک اختیارات کی تقسیم کی اور انہیں صوبائی حکومتوں کے شکنجے سے نجات دلائی۔ اب جو ضلعی حکومت جن لوگوں سے پانی و صفائی کا ٹیکس لے رہی ہے، تو وہ اسی جگہ خرچ کیا جا رہا ہے۔


2۔ اس ضلعی نظام کا سب سے بڑا فائدہ پاکستانی قوم کو یہ پہنچا کہ اہل کراچی کے آدھے مسائل ختم ہو گئے [یہ وہ مسائل تھے جن کی بنیاد پر ایم کیو ایم لوگوں کو اکسا سکتی ہے]۔
مثلا اہل کراچی کو سب سے زیادہ شکایت یہ تھی کہ ملک کا 70 فیصد ٹیکس وہ ادا کرتے ہیں۔ اس ٹیکس کا ایک حصہ ت وفاقی حکومت لے جاتی ہے، اور باقی ٹیکس [جو کراچی کے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونا چاہیے] وہ چلا جاتا ہے سندھ کی صوبائی حکومت کو۔
اب سندھ کی صوبائی حکومت میں پیپلز پارٹی ہوتی ہے جو کہ اس ٹیکس کی رقم کو کراچی کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کی بجائے اندرون سندھ اپنے علاقوں میں بانٹ دیتی ہے۔

اس وجہ سے مشرف صاحب کے ضلعی نظام کو متعارف کروانے سے قبل پچھلے 50 سالوں میں کراچی میں 70 فیصد ملک کا کل ٹیکس ادار کرنے کے باوجود ترقی کی رفتار چیونٹی سے بھی کم رہی اور مسائل کے انبار لگتے چلے گئے۔ اس کے مقابلے میں چونکہ لاہور میں نواز شریف کی ہی صوبائی حکومت تھی اس لیے لاہور میں کم ٹیکس ادا کرنے کے باوجود ترقیاتی کام کراچی کی نسبت کہیں زیادہ ہوئے۔

تو اہل کراچی چاہتے تھے کہ وہ پانی و صفائی کے نام پر جو ٹیکس دے رہے ہیں اس کو خرچ کرنے کا بھی انہیں حق حاصل ہو۔ اس چیز کو الطاف صاحب نے بھی ہمیشہ ایم کیو ایم کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کیش کروایا۔
اور ضلعی حکومت کی سطح تک اختیارات منتقل ہونے سے یہ چیز پوری ہو گئی۔


3۔ کراچی کے پہلے ناظم جماعت اسلامی کے نعمت اللہ تھے۔ اب جماعت اسلامی نہ مرکز میں تھی اور نہ سندھ صوبے کی حکومت میں، مگر اس نئے ضلعی نظام کی وجہ سے نعمت اللہ اس قابل ہو گئے کہ کراچی میں پچھلے ادوار کے مقابلے میں ایک معجزے کی رفتار سے ترقیاتی کام کروا سکیں اور اس طرح اہل کراچی کو پہلی مرتبہ ریلیف ملی [یعنی سندھ کی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے شکنجے سے نجات ملی]


4۔ نعمت اللہ کے بعد اگلا ناظم کمال مصطفی خود ایم کیو ایم کا تھا۔ اور کراچی کی ترقی ایسے ہی جاری رہے اور پہلی مرتبہ اہل کراچی محسوس کر رہے ہیں کہ جس لحاظ سے انکے مسائل بڑھ رہے ہیں اس سے زیادہ رفتار سے ترقیاتی کاموں کے ذریعے ان پر قابو پائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ [میری نظر میں] ترقیاتی کام نہیں تھے، بلکہ سیاسی استحکام تھا۔ ایم کیو ایم اور اہل کراچی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ انکی تقدیر خود انکے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ چنانچہ اس نظام نے انکی مسلح جدوجہد کا منہ پھیر دیا اور انہیں احساس ہوا کہ اگر اب وہ کراچی کو ترقی نہیں دیتے تو اب انکے پاس بہانے بنانے کا کوئی کارڈ نہیں رہ گیا ہے۔
اگلی مثال یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے پچھلے ادوار میں ہمیشہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف سے اتحاد کرنا چاہا، مگر ہر دفعہ ناکامی ہوئی۔ مگر ایم کیو ایم اپنا مثبت رویہ صرف اسی حکومت میں دکھا سکی اور انکا کوئی پھڈا نہیں ہوا، اور اسکی بہت بڑی وجہ اس ضلعی حکومتوں کا قیام ہے۔

 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں تو ساری بات 'نیت' اور 'خلوص' پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ مشرف نے اگر صدراتی نظام کی حمایت کی تو وہ صرف اور صرف اپنے اقتدار اور اس کو طول دینے کیلیئے۔ اور صدراتی نظام ہی کیا اسکا ہر قول اور ہر فعل اس کی اس نیت پر شاہد ہے۔

اور اگر ہمارے موجودہ سیاستدان ملک اور عوام سے مخلص ہو جائیں (جو کہ وہ نہ تھے، اور نہ ہونگے) اور انکی نیت صحیح ہو جائے تو موجودہ پارلیمانی نظام اور اسکی برائیاں بھی یقیناً درست ہو سکتی ہیں۔
 

جہانزیب

محفلین
مہوش صدراتی نظام سے مراد کیا ہے آپ کی؟ پورے ملک سے ایک عوام براہ راست صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالیں؟ اور وہ صدر بن کر اپنی پارلیمان خود چُنے؟
اگر آپ کی مراد یہی ہے تو پاکستان میں میرا نہیں خیال کہ ایسا نظام کامیاب ہو سکتا ہے، یہاں لسانی تفریق کو اس نظام سے اور زیادہ ہوا ملے گی اور پھر صحیح معنوں میں پنجاب پر زیادہ انگلیاں اٹھیں گیں کیونکہ بہرحال آبادی کے لحاظ سے پنجاب ہی کا کردار اس نظام میں فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ اس تفریق کو آپ کیسے حل کریں گی۔
اس کی بجائے میرے خیال میں عوام صرف اپنی ضلعی نمائندے چنیں اور وہ ضلعی نمائندے پھر حکومت کو منتخب کریں تو زیادہ بہتر ہے، لیکن یہ صرف میرا ذاتی خیال ہے ۔
 

زیک

مسافر
یورپ کے بڑے ممالک اور ان کا نظام:

جرمنی: پارلیمانی
فرانس: نیم‌صدارتی
برطانیہ: پارلیمانی
اٹلی: پارلیمانی
سپین: پارلیمانی
 

زیک

مسافر
صدارتی نظام پاکستان میں ہونے میں مجھے دو قباحتیں نظر آتی ہیں۔

ایک تو یہ کہ صدارتی نظام کے ڈکٹیٹرشپ میں بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ اس کی واضح مثالیں لاطینی امریکہ میں موجو د ہیں جہاں ان ملکوں نے امریکہ سے متاثر ہو کر صدارتی نظام نافذ کیا مگر اکثر نتیجہ ڈکٹیٹرشپ رہا۔

دوسرے پاکستان مختلف لسانی اور ethnic گروہوں کا مجموعہ ہے اور مختلف گروہ کافی حد تک مختلف انداز سے ووٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کل آبادی کا 55 سے 60 فیصد ہے۔ ایسی صورت میں صدر اگر عام ووٹ سے منتخب ہو تو پنجاب کا ووٹ فیصلہ‌کن ہو گا۔ اس سے علاقائی تعصب کو ہوا ملے گی اور ملک کا اکٹھا رہنا مزید مشکل ہو گا۔ پارلیمانی نظام بمعہ فیڈرل نظام کے ان رجحانات کا بہترین حل ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش صدراتی نظام سے مراد کیا ہے آپ کی؟ پورے ملک سے ایک عوام براہ راست صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالیں؟ اور وہ صدر بن کر اپنی پارلیمان خود چُنے؟
اگر آپ کی مراد یہی ہے تو پاکستان میں میرا نہیں خیال کہ ایسا نظام کامیاب ہو سکتا ہے، یہاں لسانی تفریق کو اس نظام سے اور زیادہ ہوا ملے گی اور پھر صحیح معنوں میں پنجاب پر زیادہ انگلیاں اٹھیں گیں کیونکہ بہرحال آبادی کے لحاظ سے پنجاب ہی کا کردار اس نظام میں فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ اس تفریق کو آپ کیسے حل کریں گی۔
اس کی بجائے میرے خیال میں عوام صرف اپنی ضلعی نمائندے چنیں اور وہ ضلعی نمائندے پھر حکومت کو منتخب کریں تو زیادہ بہتر ہے، لیکن یہ صرف میرا ذاتی خیال ہے ۔

جہانزیب،

جمہوری صدارتی نظام مختلف ممالک میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یوں لاگو ہے:

1۔ صدر کا انتخاب عوام براہ راست کرتی ہے۔ یہ صدر کسی بھی پارٹی یا آزاد امیدوار ہو سکتا ہے۔

2۔ پھر عوام ہی قومی اسمبلی/پارلیمنٹ کا انتخاب کرتی ہے۔

مگر حکومت قومی اسمبلی/پارلیمنٹ نہیں بناتی، مگر یہ منتخب کردہ صدر بناتا ہے۔ یعنی وزراء کیبنٹ چنتا ہے [اور عموما وہ پابند ہوتا ہے کہ وزرا کا چناو اسمبلی/پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائندوں سے کرے چاہے وہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔]

فیصلے صدر اور اسکی کابینہ کرتی ہے، مگر اس پر چیک اسمبلی/پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائندے کرتے ہیں اور صدر کو تمام اہم فیصلوں کی توثیق پارلیمنٹ/اسمبلی سے کروانی پڑتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش آپ جرمنی میں رہتی ہیں؟ جرمنی میں کونسا صدراتی نظام ہے؟

زیک،
جرمنی میں کانسلر کا انتخاب براہ راست عوام کرتی ہے۔ اور کانسلر کا یہ نظام عین صدارتی نظام ہے۔

///////////////////////

زیک:

دوسرے پاکستان مختلف لسانی اور ethnic گروہوں کا مجموعہ ہے اور مختلف گروہ کافی حد تک مختلف انداز سے ووٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کل آبادی کا 55 سے 60 فیصد ہے۔ ایسی صورت میں صدر اگر عام ووٹ سے منتخب ہو تو پنجاب کا ووٹ فیصلہ‌کن ہو گا۔ اس سے علاقائی تعصب کو ہوا ملے گی اور ملک کا اکٹھا رہنا مزید مشکل ہو گا۔ پارلیمانی نظام بمعہ فیڈرل نظام کے ان رجحانات کا بہترین حل ہے۔

پنجاب کا 55 فیصد ہونا اور اس سے علاقائی تعصب کو ہوا ملنا صرف صدارتی نظام تک محدود نہیں، بلکہ پارلیمانی نظام میں اس کا زیادہ Misuse ہے اور چھوٹے صوبوں کو شکایت ہے کہ پنجاب اکیلے کی قومی اسمبلی کی نشستیں ان سب کے برابر ہیں اور یوں اگر پنجاب اگر کسی دوسرے صوبے کے وزیر اعظم کی توثیق نہیں کرتا تو کسی اور صوبے کا وزیر اعظم ہی نہیں بن سکتا۔
چنانچہ جس صوبائی تعصب کا ہم ذکر کر رہے ہیں، اسکا خطرہ صدارتی نظام میں بس اتنا ہی موجود ہے جتنا کہ پارلیمانی نظام میں۔
جہاں تک فیڈرل نظام کی بات ہے تو یہ صرف پارلیمانی نظام سے نہیں منسلک بلکہ صدارتی نظام کے ساتھ بھی منسلک ہو سکتا ہے۔

مگر مجموعی طور پر صدارتی نظام کو ان وجوہات کی بنا پر پارلیمانی نظام پر فوقیت ہے:

1۔ پارلیمانی نظام میں عوام بس صرف ایک مرتبہ کسی پارٹی کو اکثریت دے دیتی ہے۔ اسکے بعد وہ پارٹی آزاد ہے کہ اپنی جیسی مرضی حکومت بنائے۔

2۔ صدارتی نظام میں عوام کا دخل زیادہ ہے کیونکہ عوام کو چننے کے دو مواقع ملتے ہیں۔ ایک مرتبہ پارٹی چننے کے موقع پر۔ لیکن اگر عوام پھر اس پارٹی کو مسترد کرنا چاہیں تو وہ صدر کسی دوسری پارٹی یا آزاد امیدوار کو چن سکتے ہیں۔


اس وجہ سے میری رائے یہ رہی ہے کہ یہ طریقہ پاکستان کے لیے زیادہ محفوظ ثابت ہو سکتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے خیال میں تو ساری بات 'نیت' اور 'خلوص' پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ مشرف نے اگر صدراتی نظام کی حمایت کی تو وہ صرف اور صرف اپنے اقتدار اور اس کو طول دینے کیلیئے۔ اور صدراتی نظام ہی کیا اسکا ہر قول اور ہر فعل اس کی اس نیت پر شاہد ہے۔

اور اگر ہمارے موجودہ سیاستدان ملک اور عوام سے مخلص ہو جائیں (جو کہ وہ نہ تھے، اور نہ ہونگے) اور انکی نیت صحیح ہو جائے تو موجودہ پارلیمانی نظام اور اسکی برائیاں بھی یقیناً درست ہو سکتی ہیں۔

وارث برادر،

یہ بات ہم سب میں یقینا مشترکہ ہے کہ مشرف پاکستان کے لیے ہیں نا کہ پاکستان مشرف صاحب کے لیے۔

مجھے نہیں علم کہ مشرف صاحب نے اپنے لیے صدارتی نظام کی بات چھیڑی تھی یا پھر واقعی قوم کے لیے، مگر یہ مجھے یقین ہے کہ ضلعی نظام تک اختیارات کی منتقلی انہوں نے قوم کے متعلق سوچ کر کی تھے۔

اور لگتا یہی ہے کہ چونکہ اس نظام کی بحث چھیڑنے پر ان پر براہ راست الزام آ سکتا تھا کہ وہ یہ بحث اپنے لیے چھیڑ رہے ہیں تو اسی وجہ سے جلد ہی انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا۔

باقی دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، مگر اصول یہی ہے کہ اگر کوئی اپنے ایمان کی ظاہری گواہی دے تو اُسکی گواہی کو قبول کر لیا جائے۔
/////////////////////

جہانزیب:
میرے خیال میں مہوش صدارتی نظام سے زیادہ صدر راج کی بات زیادہ کر رہی ہیں وہ بھی مشرف کی وجہ سے
جہانزیب، کاش کہ آپ نے ہمارا اعتبار کیا ہوتا۔

مشرف صاحب جلد ہی صدارت سے الگ ہونے/کروائے جانے والے ہیں۔ اور اگر میں آج اس صدارتی نظام کی بحث چھیڑ رہی ہوں تو اسکا واضح مطلب ہے کہ شاید آج سے دس پندرہ سال کے بعد قوم اس نظام کو قبول کر کے رائج کر سکے۔

یہ ایک بہت اچھا نظام ہے اور اگر پارلیمانی نظام پاکستان میں خدانخواستہ ناکام ہوتا ہوا دکھائی دے تو ہمیں اس آپشن پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش یہ غلط ہے۔ چانسلر (Kanzler) کا انتخاب پارلیمان (Bundestag) کرتی ہے۔
معذرت زیک۔ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ آپ نے بنڈس ٹاگ کا ذکر کیا تو میرا ذہن [جس میں پتا نہیں کس وجہ سے گرہ پڑی گئی تھی] کھل گیا۔ چونکہ ہمارے گھر میں سب کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے [سوائے ابو کے] اور ہم میں سے کسی نے آج تک یہاں کی سیاست کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔
 
Top