محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ظہیر بھائی، تابش بھائی دل جوان ہو تو صوفیانہ کلام کی نوبت ہی نہ آئے۔ہو نہیں گئے ، آپ نے طاری کرلیا ہے ۔
ابھی تو آپ کے رومانوی اشعار لکھنے کے دن ہیں ۔ صوفیانہ کلام میں بیس سال باقی ہیں ۔
ظہیر بھائی، تابش بھائی دل جوان ہو تو صوفیانہ کلام کی نوبت ہی نہ آئے۔ہو نہیں گئے ، آپ نے طاری کرلیا ہے ۔
ابھی تو آپ کے رومانوی اشعار لکھنے کے دن ہیں ۔ صوفیانہ کلام میں بیس سال باقی ہیں ۔
خلیل بھائی ، نوبت آتی نہیں ، لاد دی جاتی ہے ۔ظہیر بھائی، تابش بھائی دل جوان ہو تو صوفیانہ کلام کی نوبت ہی نہ آئے۔
ہمیں بھی اپنی "شہرۂ آفاق نظم" فیس بُک اسٹیٹس از محمد خلیل الرحمٰنخلیل بھائی ، نوبت آتی نہیں ، لاد دی جاتی ہے ۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی بیگم صاحبہ کو ایک شعر سنانے کی کوشش کی تو پہلا مصرع ختم ہونے سے پہلے ہی بول اٹھیں " اب یہ ہماری عمر ہے ایسے شعر پڑھنے کی؟"
چنانچہ مجھے شعر ادھورا چھوڑ کر مظفر وارثی کا کلام گنگنانا پڑا ۔
ایک پرانی نظم احبابِ محفل کی خدمت میں پیش ہے ۔ یہ نظم میرے عمومی رنگ سے بہت مختلف ہے ۔ اس طرز کا کلام ایک خاص دور اور کیفیت کا کلام ہوتا ہے کہ جسے عبور کئے برسوں گزرگئے ۔ میں اس طرح کا اپنا اکثر کلام رد کرچکا ہوں لیکن یہ نظم کسی طرح بچ بچا کر آپ تک پہنچ رہی ہے ۔ اگر مناسب سمجھیں تو اپنی رائے عطا کیجئے گا ۔
وہیں تو عشق رہتا ہے
٭٭٭
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں غم گیت گاتے ہیں ، جہاں ہر درد ہنستا ہے
وہیں ہے گھر محبت کا ، وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے
سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے
ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر
شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے
جہاں اقرار وپیماں کے گھنے شیشم تلے سورج
نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے
جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ
کسی کی نظم لکھتا ہے ، کسی کے شعر کہتا ہے
اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے
تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے
تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر
قریب آکر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے
دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے
" یہ غم میری امانت ہے ، تم اِس سے ہار مت جانا
تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں کوئی نہیں بستا ، جہاں کوئی نہیں رہتا"
پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا
بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو
فضا میں جیسے بکھری ہو ، ہوا جیسے مہکتی ہو
تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے
ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں ، ذرا سی دور خوابوں سے
منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی
کا اک آئینہ بہتا ہے
وہیں تو گھر ہمارا ہے ، وہیں تو عشق رہتا ہے
وہیں تو عشق رہتا ہے
٭٭٭
ظہیؔر احمد ۔ ۔۔۔۔۔ ۲۰۰۱
آمین! یارب آمین! اللہ کریم و رحیم آپ کی دعا قبول فرمائے راحل بھائی ۔ میں آپ کا بہت بہت شکرگزار ہوں ۔ اُخروی کامیابی کی دعا سے بڑھ کر اور کوئی دعا نہیں ہوسکتی ۔ اللہ کریم یہ دعا آپ کے حق میں بھی قبول فرمائے ۔ آمین ۔آپ کے کسی پرانے مراسلے میں پڑھا تھا کہ آپ نے کیوں عمداً ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی۔ واللہ، اتنا قادرالکلام ہونے کے باوجود آپ نے دنیاوی شہرت (جو آپ کو با آسانی مل جاتی، اس میں مجھے کوئی شک نہیں) کو طاعت پر قربان کردیا ۔۔۔ اس کا صلہ بروز محشر آپ کو ان شاء اللہ العزیز ضرور ملے گا۔
دعاگو،
راحلؔ۔
ارے یہ کیا بھئی ۔ کچھ اندرون خانہ کا ذکر ہے کیا ؟’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ والی گفتگو تفصیلاً پھر کبھی سہی ۔ آپ کو تو شاید معلوم ہی ہوگا کہ شاعر لوگ عموماً کس کس چیز کا "ذوق و شوق" رکھتے ہیں ۔
بہت بہت شکریہ لا المیٰ صاحبہ ! آپ جیسے قلمکار کی طرف سے داد و تحسین میرے لئے باعثِ اعزاز ہے ۔ اللہ کریم آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔عمدہ تخلیق ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے کسی فن پارے کو رد تو نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر دور کی اپنی ایک سچائی ہوتی ہے۔ ترجیحات تو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہی رہتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ماضی کے اوراق کھنگال لینا کوئی ایسا غلط بھی نہیں ہے۔
ارے نہیں نہیں عاطف بھائی، اندرونِ خانہ کا کچھ ذکر نہیں ہے ۔ اس سے پہلے کہ آپ کا رہوارِ خیال ہیاں سے ہُواں کو نکل جائے میں تھوڑی سی وضاحت کردیتا ہوں ۔ارے یہ کیا بھئی ۔ کچھ اندرون خانہ کا ذکر ہے کیا ؟
مری آتش کو بھڑکاتی ہے محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی کی دیر پیوندی ۔
واہ!
جتنی پرانی نظم اتنی ہی خوب ہے۔
اس کا مطلب کبھی کبھی ماضی دفتر جانا چاہیے۔
ارے نہیں نہیں عاطف بھائی، اندرونِ خانہ کا کچھ ذکر نہیں ہے ۔ اس سے پہلے کہ آپ کا رہوارِ خیال ہیاں سے ہُواں کو نکل جائے میں تھوڑی سی وضاحت کردیتا ہوں ۔
شاید تابش بھائی سے ایک دفعہ کسی لڑی میں دورانِ گفتگو یہ ذکر آگیا تھا کہ میں نے مشاعروں اور شاعروں سے دوری کیوں اختیار کی ۔ وہ لڑی تو نمعلوم کونسی تھی۔ لیکن میں نے یہ لکھا تھا کہ فی زمانہ مشہور ہونے کے لئے کسی نہ کسی ادبی گروہ یا گروپ میں شامل ہونا لازمی ہے ۔ شروع شروع میں یہاں امریکہ میں کچھ نجی شعری محفلوں میں اورادبی مجلسوں میں شرکت کی ۔ کچھ مشہور شعرا کے ساتھ پڑھنے اورگفت و شنید کا موقع ملا ۔ تو معلوم یہ ہوا کہ اکثریت شراب نوش ہے اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ یعنی فلرٹ اور زنا اور دیگر فواحشات ان کے نزدیک معیوب نہیں بلکہ روشن خیالی اور آزادی کا مظہر ہیں ۔ اب میں ہزار گناہگار سہی لیکن اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اُس نے مجھے کبائر سے ہمیشہ بہت دور رکھا ۔ سو اس صورت میں میرا ان لوگوں سے تعلق رکھنا نا ممکن ٹھہرا ۔ بس اللہ کا کرم ہے کہ اس نے گوشہ نشینی ہی میں بڑی راحت اور سکون دیا ۔ آپ جیسے اچھے اور عزت افزائی کرنے والے دوست دیئے ۔ اور کیا چاہئے ، عاطف بھائی !
الحمدللہ کثیراً۔
تو کس نے کہا ہے پھینکنے کو!ایک آدھ چیزیں ہیں کہ بس پھینکنے کو دل نہیں کرتا
یہ انیس بیس سا ل پرانی ہے ۔
جتنی عمر آپ کی یہ نظم لکھتے وقت تھی، اب میری ہے۔ مگر میں جلدی بوڑھا ہو گیا ہوں۔
میں نے شاعری ہی ”طوفان“ سے آشنائی کے بعد شروع کی ہے۔خدا تجھے کسی 'طوفاں' سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں