کتابوں اور لائبریری سے میری بھی لاتعداد یاد یں وابستہ ہیں:
بچپن میں پہلے چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور پھر عمران سیریز کے ناولز کرائے پر لے کر پڑھتا رہا۔ کرایہ عام طور پر ایک دن کا ہوتا تھا اور کبھی کوئی کتاب نہیں رکھی۔
کالج کے زمانے میں سیالکوٹ میونسپل (علامہ اقبال ) لائبریری، پاکستان نیشنل سینٹر لائبریری (جو بند ہو چکی ہیں)، اسلامیہ کالج لائبریری اور مرے کالج لائبریری میری پسندیدہ جگہیں تھیں۔ وہاں بیٹھ کر بھی مطالعہ کرتا تھا اور کتابیں ایشو بھی کرواتا تھا، کبھی کوئی کتاب نہیں رکھی لیکن کچھ خراب ضرور کیں(سائنسدانوں اور مشاہیر کی تصاویر پھاڑ کر اپنے کمرے میں لگا لیتا تھا)، اس بنا پر جرمانے بھی ادا کیے۔
کالج میں ہی اپنے ایک فزکس کے پروفیسر صاحب کی ایک کتاب پہلے ان سے لے کر پڑھی، اور پھر واپس کر کے چرا لی۔ انہوں نے کمال شفقت کا اظہار کرتے ہوئے چشم پوشی کر لی۔
سیالکوٹ میں کالج کے ایک دوست نے کتابوں سے میری دوستی دیکھ کر مجھے ایک آفر دی جس سے میں انکار نہ کر سکا۔ کہنے لگا، بیس پچیس فیصد ڈسکاؤنٹ کے لیے منہ ماری کرتے ہو، میں تمھیں پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر کتابیں مہیا کروں گا بس کتاب پسند کرو اور مجھے بتا دو۔ کئی ایک کتابیں اس چور بازاری میں حاصل کیں، اللہ معاف کرے۔
کالج ہی کے دنوں میں میری چونکہ ایک چھوٹی موٹی لائبریری اپنی بھی بن چکی تھی اور جو دوست بھی آتا تھا شوق شوق میں دو تین کتابیں اٹھا کر لے جاتا تھا سو میں نے ایک "پالیسی" بنائی کہ دوستوں سے کہہ دیا کہ ایک وقت میں ایک ہی کتاب دونگا، پڑھ لو، واپس کر دوتو دوسری لے جاؤ۔ اس طرح میں نے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہی کتاب کا نقصان ہوگا۔ لیکن دوست بھی شاید خرانٹ تھے ، بڑی بڑی کتابیں اٹھانے لگے اور میں انکار بھی نہ کر سکا۔ ایک کلیات فراز اٹھا کر لے گیا۔ میں اس پر انا للہ پڑھ چکا تھا لیکن نہ جانے اس کے دل میں کیا آیا کہ دس بارہ سال بعد کلیات واپس کر دیئے۔ لیکن کم و بیش بیس بائیس سال ہو گئے، ہنری کسنجر کی "ڈپلومیسی" ابھی تک واپس نہیں ملی۔