(پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ)
اس کے ابا نے مری خوب ہی رگڑائی کی
کو بہ کو پھیلی تھی جب بات شناسائی کی
کیسے کہہ دوں مرا سر پھوڑ دیا ہے اس نے
بات سچی ہے مگر بات ہے رسوائی کی
گھر میں جب سودا ختم ہو تو مرے پاس آئی
بس یہی بات ہے کچھ کچھ بری ہمسائی کی
جس توے پر مزے سے بیٹھ رہے اک نائی
ایسی کچھ کسی نے تشریحِ توانائی کی
دیکھ کر بچے مرے مجھ سے لگے تب ڈرنے
زلفوں کو جب بھی چھوا قینچیوں نے نائی کی
فیس بک کرتی رہے دل مرا آباد سدا
اب قیامت کہاں آئے شبِ تنہائی کی
رات گر نو بجے کے بعد کہے ماں، پڑھ لو
"جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی"
چار دن میری نہ آواز نکل ہی پائی
کل جو کھا بیٹھا مٹھائی تھا میں حلوائی کی
اس کے رشتے پہ ابا مان ہی جاتے آخر
اک جھلک گر نہ نظر آتی جو موٹائی کی
شرم کے ہاتھوں رہا چپ تھا میں ہر اک پل میں
جوش جب آیا تو آواز اٹھی شہنائی کی
قسمیں وعدے یہاں ہر ایک کرے ہے یارو!
قوم پر حاکموں نے بس یہاں مہنگائی کی
۔۔۔ عرفان ۔۔۔