قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی عہد ہو سکتا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کی زندگی میں نکاحِ ثانی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ حضرت فاطمہؓ فریاد لے کر حضورؑ کے پاس تشریف لے گئیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس سے قبل اپنے ایک داماد ابو العاص بن ربیع کو اپنے وعدے میں ثابت قدم پایا تھا۔ بعد میں حضرت علیؓ اپنی اس خواہش سے دستبردار ہو گئے تھے۔
یہ میرا اعتراض نہیں ہے بلکہ آپکے اٹھائے ہوئے ایک نکتے کو مظبوط کرنے کی وضاحت ہے۔
آپ نے فرمایا کہ "قرین قیاس یہی ہے" -- حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کے ساتھ ایک بھاری معاہدہ ، ایک مظبوط وعدہ یعنی نکاح کا کنٹریکٹ یعنی عرف عام میں شادی کی تھی، اس میں کسی قیاس کی ضرورت نہیں
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
شادی، جس کو عقد نکاح بھی کہا جاتا ہے، ایک "بھاری معاہدہ" یعنی "مظبوط عہد اور وعدہ " ہے۔ شادی کے اس بھاری اور مظبوط کنٹریکٹ (عقد) کے بعد مزید کسی الگ عہد ، یا الگ وعدے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
جب مرد و عورت ، مجمع کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کرنے کا اقرار کرتے ہیں تو اس اقرار اور معاہدے کو اللہ تعالی کس طرح بیان کرتے ہیں۔
بھاری معاہدہ، پکا عہد (مِّيثَاقًا غَلِيظًا) کیا ہے
33:7 وَ
إِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم
مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب
ہم نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے بھی اور ان سے ہم نے
پکا عہد لیا تھا
ایک اور مثال دیکھئے مِّيثَاقًا غَلِيظًا یعنی پکے وعدے یا پختہ عہد کی۔
4:154 وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لاَ تَعْدُواْ فِي السَّبْتِ
وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور لوگوں پر طور اٹھا کر ان سے عہد لیا اور ہم نے کہا کہ دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئےداخل ہو اور ہم نے کہا کہ ہفتے کے بارے میں زیادتی نہ کرو
اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا
اللہ تعالی کے فرمان، قرآن حکیم میں ( مِّيثَاقًا غَلِيظًا) صرف تین مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ایک تو جب طور کو اٹھا کر عہد لیا ، پھر جب نبیوں سے عہد لیا، اور اس کے بعد شادی کے معاہدے کو مِّيثَاقًا غَلِيظًا یعنی اتنا بھاری معاہدہ قرار دیا جتنا مظبوط اور بھاری معاہدہ، نبیوں اور اللہ تعالی کے درمیان ہوتا ہے۔
4:21 وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ
وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
تم اسے کیوں کر لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکا ہے
اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں
مرد حضرات طلاق (چھوڑ) کر جانے کو ایک آسان کام سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی ، شادی کے معاہدہ کو مِّيثَاقًا غَلِيظًا قرار دیتے ہیں ، اس بھاری، مظبوط اور پائیدار معاہدے، وعدے، کنٹریکٹ یا عہد کو توڑنے والے حضرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کرنا کس درجے کے معاہدے کو توڑنے کے مترادف ہے۔
والسلام