فلسفی
محفلین
جمہوریت کے دور میں جمہور خالی ہاتھ ہے
جیبیں بھری ہیں سیٹھ کی مزدور خالی ہاتھ ہے
میرے وطن تیری قسم، آسودہ اور خوش حال ہے
ہر مقتدر طبقہ مگر مجبور خالی ہاتھ ہے
معتوب ہے مظلوم ہے، افسوس ہے جس کے لیے
دستور لکھا ہے وہی مذکور خالی ہاتھ ہے
لپٹی کفن میں لاش کو دیکھو ذرا تم غور سے
وہ ہو سکندر یا کوئی تیمور، خالی ہاتھ ہے
دانشوروں کے شہر میں دل کی کوئی سنتا نہیں
اہلِ خرد کا زور ہے منصور خالی ہاتھ ہے
بے برکتی چھائی ہوئی ہیں ہر جگہ کچھ اس طرح
مغموم خالی ہاتھ ہے مسرور خالی ہاتھ ہے
سچی تھی موسی کی طلب سو وہ مرادیں پا گئے
مٹی ہوا جو خوف سے وہ طور خالی ہاتھ ہے
جیبیں بھری ہیں سیٹھ کی مزدور خالی ہاتھ ہے
میرے وطن تیری قسم، آسودہ اور خوش حال ہے
ہر مقتدر طبقہ مگر مجبور خالی ہاتھ ہے
معتوب ہے مظلوم ہے، افسوس ہے جس کے لیے
دستور لکھا ہے وہی مذکور خالی ہاتھ ہے
لپٹی کفن میں لاش کو دیکھو ذرا تم غور سے
وہ ہو سکندر یا کوئی تیمور، خالی ہاتھ ہے
دانشوروں کے شہر میں دل کی کوئی سنتا نہیں
اہلِ خرد کا زور ہے منصور خالی ہاتھ ہے
بے برکتی چھائی ہوئی ہیں ہر جگہ کچھ اس طرح
مغموم خالی ہاتھ ہے مسرور خالی ہاتھ ہے
سچی تھی موسی کی طلب سو وہ مرادیں پا گئے
مٹی ہوا جو خوف سے وہ طور خالی ہاتھ ہے