ایم ایم اے نظام مصطفی کے نفاذ اور مقام مصطفی کے تحفظ کے لئے سیکولر ازم کا راستہ روکے گی

دیکھیے، اگر اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ سب ایک جیسے ہیں، اور سب ہی سے کوئی خاص امید نہیں، پھر بھی سب میں سے کوئی ایک، کسی نہ کسی اعتبار سے دوسروں سے بہتر نظر آ جائے گا۔ اسے ووٹ کیجیے۔
آئیڈیل انسانی معاشروں میں نہیں ملا کرتے۔ ہم کیوں کسی اکلوتے آسمان سے نازل ہوئے نجات دہندہ کا انتظار کرتے ہیں۔
اپنے تمام تر شعور کے ساتھ پہلے کچھ معیارات طے کریں ووٹ ڈالنے کے لیے۔ پھر تمام میسر آپشنز کو ان معیارات پر درست معلومات کے ساتھ جانچیں۔ پرفیکٹ کوئی نہیں ملے گا، جو سب سے بہتر معلوم ہو، اس کے حق میں فیصلہ دیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دیکھیے، اگر اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ سب ایک جیسے ہیں، اور سب ہی سے کوئی خاص امید نہیں، پھر بھی سب میں سے کوئی ایک، کسی نہ کسی اعتبار سے دوسروں سے بہتر نظر آ جائے گا۔ اسے ووٹ کیجیے۔
آئیڈیل انسانی معاشروں میں نہیں ملا کرتے۔ ہم کیوں کسی اکلوتے آسمان سے نازل ہوئے نجات دہندہ کا انتظار کرتے ہیں۔
اپنے تمام تر شعور کے ساتھ پہلے کچھ معیارات طے کریں ووٹ ڈالنے کے لیے۔ پھر تمام میسر آپشنز کو ان معیارات پر درست معلومات کے ساتھ جانچیں۔ پرفیکٹ کوئی نہیں ملے گا، جو سب سے بہتر معلوم ہو، اس کے حق میں فیصلہ دیں۔

الیکشن کے تناظر میں بہت خوبصورت بات!

لیکن جہاں بات سیلیکشن کی ہو وہاں ووٹ دینے کا کیا فائدہ؟ ووٹ 'الف 'کو دیں یا' ب' کو۔ کیا فرق پڑنا ہے اس سے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دیکھیے، اگر اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ سب ایک جیسے ہیں، اور سب ہی سے کوئی خاص امید نہیں، پھر بھی سب میں سے کوئی ایک، کسی نا کسی اعتبار سے دوسروں سے بہتر نظر آ جائے گا۔ اسے ووٹ کیجیے۔
آئیڈیل انسانی معاشروں میں نہیں ملا کرتے۔ ہم کیوں کسی اکلوتے آسمان سے نازل ہوئے نجات دہندہ کا انتظار کرتے ہیں۔
اپنے تمام تر شعور کے ساتھ پہلے کچھ معیارات طے کریں ووٹ ڈالنے کے لیے۔ پھر تمام میسر آپشنز کو ان معیارات پر درست معلومات کے ساتھ جانچیں۔ پرفیکٹ کوئی نہیں ملے گا، جو سب سے بہتر معلوم ہو، اس کے حق میں فیصلہ دیں۔
عملیت پسند بات کی ہے۔
متعلقہ:
Idealism/Pragmatism dichotomy
ویسے جتنی شرائط اسلام پسندوں پر لگائی جاتی ہیں اس سے آدھی بھی دوسری جماعتوں پر ووٹروں کی طرف سے لگائی جائیں تو سبز انقلاب برپا ہو جائے۔
 
2002 کے الیکشن سے پہلے جب ایم ایم اے تشکیل دی گئی تھی وہ اس وقت کے خاص معروضی حالات کا نتیجہ تھی ۔ جن میں سرفہرست افغانستان پر امریکی حملہ اور مشرف کی نام نہاد روشن خیال پالیسی تھی ۔ اس وقت تمام سیاسی دینی جماعتوں نے جو پہلے ہی ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر متحد ہوچکی تھیں ایک بہت اچھا فیصلہ کیا اور بہترین سیاسی پھل بھی پایا ۔ مگر آج کل کے حالات بہت مختلف ہیں ۔ اور ان جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں ۔ نواز کو نکالنے کے سیاسی پھل کھانے کے لئے تحریک انصاف تیار بیٹھی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے مسلسل زوال کو روکنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور کٹر بریلوی ووٹ لینے کے لئے تحریک لبیک پر اعتماد ہے۔
 
اس حوالے سے ایک دلچسپ آئیڈیا ہے
ہماری کمپنی آج کل سی ایم ایم آئی لیول 5 حاصل کرنےکی کوشش میں ہے۔ اور مختلف پراسس ہم اپنے سسٹم کا حصہ بنا رہے ہیں۔
انھی میں ایک پراسس ہے ڈار DAR Decision analysis and resolution
یہ پراسس اس لیے ہوتا ہے کہ جب آپ نے کسی حوالے کوئی فیصلہ کرنا ہے، اور آپ کے پاس ایک سے زیادہ آپشنز ہیں تو ڈار کیجیے۔ آپ پہلے میٹنگ کر کے باقاعدہ کچھ پیرامیٹر طے کرتے ہیں، جن کی بنیاد پر کوئی ایک آپشن سیلکٹ کی جائے گی۔ ان پیرامیٹرز میں بھی ترجیح کا فرق ہوتا ہے، کوئی زیادہ اہم اور کوئی کم۔ تو سو کا سکور تمام پیرامیٹرز می تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ کسی پیرا میٹر کے 20 پوائنٹس ہو سکتے ہیں، کسی کے 10،کسی کے 5، یا اس سے بھی زیادہ یا کم۔ البتہ سب کا سکور مل کر 100 ہی ہونا چاہیے۔
یعنی پہلے معیارات طے کرنا، پھر ان کی ترجیحی بنیادوں پر نمبرنگ کرنا۔
پھر تمام متبادل آپشنز کو ایک ایک کر کے ان معیارات پر پرکھا جاتا ہے۔ اور ہر معیار کے حساب سے نمبر دیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک معیار قیمت ہے اور اس کا سکور 20 ہے۔ تو جو متبادل مہنگا ہو گا، وہ کم سکور کرے گا، مثلاً 5۔ جو سستا ہو گا وہ زیادہ سکور کرے گا، مثلا 15۔ اور اگر کوئی فری ہو گا تو وہ 20 پورا سکور کر لے گا۔
جب تمام متبادل، تمام معیارات پر ریٹ کر دیے جاتے ہیں تو سب کا سکور گنا جاتا ہے۔ جس کا سکور سب سے زیادہ ہو، اس کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ :)

میرا جی چاہتا ہے کہ انتخابات میں بھی ایسا ہی کوئی ڈار کیا جائے۔ البتہ اس کیس میں معیارات کا طے کرنا اور پھر ان کی ترجیح طے کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ معیارات پر لوگ اتفاق کر بھی لیں تو ترجیح ہر فرد کی مختلف ہوتی ہے۔
لہٰذا کم از کم ذاتی حیثیت میں چھوٹا سا ڈار کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
اکیلی ایم کیو ایم سے چھ جماعتیں بنانے والوں نے یہ تاثر خود قائم کیا ہے۔
پپلز پارٹی کو ملنے والی ہزاروں رعایتیں اس بات کی مظہر ہیں۔
اکیلی ایم کیو ایم کی اپنی حرکتیں ہیں جو اس کی ذمہ دار ہیں۔
پیپلز پارٹی کو ملنے والی رعایتیں نہ کھپے سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے ہیں اور وہ وفاق کی سیاست کرتی ہے۔
اور سب سے بڑی رعایت تو عوام دیتے ہیں ووٹ دے کر۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس حوالے سے ایک دلچسپ آئیڈیا ہے
ہماری کمپنی آج کل سی ایم ایم آئی لیول 5 حاصل کرنےکی کوشش میں ہے۔ اور مختلف پراسس ہم اپنے سسٹم کا حصہ بنا رہے ہیں۔
انھی میں ایک پراسس ہے ڈار DAR Decision analysis and resolution
یہ پراسس اس لیے ہوتا ہے کہ جب آپ نے کسی حوالے کوئی فیصلہ کرنا ہے، اور آپ کے پاس ایک سے زیادہ آپشنز ہیں تو ڈار کیجیے۔ آپ پہلے میٹنگ کر کے باقاعدہ کچھ پیرامیٹر طے کرتے ہیں، جن کی بنیاد پر کوئی ایک آپشن سیلکٹ کی جائے گی۔ ان پیرامیٹرز میں بھی ترجیح کا فرق ہوتا ہے، کوئی زیادہ اہم اور کوئی کم۔ تو سو کا سکور تمام پیرامیٹرز می تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ کسی پیرا میٹر کے 20 پوائنٹس ہو سکتے ہیں، کسی کے 10،کسی کے 5، یا اس سے بھی زیادہ یا کم۔ البتہ سب کا سکور مل کر 100 ہی ہونا چاہیے۔
یعنی پہلے معیارات طے کرنا، پھر ان کی ترجیحی بنیادوں پر نمبرنگ کرنا۔
پھر تمام متبادل آپشنز کو ایک ایک کر کے ان معیارات پر پرکھا جاتا ہے۔ اور ہر معیار کے حساب سے نمبر دیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک معیار قیمت ہے اور اس کا سکور 20 ہے۔ تو جو متبادل مہنگا ہو گا، وہ کم سکور کرے گا، مثلاً 5۔ جو سستا ہو گا وہ زیادہ سکور کرے گا، مثلا 15۔ اور اگر کوئی فری ہو گا تو وہ 20 پورا سکور کر لے گا۔
جب تمام متبادل، تمام معیارات پر ریٹ کر دیے جاتے ہیں تو سب کا سکور گنا جاتا ہے۔ جس کا سکور سب سے زیادہ ہو، اس کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ :)

میرا جی چاہتا ہے کہ انتخابات میں بھی ایسا ہی کوئی ڈار کیا جائے۔ البتہ اس کیس میں معیارات کا طے کرنا اور پھر ان کی ترجیح طے کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ معیارات پر لوگ اتفاق کر بھی لیں تو ترجیح ہر فرد کی مختلف ہوتی ہے۔
لہٰذا کم از کم ذاتی حیثیت میں چھوٹا سا ڈار کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ :)
بہت خوب۔
یہ کی ورڈ بھی گوگل کیجیے
game theory in political science
 

محمداحمد

لائبریرین
جماعتِ اسلامی اپنا نظریاتی قبلہ درست کر لے تو ہم اُسے ووٹ دے دیں گے۔
یا
ایم کیو ایم اگر انتہائی تعصب کا شکار ہوئی تو اُسے بھی ووٹ دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ دل نہیں چاہتا۔
یا
تحریکِ انصاف اگر کے پی کے کو مثالی صوبہ بناتی تو ہم اُسے ووٹ دے دیتے۔
یا
ن لیگ اور پی پی کو ہم ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ اُنہیں ووٹ دینے والے پہلے ہی بہت ہیں۔

ویسے ہماری سیاست میں عمران خان وہ آخری آدمی تھا جو دل کو لگتا تھا اب وہ بھی نہیں لگتا۔ ویسے مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ اگر عمران خان مرکزی حکومت میں آتے ہیں تو بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کو بہت زیادہ ہتک کا سامنا ہو گااور عمران خان پاکستان کی رہی سہی عزت کا فالودہ بنوا دیں گے۔ پتہ نہیں کیوں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جماعتِ اسلامی اپنا نظریاتی قبلہ درست کر لے تو ہم اُسے ووٹ دے دیں گے۔
یا
ایم کیو ایم اگر انتہائی تعصب کا شکار ہوئی تو اُسے بھی ووٹ دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ دل نہیں چاہتا۔
یا
تحریکِ انصاف اگر کے پی کے کو مثالی صوبہ بناتی تو ہم اُسے ووٹ دے دیتے۔
یا
ن لیگ اور پی پی کو ہم ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ اُنہیں ووٹ دینے والے پہلے ہی بہت ہیں۔

ویسے ہماری سیاست میں عمران خان وہ آخری آدمی تھا جو دل کو لگتا تھا اب وہ بھی نہیں لگتا۔ ویسے مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ اگر عمران خان مرکزی حکومت میں آتے ہیں تو بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کو بہت زیادہ ہتک کا سامنا ہو گااور عمران خان پاکستان کی رہی سہی عزت کا فالودہ بنوا دیں گے۔ پتہ نہیں کیوں۔
ارے بھیا صرف اپنے حلقے سے ایمان دار فرد کا انتخاب کیجیے سارے ملک کی فکر کاہے کو کرتے ہیں۔
 
Top