اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

ہومیوپیتھی اور دوسرے quack یہی تو کرتے ہیں۔
ہومیوپیتھی کے متعلق تو ہم دعوی کر ہی رہے ہیں، دلیل میں دوبارہ اسے ہی تو پیش نہیں کیا جائے گا نا!:)
میری مراد یہ ہے کہ کہیں کسی کلینک کے ماتھے پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکا کہ:
اے برادرو! آؤ کہ ہم بذیعہ ہوا/ چینی/ پانی/ خالی کیپسول آپ کا علاج "پلاسیبو ایفیکٹ" کے تحت کیے دیتے ہیں:)
 
کیا آپ نے تعویزوں ، منتروں اور پتھروں وغیرہ سے "علاج" کا کبھی نہیں سنا؟
ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم پتھر اور تعویذ وغیرہ میں "دم" مِکس کرتے ہیں جوکہ خاصے کی چیز ہے۔ خالی پتھر سے علاج کے تو وہ بھی قائل نہیں، اب کیا کیجیے۔
 

عثمان

محفلین
ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم پتھر اور تعویذ وغیرہ میں "دم" مِکس کرتے ہیں جوکہ خاصے کی چیز ہے۔ خالی پتھر سے علاج کے تو وہ بھی قائل نہیں، اب کیا کیجیے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہومیو پیتھی کی مانند اصل دعویٰ ان کا بھی محض روحانیت ہی ہے۔
 
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہومیو پیتھی کی مانند اصل دعویٰ ان کا بھی محض روحانیت ہی ہے۔
جی یہ تو ہے۔ لیکن میرا پہلا سوال پھر واپس آجاتا ہے کہ اس "پلاسیبو ایفیکٹ" کو کوئی بھی اپنے گلے میں باندھنے کو تیار نہیں، ہر شخص کے پاس ایک ریزن ہے اس کی بات کا۔
اسی لیے پوچھا تھا کہ پلاسیبو ایفیکٹ کی سائنسی توجیہ کیا ہے کہ جس سے ہم یہ جان سکیں کہ ایسی چیزوں سے ہمیں اگر فرق پڑتا ہے تو سائنس اس بارے کیا کہے گی۔
زیک نے تو ہمارے اس سوال کا "علاج باللنک" کردیاجو کہ ہمارے لیے محض "روحانی علاج" ہے:)
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
جب کوئی بے چارہ اپنی کم علمی استعداد کی بنا پر اپنی بات کو سمجھانے سے قاصر رہتا ہے اور جواب میں کسی ویب سائیٹ سے کوئی مضمون کاپی پیسٹ کردیتا ہے تو اس پر کاپی پیسٹ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور خوب لتے لئے جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کوئی پڑھا لکھا شخص اپنی بات کو سمجھانے کی بجائے یہی حرکت کرتا ہے کہ مضمون تو کاپی نہ کرے لیکن اس کا لنک لاکر یہاں پیسٹ کردے تو کیا وجہ ہے کہ اسے اسمارٹ کاپی پیسٹ نہ کہا جائے؟ اپنا مدعا اپنے الفاظ میں اردو میں سمجھا دیجئے اور نیچے بطور حوالہ بے شک آپ ویب سائٹس کا لنک دے دیں بلکہ اچھی بات ہے کہ اپنی بات کو حوالوں سے مزین کریں۔

سر ہم نے اس بڑی محفل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی محفل سجائی تھی اور دعوت بھی صرف ’’ہومیو پیتھی پر یقین رکھنے والوں‘‘ کو دی تھی کہ اپنے تجربات شئیر کریں اور اردو محفل پر سجانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اردو میں معلومات کا تبادلہ کیا جائے۔ آپ خود ہی تشریف لائے تھے نہ کہ کوئی آپ کو گھسیٹ کر لایا تھا اور آکر آتے ہی آپ نے اس چھوٹی محفل کا اپنے روایتی مزاج کے مطابق مضحکہ اڑاکر ستیاناس کرنے کی کوشش کی۔ تو اب گذارش ہے کہ کم از کم اپنے آنے کی لاج ہی رکھیں کہ جو سوال آپ کے دلائل پر اٹھائے جارہے ہیں ان کے جواب اپنے الفاظ میں ہی اردو میں ہمیں دیں۔ اسمارٹ کاپی پیسٹ کا مظاہرہ کرنے سے گریز کریں کہ اول تو ہمیں اتنی انگریزی نہیں آتی اور نہ ہی ہم نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے کہ پہلے تو آپ کے اعتراضات کو دوسری ویب سائیٹس پر جاکر اردو میں ٹرانسلیشن کریں اور پھر ان کا ذکر یہاں کرکے خود ہی جواب بھی دیں۔ پھر کہوں گا کہ ہم نےآپ کو دعوت نہیں دی تھی اس لئے اب آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کاپی پیسٹ کی بجائے ہم اردو سمجھنے والوں کے لئے اپنا مدعا اردو میں بیان کیجئے ورنہ شائد آئن اسٹائن کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ جو بات آپ دوسرں کو اپنے الفاظ میں سمجھا نہیں سکتے اس کا مطلب ہے کہ آپ خود بھی اسے نہیں سمجھے۔
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہومیو پیتھی کی مانند اصل دعویٰ ان کا بھی محض روحانیت ہی ہے۔
بہتر ہوگاکہ پہلے ہومیو پیتھی کی تاریخ پڑھ لیں تاکہ آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے کہ تعویز اور پیروں کا علاج ہومیو پیتھی کی مانند نہیں ہے۔
تعویذ گنڈے کرنے والوں کا دعویٰ یہ ہے کہ تعویذ پہن لو بغیر کسی سائنسی اثر کے خود بخود مرض ختم ہوجائے گا۔
ہومیو پیتھی والے تو کہتے کہ دوا میں موجود مادے کی یاد روح کو پیغام دے گی اور روح جسم کی قوت دفاع کو اس جیسی علامات کے خلاف متحرک کردے گا۔ اس کے بعد بیماری جسم کی وائٹل فورس کے ری ایکشن کے ذریعے دور ہوگی۔
جن الفاظ کو میں نے سبز رنگ دیا ہے اسے روحانیت (روح والی روحانیت نہ کہ شریعت والی) کہہ سکتے ہیں۔ لیکن نیلے الفاظ جس میں بیماری کے ٹھیک ہونے کا ذکر وہ مکمل طور پر سائنس کے تحت ہے۔ اب فرمائیے کہ یہ تعویذ کی مانند کیسے ہوگئی جب کہ تعویذ میں تو بیماری اور اسکے ختم ہونے کی سائنسی وجوہات کا کنسیپٹ ہی نہیں ہے۔
 

عثمان

محفلین
بہتر ہوگاکہ پہلے ہومیو پیتھی کی تاریخ پڑھ لیں تاکہ آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے کہ تعویز اور پیروں کا علاج ہومیو پیتھی کی مانند نہیں ہے۔
تعویذ گنڈے کرنے والوں کا دعویٰ یہ ہے کہ تعویذ پہن لو بغیر کسی سائنسی اثر کے خود بخود مرض ختم ہوجائے گا۔
ہومیو پیتھی والے تو کہتے کہ دوا میں موجود مادے کی یاد روح کو پیغام دے گی اور روح جسم کی قوت دفاع کو اس جیسی علامات کے خلاف متحرک کردے گا۔ اس کے بعد بیماری جسم کی وائٹل فورس کے ری ایکشن کے ذریعے دور ہوگی۔
جن الفاظ کو میں نے سبز رنگ دیا ہے اسے روحانیت (روح والی روحانیت نہ کہ شریعت والی) کہہ سکتے ہیں۔ لیکن نیلے الفاظ جس میں بیماری کے ٹھیک ہونے کا ذکر وہ مکمل طور پر سائنس کے تحت ہے۔ اب فرمائیے کہ یہ تعویذ کی مانند کیسے ہوگئی جب کہ تعویذ میں تو بیماری اور اسکے ختم ہونے کی سائنسی وجوہات کا کنسیپٹ ہی نہیں ہے۔
"مادے کی یاد روح کو پیغام دے گی" کیا کہنے! میں تو شاعری کا کریڈٹ بھی ہومیو پیتھی کے سر مونڈھنے کو تیار ہوں۔
آپ بین السطور خود اقرار کر چکے ہیں کہ ہومیوپیتھی مروجہ سائنسی اصولوں کی بجائے روحانی طریقہ علاج ہے۔ پس مجھے آپ کی روحانیت اور اعتقاد سے کوئی تکرار نہیں۔ جو چاہے اعتقاد رکھیں۔
 

رانا

محفلین
"مادے کی یاد روح کو پیغام دے گی" کیا کہنے! میں تو شاعری کا کریڈٹ بھی ہومیو پیتھی کے سر مونڈھنے کو تیار ہوں۔
پہلے تو آپ حضرات دلیل ایسی بے تکی دے دیتے ہیں اور جب اس کے تضاد کی طرف توجہ دلائی جائے اور کوئی بات نہ بن پائے تو پھر ایسی باتیں کرکے اگلے کی رائے کو لوگوں کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہرحال آپ کے سرخ الفاظ کسی طور بھی اس بحث سے متعلق نہیں ہیں صرف سستی شہرت کی ’’مانند‘‘ بات میں سستا وزن پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ہم تو جو بات سائنس سے سمجھا نہیں سکتے اس کا واضح اقرار کرتے ہیں ۔ جناب اس بات کو تو بارہا دہرایا جاچکاہےکہ ہومیوپیتھی کایہ حصہ ابھی تک سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لئے آپ سائنس پر یقین رکھنے والے اس حصے پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ البتہ اس کے نتائج سائنس کے تحت آتے ہیں تو شوق سے اس پر گفتگو کرنا چاہیں تو کریں۔

آپ بین السطور خود اقرار کر چکے ہیں کہ ہومیوپیتھی مروجہ سائنسی اصولوں کی بجائے روحانی طریقہ علاج ہے۔ پس مجھے آپ کی روحانیت اور اعتقاد سے کوئی تکرار نہیں۔ جو چاہے اعتقاد رکھیں۔
جی بڑی اچھی بات ہم جو چاہیں اعتقاد رکھیں۔ صرف اتنی گذارش ہے کہ ہومیوپیتھی کا جو اصول ہومیوپیتھ پیش کرتے ہیں اس کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کہ تعویذ ’’کی مانند‘‘ قرار نہ دیں۔ مکرر عرض ہے کہ ہومیوپیتھی نقطہ نظر سے بیماری جسم کی قوت دفاع کے ایکشن میں آئے بغیر ٹھیک نہیں ہوتی۔ یہ قوت دفاع کا تصور سائنس کا ہی عطا کردہ ہے۔ تعویذ میں بیماری کے ٹھیک ہونے کا کوئی سائنسی تصور موجود نہیں ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
بہتر ہوگاکہ پہلے ہومیو پیتھی کی تاریخ پڑھ لیں تاکہ آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے کہ تعویز اور پیروں کا علاج ہومیو پیتھی کی مانند نہیں ہے۔
تعویذ گنڈے کرنے والوں کا دعویٰ یہ ہے کہ تعویذ پہن لو بغیر کسی سائنسی اثر کے خود بخود مرض ختم ہوجائے گا۔
ہومیو پیتھی والے تو کہتے کہ دوا میں موجود مادے کی یاد روح کو پیغام دے گی اور روح جسم کی قوت دفاع کو اس جیسی علامات کے خلاف متحرک کردے گا۔ اس کے بعد بیماری جسم کی وائٹل فورس کے ری ایکشن کے ذریعے دور ہوگی۔
جن الفاظ کو میں نے سبز رنگ دیا ہے اسے روحانیت (روح والی روحانیت نہ کہ شریعت والی) کہہ سکتے ہیں۔ لیکن نیلے الفاظ جس میں بیماری کے ٹھیک ہونے کا ذکر وہ مکمل طور پر سائنس کے تحت ہے۔ اب فرمائیے کہ یہ تعویذ کی مانند کیسے ہوگئی جب کہ تعویذ میں تو بیماری اور اسکے ختم ہونے کی سائنسی وجوہات کا کنسیپٹ ہی نہیں ہے۔
ہم تو جو بات سائنس سے سمجھا نہیں سکتے اس کا واضح اقرار کرتے ہیں ۔ جناب اس بات کو تو بارہا دہرایا جاچکاہےکہ ہومیوپیتھی کایہ حصہ ابھی تک سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لئے آپ سائنس پر یقین رکھنے والے اس حصے پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ البتہ اس کے نتائج سائنس کے تحت آتے ہیں تو شوق سے اس پر گفتگو کرنا چاہیں تو کریں۔
صرف اتنی گذارش ہے کہ ہومیوپیتھی کا جو اصول ہومیوپیتھ پیش کرتے ہیں اس کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کہ تعویذ ’’کی مانند‘‘ قرار نہ دیں۔ مکرر عرض ہے کہ ہومیوپیتھی نقطہ نظر سے بیماری جسم کی قوت دفاع کے ایکشن میں آئے بغیر ٹھیک نہیں ہوتی۔ یہ قوت دفاع کا تصور سائنس کا ہی عطا کردہ ہے۔ تعویذ میں بیماری کے ٹھیک ہونے کا کوئی سائنسی تصور موجود نہیں ہے۔

مجھ سے جو قسم چاہیں لے لیں مگر میں آپ کے ان مراسلوں (اور گذشتہ مراسلوں) سے یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ ہومیوپیتھی کو آپ روحانی قرار دے رہے ہیں یا سائنسی۔۔۔
اگر روحانی قرار دیتے ہیں تو عثمان کی بات ماننی پڑے گی کہ تعویذ گنڈے اور جادو جنتر کی قبیل کا طریق کار ہے اور اگر سائنسی قرار دیتے ہیں تو سائنسی ثبوتوں کے ساتھ اس کو ثابت کریں۔
رہی بات سائنس میں روحانیت مکس کرنے کی کہ طریقہ روحانی اور نتائج سائنسی تو اس کے لیے "pseudoscience" (سوڈو سائنس) کی اصطلاح موجود ہے اور pseudoscience کا مطلب ہے: ایسا فراڈ جسے سائنس کہہ کر لوگوں کو الو بنایا جائے یا بزبان انگریزی:
a collection of beliefs or practices mistakenly regarded as being based on scientific method
سوڈو سائنس کی ایک بہت بڑی (بلکہ شاید پہلی) نشانی یہ ہے کہ سائنس کے برعکس یہ نتیجے سے آغاز کر کے اسے ثابت کرنے کے لیے پیچھے کی جانب چلتے ہیں۔
جب کوئی بے چارہ اپنی کم علمی استعداد کی بنا پر اپنی بات کو سمجھانے سے قاصر رہتا ہے اور جواب میں کسی ویب سائیٹ سے کوئی مضمون کاپی پیسٹ کردیتا ہے تو اس پر کاپی پیسٹ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور خوب لتے لئے جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کوئی پڑھا لکھا شخص اپنی بات کو سمجھانے کی بجائے یہی حرکت کرتا ہے کہ مضمون تو کاپی نہ کرے لیکن اس کا لنک لاکر یہاں پیسٹ کردے تو کیا وجہ ہے کہ اسے اسمارٹ کاپی پیسٹ نہ کہا جائے؟ اپنا مدعا اپنے الفاظ میں اردو میں سمجھا دیجئے اور نیچے بطور حوالہ بے شک آپ ویب سائٹس کا لنک دے دیں بلکہ اچھی بات ہے کہ اپنی بات کو حوالوں سے مزین کریں۔
یہ لیجیے ترجمہ:
اور آپ کی خواہش کے مطابق لگے ہاتھوں اپنے ہومیوپیتھی تجربات بھی شیئر کرتا چلوں:
ہمارے ہاسٹل میں ناشتے میں دہی کے ساتھ چینی نہیں ملتی تھی اور ایک لمبے عرصے تک ہم بلا ناغہ ہاسٹل کے quack سے کسی نہ کسی بہانے سے ہومیوپیتھک میٹھی گولیاں لے لیا کرتے تھے (جو وہ مفت بانٹا کرتے تھے) اور روزانہ صبح دہی میں ڈال کر دہی میٹھا کر کے کھاتے تھے۔
ان quack صاحب کی ڈسپنسری میں جتنی ہومیوپیتھک ادویات موجود تھیں سال بھر میں ان کی اکثریت ہم دہی میں ملا کر کھا چکے تھے لیکن حرام ہے کہ کبھی کوئی سائنسی نتیجہ (سائڈ ایفیکٹ) برآمد ہوا ہو سوائے جسم کو گلوکوز مالیکیولز ملنے کے۔ :)
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
مجھ سے جو قسم چاہیں لے لیں مگر میں آپ کے ان مراسلوں (اور گذشتہ مراسلوں) سے یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ ہومیوپیتھی کو آپ روحانی قرار دے رہے ہیں یا سائنسی۔۔۔
اگر روحانی قرار دیتے ہیں تو عثمان کی بات ماننی پڑے گی کہ تعویذ گنڈے اور جادو جنتر کی قبیل کا طریق کار ہے اور اگر سائنسی قرار دیتے ہیں تو سائنسی ثبوتوں کے ساتھ اس کو ثابت کریں۔
رہی بات سائنس میں روحانیت مکس کرنے کی کہ طریقہ روحانی اور نتائج سائنسی تو اس کے لیے "pseudoscience" (سوڈو سائنس) کی اصطلاح موجود ہے اور pseudoscience کا مطلب ہے: ایسا فراڈ جسے سائنس کہہ کر لوگوں کو الو بنایا جائے یا بزبان انگریزی:
a collection of beliefs or practices mistakenly regarded as being based on scientific method

فاتح بھائی مانا کہ کسی زمانے میں ہم نے آپ کی شاعری کی اصلاح کرکے آپکو شاعر بنایا تھا لیکن واللہ ہم آپ کو ہومیوپیتھی نہیں سکھاسکیں گے۔:p

سر جی بہت واضح الفاظ میں کہے دیتا ہوں کہ میں اس طریق علاج کو روحانی طریقہ علاج سمجھتا ہوں۔ لیکن روحانی روح سے مناسبت کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ نا کہ شریعت والی روحانیت کہ سورہ فاتحہ پڑھی اور اللہ میاں نے بغیر کسی واسطے کے شفا دے دی۔ پیروں فقیروں کے تعویذ گنڈے اس شریعت والی روحانیت کا دم بھرتے ہیں۔
ہومیوپیتھی میں کیونکہ دوا کا اثر مریضوں پر نظر آتا ہے اور ہر دوا کا اثر اس کی علامات رکھنے والے مریضوں میں یکساں نظر آتا ہے۔ اس لئے اس طریق علاج کی افادیت کے ہومیوپیتھ قائل ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دوا میں اصل مادے کا کوئی مالیکول بھی ابھی تک سائنسی طریق پر ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن مریضوں پر اثر بھی ہوتا ہے تو اس کا تعلق روح سے جوڑا جاتا ہے کہ اگر روح نہیں تو پھر اس اثر کی کوئی بھی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ قصہ مختصر کہ ہر دوا کا اپنی علامات رکھنے والوں مریضوں پر اثر ایسا واضح ہوتا ہے کہ صرف مالیکولز نہ ملنے کی وجہ سے اس اثر سے تو انکارنہیں کیا جاسکتا۔
اسی لئے پوچھا تھا کہ عدم سے مادے (یا توانائی) کے وجود میں آنے کی سائنس انکاری ہے تو پھر اس کائنات میں موجود مادے یا توانائی کی سائنس کیا وضاحت کرتی ہے؟ کیا یہ تمام مادہ صرف ایک دھوکا ہے؟

آپ کہیں گے کہ جو اثر ہوتا ہے وہ پلا سیبو ایفیکٹ ہے۔ تو پلاسیبو کے تحت ٹھیک ہونے والے مرض کی سائنسی وضاحت درکار ہے کہ کونسا مادہ اس کی وجہ بنا؟ آپ کا دیا گیا لنک تو پلاسیبو کی تعریف بیان کررہا ہے یہ تو بتاہی نہیں رہا کہ ماتھے کا گومڑ جس کا فزیکل وجود تھا وہ کس طرح غائب ہوگیا۔ بغیر کسی سائنسی وجہ کے آپ مانتے ہیں کہ کوئی فزیکل چیز خودبخود ختم یا ٹھیک ہوجائے؟ یہ تو تعویذ گنڈے کرنے والے مانتے ہیں۔ تو کیا پلاسیبو تعویذ گنڈوں کا دوسرا نام ہے؟
آپ کے لنک کے اقتباس دوبارہ نیچے دے رہا ہوں یہ بتائیں کہ اس میں اس سوال کا جواب کہاں چھپا ہے۔

پلیسیبو کیا ہے؟
پلیسیبو سے مراد کوئی بھی ایسی شے ہو سکتی ہے جو بظاہر حقیقی طبی علاج لگے لیکن حقیقت میں نہ ہو۔ یہ کوئی گولی، شاٹ، یا دیگر جعلی علاج ہو سکتا ہے۔ تمام پلیسیبو میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان میں صحت پر اثر انداز ہونے والا کوئی فعال مادہ شامل نہیں ہوتا۔

پلیسیبو ایفیکٹ (اثر) کیا ہے؟
بسا اوقات کسی شخص پر پلیسیبو کا رد عمل بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ یہ رد عمل مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ مثال کے طور پر اس شخص کی علامات بہتر ہو سکتی ہیں۔یا کسی شخص کا رد عمل ایسا ہو سکتا ہے گویا اس پر اس علاج کا سائڈ ایفیکٹ ظاہر ہوا ہے۔
یہ ردعمل پلیسیبو ایفیکٹ (اثر) کے طور پر جانا جاتا ہے۔


رہی بات عثمان کی تعویذ گنڈوں کی مانند تو بہت وضاحت سے عرض کیا تھا کہ وہ شریعت والی روحانیت کا ذکر کرتے ہیں کوئی سائنس درمیان میں نہیں۔ جبکہ یہاں جسم کا ردعمل عین سائنس کے اصولوں کے مطابق بیان کیا جاتا ہے۔ صرف اس بات میں تنازع ہے کہ یہ ردعمل جسم نے کیسے دکھایا جبکہ مادہ تو موجود ہی نہیں تھا۔ اثر آپ بھی مانتے ہیں صرف اسے نام پلاسیبو کا دیتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
سوڈو سائنس کی ایک بہت بڑی (بلکہ شاید پہلی) نشانی یہ ہے کہ سائنس کے برعکس یہ نتیجے سے آغاز کر کے اسے ثابت کرنے کے لیے پیچھے کی جانب چلتے ہیں۔
بغیر سوچے سمجھے آپ نے ایسی بات کردی جس پر پوری سائنس ہی سوڈو ثابت ہوتی ہے۔ اکثر صورتوں میں سائنس نتائج کو دیکھ کر پھر اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتنے ہی صدیوں سے آزمودہ طبی نسخوں کی افادیت کا دیکھ کر سائنس نے ان کے پیچھے جاکر وجہ جاننے کی کوشش کی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہومیو پیتھی کا ایک بہت بنیادی اصول ہے۔ میں جس مرض کا علاج کرنا ہوتا ہے اس کے متوازی ایک اور ایک مرض (اس سے مشابہ) خود پیدا کیا جاتا ہے اور اس مشابہ مرض کا علاج معلوم ہوتا ہے اور وہی علاج کیا جاتا ہے اور دونوں مرض ٹھیک ہو جاتے ہیں اسی لیے اس کو علاج بالمثل کہا جاتا ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو ہومیو پیتھی کے کورس میں پڑھائی جانے والی کتب دیکھی جاسکتی ہیں شاید کوئی ہومیو کا طالبعلم یہاں کچھ تکذیب یا تصدیق کا تبصرہ کرے تو پتہ چلے کہ اس کی حقیقی نوعیت کیا ہے ۔کوئی بیس ایک برس پہلے ہمارے کچھ عزیز ہومیو کےطالبعلم تھے ان کی کتب سے مجھے یہی اندازہ ہواتھا ان کا ایک مضمون مٹیریا میڈیکا ہوتا ہے جس میں ان کی فارمیسی کے اصول ہوتے ہیں لیکن ان کے طریقہ علاج کا اصول علاج بالمثل ہی ہے ۔۔۔ واللہ اعلم۔
 

زیک

مسافر
فاتح بھائی مانا کہ کسی زمانے میں ہم نے آپ کی شاعری کی اصلاح کرکے آپکو شاعر بنایا تھا لیکن واللہ ہم آپ کو ہومیوپیتھی نہیں سکھاسکیں گے۔:p

سر جی بہت واضح الفاظ میں کہے دیتا ہوں کہ میں اس طریق علاج کو روحانی طریقہ علاج سمجھتا ہوں۔ لیکن روحانی روح سے مناسبت کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ نا کہ شریعت والی روحانیت کہ سورہ فاتحہ پڑھی اور اللہ میاں نے بغیر کسی واسطے کے شفا دے دی۔ پیروں فقیروں کے تعویذ گنڈے اس شریعت والی روحانیت کا دم بھرتے ہیں۔
ہومیوپیتھی میں کیونکہ دوا کا اثر مریضوں پر نظر آتا ہے اور ہر دوا کا اثر اس کی علامات رکھنے والے مریضوں میں یکساں نظر آتا ہے۔ اس لئے اس طریق علاج کی افادیت کے ہومیوپیتھ قائل ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دوا میں اصل مادے کا کوئی مالیکول بھی ابھی تک سائنسی طریق پر ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن مریضوں پر اثر بھی ہوتا ہے تو اس کا تعلق روح سے جوڑا جاتا ہے کہ اگر روح نہیں تو پھر اس اثر کی کوئی بھی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ قصہ مختصر کہ ہر دوا کا اپنی علامات رکھنے والوں مریضوں پر اثر ایسا واضح ہوتا ہے کہ صرف مالیکولز نہ ملنے کی وجہ سے اس اثر سے تو انکارنہیں کیا جاسکتا۔
اسی لئے پوچھا تھا کہ عدم سے مادے (یا توانائی) کے وجود میں آنے کی سائنس انکاری ہے تو پھر اس کائنات میں موجود مادے یا توانائی کی سائنس کیا وضاحت کرتی ہے؟ کیا یہ تمام مادہ صرف ایک دھوکا ہے؟

آپ کہیں گے کہ جو اثر ہوتا ہے وہ پلا سیبو ایفیکٹ ہے۔ تو پلاسیبو کے تحت ٹھیک ہونے والے مرض کی سائنسی وضاحت درکار ہے کہ کونسا مادہ اس کی وجہ بنا؟ آپ کا دیا گیا لنک تو پلاسیبو کی تعریف بیان کررہا ہے یہ تو بتاہی نہیں رہا کہ ماتھے کا گومڑ جس کا فزیکل وجود تھا وہ کس طرح غائب ہوگیا۔ بغیر کسی سائنسی وجہ کے آپ مانتے ہیں کہ کوئی فزیکل چیز خودبخود ختم یا ٹھیک ہوجائے؟ یہ تو تعویذ گنڈے کرنے والے مانتے ہیں۔ تو کیا پلاسیبو تعویذ گنڈوں کا دوسرا نام ہے؟
آپ کے لنک کے اقتباس دوبارہ نیچے دے رہا ہوں یہ بتائیں کہ اس میں اس سوال کا جواب کہاں چھپا ہے۔

پلیسیبو کیا ہے؟
پلیسیبو سے مراد کوئی بھی ایسی شے ہو سکتی ہے جو بظاہر حقیقی طبی علاج لگے لیکن حقیقت میں نہ ہو۔ یہ کوئی گولی، شاٹ، یا دیگر جعلی علاج ہو سکتا ہے۔ تمام پلیسیبو میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان میں صحت پر اثر انداز ہونے والا کوئی فعال مادہ شامل نہیں ہوتا۔

پلیسیبو ایفیکٹ (اثر) کیا ہے؟
بسا اوقات کسی شخص پر پلیسیبو کا رد عمل بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ یہ رد عمل مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ مثال کے طور پر اس شخص کی علامات بہتر ہو سکتی ہیں۔یا کسی شخص کا رد عمل ایسا ہو سکتا ہے گویا اس پر اس علاج کا سائڈ ایفیکٹ ظاہر ہوا ہے۔
یہ ردعمل پلیسیبو ایفیکٹ (اثر) کے طور پر جانا جاتا ہے۔


رہی بات عثمان کی تعویذ گنڈوں کی مانند تو بہت وضاحت سے عرض کیا تھا کہ وہ شریعت والی روحانیت کا ذکر کرتے ہیں کوئی سائنس درمیان میں نہیں۔ جبکہ یہاں جسم کا ردعمل عین سائنس کے اصولوں کے مطابق بیان کیا جاتا ہے۔ صرف اس بات میں تنازع ہے کہ یہ ردعمل جسم نے کیسے دکھایا جبکہ مادہ تو موجود ہی نہیں تھا۔ اثر آپ بھی مانتے ہیں صرف اسے نام پلاسیبو کا دیتے ہیں۔
آپ کو یہ غلط فہمی لگتی ہے کہ ہومیوپیتھی کے اثرات کو پلاسیبو ایفیکٹ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تعویذ گنڈے، دم اور دیگر روحانی علاج کے ماننے والے بھی کہتے ہیں کہ اس کا بھی بیماری پر اثر ہوتا ہے۔ اور ان سے بھی اگر مریض ٹھیک ہو تو پلاسیبو ایفکٹ ہی کہلائے گا۔

دوسری غلط فہمی یہ کہ سائنس جے مطابق ہومیوپیتھی کے اثرات بہت معمولی ہیں نہ کہ ماڈرن میڈیسن کے لیول کے۔ اس ریسرچ پر کچھ ریویو پیپرز کے روابط لڑی کے آغاز ہی میں پوسٹ کئے تھے۔ مجھ پر لعن طعن کرنے کی بجائے انہیں سمجھنے کی کوشش کرنا وقت کا بہتر مصرف ہو گا
 

زیک

مسافر
ہمارے ہاسٹل میں ناشتے میں دہی کے ساتھ چینی نہیں ملتی تھی اور ایک لمبے عرصے تک ہم بلا ناغہ ہاسٹل کے quack سے کسی نہ کسی بہانے سے ہومیوپیتھک میٹھی گولیاں لے لیا کرتے تھے (جو وہ مفت بانٹا کرتے تھے) اور روزانہ صبح دہی میں ڈال کر دہی میٹھا کر کے کھاتے تھے۔
ان quack صاحب کی ڈسپنسری میں جتنی ہومیوپیتھک ادویات موجود تھیں سال بھر میں ان کی اکثریت ہم دہی میں ملا کر کھا چکے تھے لیکن حرام ہے کہ کبھی کوئی سائنسی نتیجہ (سائڈ ایفیکٹ) برآمد ہوا ہو سوائے جسم کو گلوکوز مالیکیولز ملنے کے۔
اس چینی کے آپ پر جو تمام برے اثرات ہوئے اس کی ذمہ داری کیا ہومیوپیتھی قبول کرے گی؟
 

رانا

محفلین
آپ کو یہ غلط فہمی لگتی ہے کہ ہومیوپیتھی کے اثرات کو پلاسیبو ایفیکٹ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تعویذ گنڈے، دم اور دیگر روحانی علاج کے ماننے والے بھی کہتے ہیں کہ اس کا بھی بیماری پر اثر ہوتا ہے۔ اور ان سے بھی اگر مریض ٹھیک ہو تو پلاسیبو ایفکٹ ہی کہلائے گا۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ جناب عالی۔۔۔ آپ نے ہومیوپیتھی کے اثرات کو پلاسیبو ایفکٹ قرار دیا تھا اور اس حوالے سے آپ سے ایک وضاحت مانگی تھی جس کا جواب اب تک ندارد اور ادھر ادھر کی باتوں سے وقت گزارا جارہا ہے۔ ٹھیک ہے جناب خوش رہیں۔ وضاحتیں تو کچھ اور بھی مانگی تھیں لیکن خیر۔ دھاگا کون سا کہیں بھاگا جارہا ہے، ادھر ہی ہے جو بھی آئے گا پڑھ کر رائے قائم کرلے گا۔

دوسری غلط فہمی یہ کہ سائنس جے مطابق ہومیوپیتھی کے اثرات بہت معمولی ہیں نہ کہ ماڈرن میڈیسن کے لیول کے۔ اس ریسرچ پر کچھ ریویو پیپرز کے روابط لڑی کے آغاز ہی میں پوسٹ کئے تھے۔ مجھ پر لعن طعن کرنے کی بجائے انہیں سمجھنے کی کوشش کرنا وقت کا بہتر مصرف ہو گا
کیا ضرورت ہے ہمیں ان پیپرز پر وقت صرف کرنے کی جب کہ آپ خود ہی انہیں سمجھ نہیں سکے۔ مکرر عرض ہے کہ دھاگے کا مقصد کچھ اور ہی تھا اور بہت ہی واضح ذکرکردیا گیا تھا اسکے باوجود آپ یہاں آئے تھے اور اسے اپنے تضحیک آمیز روییے کا نشانہ بنایا تھا۔ ہمارا اتنا وقت ضائع کرکے اب ہم سے ہی خواہاں ہیں کہ آپ کے سر سے گزرنے والے پیپرز پر مزید وقت ضائع کریں۔ اوپر آئن اسٹائن کے ایک مقولے کا ذکر کیا تھا کہ اگر آپ کسی کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتے اور صرف اسمارٹ کاپی پیسٹ پر گزارا ہے تو مراد یہی ہے کہ آپ بھی انہیں سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، ہاں البتہ اسے سمجھنے کی دعوت دینے میں غالبا آپ کے نزدیک حرج نہیں کہ جس نے محفل ہی کسی اور مقصد سے سجائی تھی۔

یہ بھی خوب رہی کہ جب آپ کے موقف پر معمولی سی جرح کردی گئی اور آپ کے ہی دلائل کے کچھ زاوئیے دکھا کر ان کی وضاحت مانگی گئی تو وہ آپ کو لعن طعن لگنے لگی ہے۔ اور خود جو جناب نے پہلے ہی مراسلے میں دوسروں کے موقف کا مضحکہ اڑایا تھا وہ غالبا صحت مند گفتگو کی نشانی تھی۔ امریکہ میں پہلے تو صحت مند گفتگو کا مطلب کچھ اور ہوتا تھا لیکن شائد ٹرمپ کے آنے کے بعد اب اس میں کچھ تبدیلی آگئی ہے جس کی جھلک ٹرمپ کی ٹوئٹس اور آپ کے مراسلے سے بخوبی ظاہر ہے۔

اول تو یہ دھاگا کسی اور ہی مقصد کے لئے تھا جس کی پوری وضاحت ابتدائی مراسلے میں کردی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر ہومیوپیتھی کے متنازعہ امور پر گفتگو کرنے کی خواہش ہورہی تھی تو اس کے کئی طریقے تھے۔
مثلا ایک سادہ طریق تو یہ تھا کہ فریق اول نے اپنا موقف پیش کیا اور فریق ثانی نے کہا کہ آپ کا ارشاد بجا لیکن آپ سے سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔ اس کی درست تصویر کچھ یوں ہے۔ فریق اول نے اس پر اسی رنگ میں تبصرہ کردیا وعلی ہذاالقیاس۔
دوسرا طریق یہ ہے کہ فریق اول نے اپنا موقف پیش کیا اور فریق ثانی نے بجائے اس پر کوئی علمی جرح کرنے کےسوچے سمجھے بغیر ہی فریق ثانی کی رائے پر تضحیک سے بھرپور تبصرہ لکھ مارا۔ فریق اول نے اس بن بلائے مہمان کو یہ دیکھ کر کہ ایسے تضحیک آمیز تبصرے اور ریٹنگز فریق ثانی کی عادت ثانیہ میں داخل ہیں اس کی تضحیک آمیز رائے پر انتہائی سنجیدگی اور کسی لچک کے بغیرجرح کردی۔ بغیر سوچے سمجھے تبصرے کا لازمی نتیجہ پھر مسلسل بے ربط مراسلوں کی صورت میں نکلا۔

اب بتائیے کہ آپ نے ان ہر دو انداز گفتگو میں سے کس کو اختیار کیا تھا۔ ہماری جرح تو آپ لعن طعن لگی ہے لیکن آپ کا پہلا تبصرہ تو گلابوں میں قلم بھگو کر لکھا گیا تھا، ہماری ہی بدذوقی ہے کہ اس نرم و ملائم تبصرے کی لطافت و نزاکت سے حظ نہ اٹھا سکے۔

بہرحال آپ سے مزید الجھ کر وقت ضائع کرنے کی کوئی دور کی بھی خواہش نہیں رہی۔ دیگر محفلین کو اگلے مراسلے میں پھر اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو شائد آپ کے روئیے کی وجہ سے اپنے واقعات بیان کرنے سے گھبرا گئے ہیں۔ اگر دھاگا شروع سے ہی ٹریک پر رہتا تو یہاں سچے واقعات کا ایک اچھا ذخیرہ جمع ہونے کی امید تھی۔
 
Top