آپ کو یہ غلط فہمی لگتی ہے کہ ہومیوپیتھی کے اثرات کو پلاسیبو ایفیکٹ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تعویذ گنڈے، دم اور دیگر روحانی علاج کے ماننے والے بھی کہتے ہیں کہ اس کا بھی بیماری پر اثر ہوتا ہے۔ اور ان سے بھی اگر مریض ٹھیک ہو تو پلاسیبو ایفکٹ ہی کہلائے گا۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ جناب عالی۔۔۔ آپ نے ہومیوپیتھی کے اثرات کو پلاسیبو ایفکٹ قرار دیا تھا اور اس حوالے سے آپ سے ایک وضاحت مانگی تھی جس کا جواب اب تک ندارد اور ادھر ادھر کی باتوں سے وقت گزارا جارہا ہے۔ ٹھیک ہے جناب خوش رہیں۔ وضاحتیں تو کچھ اور بھی مانگی تھیں لیکن خیر۔ دھاگا کون سا کہیں بھاگا جارہا ہے، ادھر ہی ہے جو بھی آئے گا پڑھ کر رائے قائم کرلے گا۔
دوسری غلط فہمی یہ کہ سائنس جے مطابق ہومیوپیتھی کے اثرات بہت معمولی ہیں نہ کہ ماڈرن میڈیسن کے لیول کے۔ اس ریسرچ پر کچھ ریویو پیپرز کے روابط لڑی کے آغاز ہی میں پوسٹ کئے تھے۔ مجھ پر لعن طعن کرنے کی بجائے انہیں سمجھنے کی کوشش کرنا وقت کا بہتر مصرف ہو گا
کیا ضرورت ہے ہمیں ان پیپرز پر وقت صرف کرنے کی جب کہ آپ خود ہی انہیں سمجھ نہیں سکے۔ مکرر عرض ہے کہ دھاگے کا مقصد کچھ اور ہی تھا اور بہت ہی واضح ذکرکردیا گیا تھا اسکے باوجود آپ یہاں آئے تھے اور اسے اپنے تضحیک آمیز روییے کا نشانہ بنایا تھا۔ ہمارا اتنا وقت ضائع کرکے اب ہم سے ہی خواہاں ہیں کہ آپ کے سر سے گزرنے والے پیپرز پر مزید وقت ضائع کریں۔ اوپر آئن اسٹائن کے ایک مقولے کا ذکر کیا تھا کہ اگر آپ کسی کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتے اور صرف اسمارٹ کاپی پیسٹ پر گزارا ہے تو مراد یہی ہے کہ آپ بھی انہیں سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، ہاں البتہ اسے سمجھنے کی دعوت دینے میں غالبا آپ کے نزدیک حرج نہیں کہ جس نے محفل ہی کسی اور مقصد سے سجائی تھی۔
یہ بھی خوب رہی کہ جب آپ کے موقف پر معمولی سی جرح کردی گئی اور آپ کے ہی دلائل کے کچھ زاوئیے دکھا کر ان کی وضاحت مانگی گئی تو وہ آپ کو لعن طعن لگنے لگی ہے۔ اور خود جو جناب نے پہلے ہی مراسلے میں دوسروں کے موقف کا مضحکہ اڑایا تھا وہ غالبا صحت مند گفتگو کی نشانی تھی۔ امریکہ میں پہلے تو صحت مند گفتگو کا مطلب کچھ اور ہوتا تھا لیکن شائد ٹرمپ کے آنے کے بعد اب اس میں کچھ تبدیلی آگئی ہے جس کی جھلک ٹرمپ کی ٹوئٹس اور آپ کے مراسلے سے بخوبی ظاہر ہے۔
اول تو یہ دھاگا کسی اور ہی مقصد کے لئے تھا جس کی پوری وضاحت ابتدائی مراسلے میں کردی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر ہومیوپیتھی کے متنازعہ امور پر گفتگو کرنے کی خواہش ہورہی تھی تو اس کے کئی طریقے تھے۔
مثلا ایک سادہ طریق تو یہ تھا کہ فریق اول نے اپنا موقف پیش کیا اور فریق ثانی نے کہا کہ آپ کا ارشاد بجا لیکن آپ سے سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے۔ اس کی درست تصویر کچھ یوں ہے۔ فریق اول نے اس پر اسی رنگ میں تبصرہ کردیا وعلی ہذاالقیاس۔
دوسرا طریق یہ ہے کہ فریق اول نے اپنا موقف پیش کیا اور فریق ثانی نے بجائے اس پر کوئی علمی جرح کرنے کےسوچے سمجھے بغیر ہی فریق ثانی کی رائے پر تضحیک سے بھرپور تبصرہ لکھ مارا۔ فریق اول نے اس بن بلائے مہمان کو یہ دیکھ کر کہ ایسے تضحیک آمیز تبصرے اور ریٹنگز فریق ثانی کی عادت ثانیہ میں داخل ہیں اس کی تضحیک آمیز رائے پر انتہائی سنجیدگی اور کسی لچک کے بغیرجرح کردی۔ بغیر سوچے سمجھے تبصرے کا لازمی نتیجہ پھر مسلسل بے ربط مراسلوں کی صورت میں نکلا۔
اب بتائیے کہ آپ نے ان ہر دو انداز گفتگو میں سے کس کو اختیار کیا تھا۔ ہماری جرح تو آپ لعن طعن لگی ہے لیکن آپ کا پہلا تبصرہ تو گلابوں میں قلم بھگو کر لکھا گیا تھا، ہماری ہی بدذوقی ہے کہ اس نرم و ملائم تبصرے کی لطافت و نزاکت سے حظ نہ اٹھا سکے۔
بہرحال آپ سے مزید الجھ کر وقت ضائع کرنے کی کوئی دور کی بھی خواہش نہیں رہی۔ دیگر محفلین کو اگلے مراسلے میں پھر اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو شائد آپ کے روئیے کی وجہ سے اپنے واقعات بیان کرنے سے گھبرا گئے ہیں۔ اگر دھاگا شروع سے ہی ٹریک پر رہتا تو یہاں سچے واقعات کا ایک اچھا ذخیرہ جمع ہونے کی امید تھی۔