چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے. دوسرا حصہ

با ادب

محفلین
ذوالأید تین بہنوں کے بعد سات پھوپیوں والے گھر یں ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۹ کو پیدا ہوا. پیدائش کے وقت انتہائی کمزور اور لاغر تھا. وہ بہت انتظار اور منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونے والا باپ کی پہلی اولاد نرینہ اور ماں کی پہلی امید تھا. وہ حالات جو اولاد نرینہ نہ ہونے کے باعث اسکی والدہ کی زندگی کے لئیے مشکلات کا باعث تھے لگتا تھا سدھرنے والے ہیں.
لیکن وہ مرد جنہیں بیوی کی ذات کی دھجیاں اڑانے کا شغل ہاتھ آجاتا ہے اس مشغلے کے بعد دوسرے مشاغل سے کم.ہی جی بہلانا پسند فرماتے ہیں.
حالات کا سدھرنا خواہشات کے پورا ہونے سے مشروط ہر گز نہیں ..خوشیوں کی موجودگی کے لئے اسباب کا ہونا شرط نہیں. دل.کی کیفیات اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اسکا کرم ہو تو پاس کچھ بھی نہ ہو خوشی اور اطمینان کی دولت عطا کر دیتا ہے. اور اس کا کرم نہ ہو تو پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ نعمتیں چھین لیتا ہے.
حالات نے نہیں سدھرنا تھا سو نہیں سدھرے.
بعض اوقات وہ حالات جو بظاہر ہمیں بگڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہی دراصل سدھار کی جانب گامزن راہ کی پہلی کڑی ہوتے ہیں. کبھی کسی بوسیدہ عمارت کو ٹھیک کرنے کے لئیے اسے ایک دفعہ مکمل طور پر مسمار کر دینا ضروری ہوتا ہے. تب ہی وہ نئے سرے سے مکمل شان سے پروان چڑھتی ہے اگر اسی بوسیدہ عمارت کو رنگ و روغن کر دیا جائے تو اسکی دراڑیں وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جاتی ہیں اور آخر کار ایک دن ملبے کی صورت اختیار کر لیتی ییں ..یہی ملبہ بسا اوقات انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن جاتا ہے اور اس نقصان کو پورا کرنے کی پھر کوئی شکل باقی نہیں رہتی اسلئیے فیصلے وہی بہترین ہوتے ہیں جو وقت پر کئیے جاتے ہیں.
ذوالأید کی والدہ بھی وہ مشکل فیصلہ کر چکی تھیں.
..................................................................
ہسپتال کے سرد سناٹے ساکت ڈاکٹر کے جواب کے انتظار میں سانس روکے بیٹھے ہیں.
دیکھئیے زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ امید رکھئیے.
ڈاکٹر وہ چند پیشہ ورانہ.جملے بولتا ہے جو اسکے پیشے کا تقاضا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ پیشہ ورانہ جملے ان مردہ روحوں میں روح پھونک دیتے ہیں جو اپنے ہی قدموں پہ اپنے بے جان لاشے اٹھائے کھڑے تھے. ہم عمر کے جس حصے میں بھی ہوں بہلنا چاہتے ہیں. حقیقت کے حقیقت ہو جانے تک جھوٹے خوابوں کے سہارے زندہ رہنا چاہتے ہیں. زندگی اسی آس و نراس کی کیفیت میں گزار دینے کا نام ہے. موت اٹل حقیقت ہے لیکن ہم.اسے تب تک خواب جانتے ہیں جب تک یہ واقع نہ ہو جائے. اور اگر ایسا نہ ہوتا تو طبعی موت سے پہلے ہی لاشیں دنیا میں گلنے سڑنے لگتیں. امید وہ کرن وہ روشنی ہے جو زندگی کی رعنائیوں کو ماند نہیں پڑنے دیتی.
وہ لاغر وجود جس کی آنکھوں میں زندگی کی جوت بجھتی جا رہی تھی بلڈ سی پی نامی بَلیدان کے لئیے بَلی دینے کی تیاری کر چکا تھا. کرخت چہرے اور نوکیلی آواز والی نرس ہاتھ میں سرنج پکڑے بَلی کا خون لینے کے لئیے مستعد کھڑی تھی. جیسے ہی مسیحائی کے دیوتا کا اشارہ ملے خون کی بوندیں سرنج کی پیاس بجھا ڈالیں. بجھتی آنکھیں خوف کی آمیزش لئیے خالہ کو تکتی ہیں. خالہ جو ماں کی مار اور باپ کی ڈانٹ سے بچانے والی عظیم ہستی ہے. خالہ جس کے پاس پتنگ سے لے کر کنچوں تک اور کنچوں سے لے کر ہر کھلونا گاڑی کی خریداری کے لئیے وافر رقوم موجود ہیں. جو خواہشات پورا کرنے والا جن ہے. خالہ جو لاڈ پیار میں بگاڑنے والی خطرناک ہستی ہے. خالہ جو اتنی بہادر ہے کہ ماں اور باپ سے لڑ جھگڑ کر شربتی آنکھوں کی مسکراہٹ کا سامان کر سکتی ہے. وہی خالہ سرنج تھامے ان خوفناک ہاتھوں کو دیکھتی بے بسی کی تصویر بنے کھڑی ہے.
خالہ جانی! درد کی شدت لئیے مغموم دھیمی باز گشت خالہ کے کانوں سے ٹکراتی ہے.
ذوالأید حفاظت کی دعا پڑھو. جو بچے دعا پڑھتے ہیں اللہ تمام تکالیف دور کر دیتا ہے. ذوالأید نقاہت بھری آواز میں دعا کی ابتدا کرتا ہے. خالہ ذوالأید کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتی ہے. نرس خون کا خراج وصول.کرتی ہے. ذوالأید درد کی سسکی کو دبا لیتا ہے. سامنے خالہ کھڑی ہے. خالہ کہا کرتی ہے جب دعا پڑھو تو اس یقین سے پڑھا کرو کہ اب تکلیف نہیں ہوگی.
خالہ آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کرتی ہے. ذوالأید بہادر بچہ ہے نا.
بہادر بچہ جواب دینے کی سکت سے محروم ہے. اسکی آنکھیں ادھ موئی کھلی ہیں. وجود بے دم. ناک کے بانسے پہ خون کی چند بوندیں جمی ہیں . جسم ۶ اگست کی شام میں بخارکی تپش سے آگ اگلتا ہے اور ذوالأید سردی سے کپکپا تا ہے. مسیحا کی ہدایت ہے اسے ڈھانپنا نہیں. کمزور لاغر ٹھنڈ سے کپکپاتا گرم وجود. . . . بے بسی کی آخری انتہا ہے جب جگر کا ٹکڑا گڑگڑائےخالہ سردی لگتی ہے اور خالہ فقط محبت کی گرمی لئیے بے بس آنکھوں سے تکتی ہے.
اسی اثناء میں آندھی طوفان کی پھرتی سے تیز قینچی جیسی زبان لئیے ایک اور مسیحا آتا. قینچی جیسے تیز دھار آلے سے الفاظ برآمد ہوتے ہیں.
بچے کی حالت انتہائی خطرناک ہے. کسی بھی قسم کی صورت حال کے لئیے تیار رہیں. علاج کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں.
باپ ڈھے گیا
خالہ نے ڈوبتے دل کو سنبھالا اور آگے بڑھ کر باپ کی ہمت بندھانے کی آخری کوشش کی. مسیحا صرف اللہ ہے بھروسہ رکھو. لیکن وی بھروسہ کھو چکا تھا. مرد کی حقیقت پسندی اسے کہیں کا رہنے نہیں دیتی. وہ بھی کہیں کا نہ رہا.
خالہ اور ماں زندگی کی جنگ کے وہ سپاہی تھے جو میدان جنگ کے جنگجو تھے. ایسے جنگجو جو فتح اور شکست سے بے نیاز ہو کر آخری سانس تک لڑائی کا عزم رکھتی ہیں. جنگ کے نئے محاذ کا طبل بج چکا تھا
جاری ہے
 
Top