یوسف سلطان
محفلین
کس بدبخت شوہرکا جی نہیں چاہتا کہ وہ گھی کا کنسترلےکرگھرداخل ہواوراس کی بیوی کچن میں توبہ شکن انگڑائیاں لیتی ہوئی مخمورنگاہوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے لٹکنے مٹکنے لگے؟
کس بیچاری بہو کا دل نہیں چاہتا کہ سارا دن خشمگین نگاہوں سے دیکھنےاورکوسنے دینے والی ساس ایک مخصوص برانڈ کی کھیر بنانے پراس کے واری صدقے جانے لگے؟
کون نہیں چاہتا کہ چائے کی پیالی ہاتھ میں آتے ہی رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس نوجوان لڑکوں لڑکیوں اور زنخوں کا ایک گروہ اس کے ارد گرد دیوانہ وار ناچنے لگے؟
وہ کون سے لڑکے ہیں جو سارا دن محلے میں لفنگوں کی طرح کرکٹ کھیلتے ہیں جبکہ ان کی مائیں چیخ چیخ کر انہیں سودا لانے کا کہتی ہیں اورجب شام کو وہ کولڈ ڈرنک کی بوتل اٹھائے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سارا خاندان ان کی بلائیں لیتے نہیں تھکتا؟
وہ کون سے باس ہیں جن کے لاکھوں روپے کے موبائل کام نہیں کرتے اور ان کا ایک ملازم اڑھائی ہزار کا ایک چینی موبائل ان کے سامنے لا پھینکتا ہے تو باس ملازم کی عقل و دانش کا قائل ہو جاتا ہے اور اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دے ڈالتا ہے ؟
کون ہیں وہ لوگ جو دلہنوں کی مانند زرق برق رنگا رنگ شیروانیوں میں ملبوس ہو کر لوگوں سے قرآن سے متعلق سوال پوچھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یار تُکا ہی لگا دو؟
کہاں ہیں وہ بنک جو لاکھوں کے اکاؤنٹ پر چند سو روپے ماہانہ سود کی مد میں ادا کرتے ہیں اور انہی ماہانہ ادائیگیوں کی بنا پر کھاتہ دارکروڑوں کی بی ایم ڈبلیو خرید سکتے ہیں ؟
کہاں ہیں وہ سگھڑ بیبیاں جو واشنگ پاؤڈر کے ایک ڈبے کی بجائے دو خرید کراتنی بچت کر لیتی ہیں کہ چند ماہ میں ہیرے جڑے زیورات پہن لیتی ہیں؟
کہاں ہیں حفظان صحت کے وہ ماہرین جو آپ کے گھر میں گُھس آتے ہیں اور آپ کے باتھ روم میں فلش کے اندر ہاتھ مار مار کر آپ کو بتاتے ہیں کہ ان کا باتھ روم ڈیٹرجنٹ ہی سب سے بہتر ہے؟
کہاں بنتی ہیں وہ کاریں جن میں سوار شوہر جب دیر سے گھر پہنچتا ہے تو بیوی ہاتھ میں پکڑا بیلن یا چھری ایک جانب پھینکتی ہے اور وہ دونوں ہنسی خوشی لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے ہیں؟
کہاں ہیں وہ بچے جو دن بھر شور شرابا غل غپاڑہ مچا کر ماں کے سر میں سوراخ کرتے ہیں اور جیسے ہی ان کے سامنے مرچ مصالحوں والی دو منٹ میں تیار سیویوں کا پیالہ رکھا جاتاہے تو وہ ننھے فرشتوں کی مانند انہیں نوشِ تن کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں؟
اور کہاں ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کو سفید براق لباس پہنا کر باہر بھیجتی ہیں اور چند لمحوں بعد وہ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لتھڑے واپس لوٹتے ہیں اور خوشی سے نہال مائیں انہیں اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہیں کیونکہ داغ تواچھے ہوتے ہیں ؟
کون ہیں یہ لوگ جو یہ سب کچھ کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں؟یہ وہ لوگ ہیں جو اس شیطانی بکس کے اند ر رہتے ہیں جسے ہم ٹی وی یا ٹیلی وژن کہتے ہیں۔ اور یہ سب لوگ ایک ایسے سحر میں گرفتار ہیں جسے اشتہار بازی یا ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں۔ وکیلوں ، پراپرٹی ڈیلروں اور کار ڈیلروں کی مانند اشتہاری کمپنیوں کا بھی ایک ہی منتر ہے ۔ جھوٹ بولو اور یوں منہ بھر کے اور جبڑہ جما کے بولو کہ خود بولنے والے کو بھی یقین ہونے لگے کہ یہی سچ ہے۔ اور یوں بھی ہمارے ایسے معاشرے میں سچ کے لئے کوئی منطق لازم نہیں۔جھوٹ کو سچ اور سچ کو کھرا سچ بنانے کے لئے صرف گوراچِٹا ، دُبلا پتلا ہونااور صنف نازک سے تعلق ہی کافی ہے۔ اور اگر اس دُبلے بدن کو موسیقی کی دھن پر افقی رخ میں متواتر ہلایا جائے تو کھرا سچ پتھر پر لکیرہو جاتا ہے ۔ گورا چِٹا اور دُبلا پتلا ہونا اتنا لازم ہے کہ اس کی موجودگی میں تیسری شرط کی بھی کچھ خاص پابندی ضروری نہیں۔
منطق کی غیر موجودگی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ شیو بنانے والی کریم کی افادیت بھی خود استعمال کرنے والا مرد نہیں بتا سکتا۔ اس کے لئے بھی ایک خاتون کا مرد کے گالوں کو سہلانا اور پھر قبولیت کے انداز میں مسکرانا لازم ہے۔ عورتیں بھی لپک لپک کر ایک مخصوص واشنگ پاؤڈر ہی خریدتی ہیں کہ وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ وہی سب سے اچھا واشنگ پاؤڈر ہے۔ قسم لے لو جو ہمیں وسیم اکرم اور واشنگ پاؤڈ ر کے درمیان سوائے 'و' کے کوئی بھی قدر مشترک دکھائی دی ہو. ٹی وی کے اشتہاروں پر سے اس دن ہی ایمان اٹھ گیا تھا جب ایک روز دیکھا کہ مردوں کے لئے بھی رنگ گورا کرنے والی کریمیں آ گئی ہیں۔ دکان پر پہنچا اور مطلوبہ کریم طلب کی تو دکاندار نے پوچھا ، "کیا کیجئے گا؟" میں بولا، "لگاؤں گا اور کیا کروں گا؟" دکاندار نے اپنے سیلز بوائے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پھر پوچھا، "آپ کا کیا خیال ہے یہ پچھلے چھ مہینوں سے کیا لگا رہا ہے ؟" لوڈ شیڈنگ کی ماری تاریک رات کی مانند سیاہ رنگت والے سیلز بوائے کو دیکھا تو جی میں آیا کہ کہہ ڈالوں، "بوٹ پالش؟" دکاندار بولا، "جائیے قبلہ، اچھی خاصی بھنی ہوئی گندم جیسی رنگت ہے ۔چھوڑیں ان چونچلوں کو۔ اب تو ماشااللہ آپ کی شادی بھی ہو چکی۔"
ربط
کس بیچاری بہو کا دل نہیں چاہتا کہ سارا دن خشمگین نگاہوں سے دیکھنےاورکوسنے دینے والی ساس ایک مخصوص برانڈ کی کھیر بنانے پراس کے واری صدقے جانے لگے؟
کون نہیں چاہتا کہ چائے کی پیالی ہاتھ میں آتے ہی رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس نوجوان لڑکوں لڑکیوں اور زنخوں کا ایک گروہ اس کے ارد گرد دیوانہ وار ناچنے لگے؟
وہ کون سے لڑکے ہیں جو سارا دن محلے میں لفنگوں کی طرح کرکٹ کھیلتے ہیں جبکہ ان کی مائیں چیخ چیخ کر انہیں سودا لانے کا کہتی ہیں اورجب شام کو وہ کولڈ ڈرنک کی بوتل اٹھائے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سارا خاندان ان کی بلائیں لیتے نہیں تھکتا؟
وہ کون سے باس ہیں جن کے لاکھوں روپے کے موبائل کام نہیں کرتے اور ان کا ایک ملازم اڑھائی ہزار کا ایک چینی موبائل ان کے سامنے لا پھینکتا ہے تو باس ملازم کی عقل و دانش کا قائل ہو جاتا ہے اور اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دے ڈالتا ہے ؟
کون ہیں وہ لوگ جو دلہنوں کی مانند زرق برق رنگا رنگ شیروانیوں میں ملبوس ہو کر لوگوں سے قرآن سے متعلق سوال پوچھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یار تُکا ہی لگا دو؟
کہاں ہیں وہ بنک جو لاکھوں کے اکاؤنٹ پر چند سو روپے ماہانہ سود کی مد میں ادا کرتے ہیں اور انہی ماہانہ ادائیگیوں کی بنا پر کھاتہ دارکروڑوں کی بی ایم ڈبلیو خرید سکتے ہیں ؟
کہاں ہیں وہ سگھڑ بیبیاں جو واشنگ پاؤڈر کے ایک ڈبے کی بجائے دو خرید کراتنی بچت کر لیتی ہیں کہ چند ماہ میں ہیرے جڑے زیورات پہن لیتی ہیں؟
کہاں ہیں حفظان صحت کے وہ ماہرین جو آپ کے گھر میں گُھس آتے ہیں اور آپ کے باتھ روم میں فلش کے اندر ہاتھ مار مار کر آپ کو بتاتے ہیں کہ ان کا باتھ روم ڈیٹرجنٹ ہی سب سے بہتر ہے؟
کہاں بنتی ہیں وہ کاریں جن میں سوار شوہر جب دیر سے گھر پہنچتا ہے تو بیوی ہاتھ میں پکڑا بیلن یا چھری ایک جانب پھینکتی ہے اور وہ دونوں ہنسی خوشی لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے ہیں؟
کہاں ہیں وہ بچے جو دن بھر شور شرابا غل غپاڑہ مچا کر ماں کے سر میں سوراخ کرتے ہیں اور جیسے ہی ان کے سامنے مرچ مصالحوں والی دو منٹ میں تیار سیویوں کا پیالہ رکھا جاتاہے تو وہ ننھے فرشتوں کی مانند انہیں نوشِ تن کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں؟
اور کہاں ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کو سفید براق لباس پہنا کر باہر بھیجتی ہیں اور چند لمحوں بعد وہ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لتھڑے واپس لوٹتے ہیں اور خوشی سے نہال مائیں انہیں اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہیں کیونکہ داغ تواچھے ہوتے ہیں ؟
کون ہیں یہ لوگ جو یہ سب کچھ کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں؟یہ وہ لوگ ہیں جو اس شیطانی بکس کے اند ر رہتے ہیں جسے ہم ٹی وی یا ٹیلی وژن کہتے ہیں۔ اور یہ سب لوگ ایک ایسے سحر میں گرفتار ہیں جسے اشتہار بازی یا ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں۔ وکیلوں ، پراپرٹی ڈیلروں اور کار ڈیلروں کی مانند اشتہاری کمپنیوں کا بھی ایک ہی منتر ہے ۔ جھوٹ بولو اور یوں منہ بھر کے اور جبڑہ جما کے بولو کہ خود بولنے والے کو بھی یقین ہونے لگے کہ یہی سچ ہے۔ اور یوں بھی ہمارے ایسے معاشرے میں سچ کے لئے کوئی منطق لازم نہیں۔جھوٹ کو سچ اور سچ کو کھرا سچ بنانے کے لئے صرف گوراچِٹا ، دُبلا پتلا ہونااور صنف نازک سے تعلق ہی کافی ہے۔ اور اگر اس دُبلے بدن کو موسیقی کی دھن پر افقی رخ میں متواتر ہلایا جائے تو کھرا سچ پتھر پر لکیرہو جاتا ہے ۔ گورا چِٹا اور دُبلا پتلا ہونا اتنا لازم ہے کہ اس کی موجودگی میں تیسری شرط کی بھی کچھ خاص پابندی ضروری نہیں۔
منطق کی غیر موجودگی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ شیو بنانے والی کریم کی افادیت بھی خود استعمال کرنے والا مرد نہیں بتا سکتا۔ اس کے لئے بھی ایک خاتون کا مرد کے گالوں کو سہلانا اور پھر قبولیت کے انداز میں مسکرانا لازم ہے۔ عورتیں بھی لپک لپک کر ایک مخصوص واشنگ پاؤڈر ہی خریدتی ہیں کہ وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ وہی سب سے اچھا واشنگ پاؤڈر ہے۔ قسم لے لو جو ہمیں وسیم اکرم اور واشنگ پاؤڈ ر کے درمیان سوائے 'و' کے کوئی بھی قدر مشترک دکھائی دی ہو. ٹی وی کے اشتہاروں پر سے اس دن ہی ایمان اٹھ گیا تھا جب ایک روز دیکھا کہ مردوں کے لئے بھی رنگ گورا کرنے والی کریمیں آ گئی ہیں۔ دکان پر پہنچا اور مطلوبہ کریم طلب کی تو دکاندار نے پوچھا ، "کیا کیجئے گا؟" میں بولا، "لگاؤں گا اور کیا کروں گا؟" دکاندار نے اپنے سیلز بوائے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پھر پوچھا، "آپ کا کیا خیال ہے یہ پچھلے چھ مہینوں سے کیا لگا رہا ہے ؟" لوڈ شیڈنگ کی ماری تاریک رات کی مانند سیاہ رنگت والے سیلز بوائے کو دیکھا تو جی میں آیا کہ کہہ ڈالوں، "بوٹ پالش؟" دکاندار بولا، "جائیے قبلہ، اچھی خاصی بھنی ہوئی گندم جیسی رنگت ہے ۔چھوڑیں ان چونچلوں کو۔ اب تو ماشااللہ آپ کی شادی بھی ہو چکی۔"
ربط