1 فاروق سرور خاں کی بات موسیقی کی موافقت میں
2 ایک اور صاحب نے ان سے پہلے فرمایا تھا :
میری مخلصانہ عرض ہے کہ جنت کی باتوں کو دنیا میں دلیل نہ بنایا جائے ۔ جنت دنیا کا بدلہ ہے ، یعنی اگر یہاں تم گناہ سے بچے تو اس قسم کا ثواب بدرجہا بہتر جنت میں ملے گا ۔
مثلا بیوی پر قناعت کر کے اپنی خواہش کو قابو میں رکھا اور زنا نہیں کیا ، تو جنت میں کئی کئی حوریں ملے گیں ،
یہاں شوق شراب کو قابو میں رکھا اور جام و مینا لڑانے سے رکے رہیں تو جنت میں اس سے بہتر مستی آور پاک شراب ملے گی ۔
یہاں مال حلال پر قناعت کر کےئ روکھی سوکھی گذر کر لی تو جنت میں بدرجہا زیادہ نعمتیں اللہ تعالی عطا فرمائیں گے ۔
غرض یہ باتیں اور ہیں ، اس سے احکام دنیوی پر استدلال کرنا دلیل فاسد ہے ۔ جو قرآن سے ثابت نہیں ۔
٭ موسیقی کی موافقت میں
سورۃ الزخرف:43 , آیت:70 تم اور تمہارے ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی٭ (سب) جنت میں داخل ہو جاؤ (جنت کی نعمتوں، راحتوں اور لذّتوں کے ساتھ) تمہاری تکریم کی جائے گی
سورۃ الروم:30 , آیت:15 پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو وہ باغاتِ جنت میں خوش حال و مسرور کر دیئے جائیں گے
سورۃ الانبيآء:21 , آیت:105 اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے
2 ایک اور صاحب نے ان سے پہلے فرمایا تھا :
ادخلوا الجنۃ انتم و ازواجکم تحبرون (70:43)
تم اور تمہارے جوڑے جنت میں جاو جہاں تمہیںنغمے سنائے جائیں گے
فاما الذین آمنوا و عملوا الصلحت فھم فی روضۃ یحبرون (15:30)
جو لوگ ایمان لائے اور اس کے مطابق عمل کیے وہ چمن میںنغمے سن رہے ہوں گے"
تحبرون ، اور یحبرون الحبرہ سے مشتق ہیں جن کا معنی عام طور پر یہ کیا جاتا ہے ”مگن ہوں گے ، خوش ہوں گے ، مسرور ہوں گے “ مگر قرآن کتاب اﷲ ہے اور اس کی آیات بینات کو کسی ایک معنی کے تحت مقید نہیں کیا جا سکتا ۔۔
ہمیں ان الفاظ کے کچھ اور معانی بھی ملتے ہیں
امام شریف مرتضی حسین زبیدی تاج العروس میں لکھتے ہیں
الحبرۃ بالفتح السماع فی الجنۃ وبہ فسر الزجاج لآیہ و قال الحبرۃ فی اللغۃ کل نغمۃ حسنۃ محسنۃ
حبرہ (حا کے زبر سے )سے مراد بہشتی نغمہ ہے اور زجاج نے مندرجہ بالا آیت کی یہی تفسیر کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ لغت میں حبرہ ہر اچھے گانے کو کہتے ہیں
مصباح اللغات المنجد میں بھی ترجمہ کچھ یوں درج ہے
خوشی نعمت ، ہر عمدہ راگ
علاوہ ازیں حبرہ اور تحبیر کی بہترین تفسیر خود حدیث میں آئی ہے
کہ
لحبرتہ لک تحبیرا
امید ہے قرآن کے حوالہ سے تو ثبوت مل ہی گیا ہے
میری مخلصانہ عرض ہے کہ جنت کی باتوں کو دنیا میں دلیل نہ بنایا جائے ۔ جنت دنیا کا بدلہ ہے ، یعنی اگر یہاں تم گناہ سے بچے تو اس قسم کا ثواب بدرجہا بہتر جنت میں ملے گا ۔
مثلا بیوی پر قناعت کر کے اپنی خواہش کو قابو میں رکھا اور زنا نہیں کیا ، تو جنت میں کئی کئی حوریں ملے گیں ،
یہاں شوق شراب کو قابو میں رکھا اور جام و مینا لڑانے سے رکے رہیں تو جنت میں اس سے بہتر مستی آور پاک شراب ملے گی ۔
یہاں مال حلال پر قناعت کر کےئ روکھی سوکھی گذر کر لی تو جنت میں بدرجہا زیادہ نعمتیں اللہ تعالی عطا فرمائیں گے ۔
غرض یہ باتیں اور ہیں ، اس سے احکام دنیوی پر استدلال کرنا دلیل فاسد ہے ۔ جو قرآن سے ثابت نہیں ۔