فرخ منظور
لائبریرین
نہ مندر میں صنم ہوتا، نہ مسجد میں خدا ہوتا
ہمی سے یہ تماشا ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
ہمی سے یہ تماشا ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیرِ پا ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیرِ پا ہوتا
گھٹا چھاتی، بہار آتی، تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گُل کھلتے، کہ زخمِ دل ہرا ہوتا
بُلا کر تُم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمی خود اٹھ گئے ہوتے، اشارہ کر دیا ہوتا
(نوشاد، موسیقارِ اعظم)
پھر اس کے بعد گُل کھلتے، کہ زخمِ دل ہرا ہوتا
بُلا کر تُم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمی خود اٹھ گئے ہوتے، اشارہ کر دیا ہوتا
(نوشاد، موسیقارِ اعظم)