عراق اور افغانستان کی جنگيں ناکام رہيں، تازہ سروے

عراق اور افغانستان کی جنگيں ناکام رہيں، تازہ سروے
نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی طرف سے امريکا ميں کرائے جانے والے ايک تازہ سروے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ افغانستان اور عراق ميں امريکی عسکری کارروائيوں کو ہر چار ميں سے تين امريکی شہری ’ناکامی‘ سے تعبير کرتے ہيں۔
ہر چار ميں سے تين امريکی شہريوں کا کہنا ہے کہ تاريخ ميں امريکا کی افغانستان اور عراق کی جنگوں کو مکمل طور پر ناکام کارروائيوں کے طور پر ديکھا جائے گا اور قريب اتنے ہی شہريوں کا ماننا ہے کہ ان دونوں ممالک سے انخلاء کا فيصلہ درست تھا۔
گزشتہ ماہ امريکا ميں AP-GfK کی طرف سے کرائے جانے والے ايک سروے کے مطابق امريکی شہريوں کی اکثريت اس بارے ميں پر اعتماد نہيں ہے کہ افغانستان يا عراق ميں حقيقی معنوں ميں جمہوری حکومتیں قائم ہو سکیں گی۔ سروے ميں شامل 78 فيصد لوگوں کی رائے ہے کہ افغانستان ميں مستحکم جمہوری حکومت کے قيام کا يا تو ’کوئی امکان نہيں ہے‘ يا پھر اس کے ’زيادہ امکانات نہيں ہيں۔‘ سروے ميں شامل 80 فيصد امريکيوں کی عراق کے بارے ميں بھی يہی رائے ہے۔
عراق ميں ان دنوں اسلامی رياست نامی سنی شدت پسند تنظيم سرگرم ہے
AP-GfK کے مطالعے ميں شامل 70 فيصد امريکيوں کا کہنا ہے کہ عراق سے 2011ء ميں مکمل امريکی انخلاء اور افغانستان سے 2014ء کے آخر تک زيادہ تر امريکی افواج کا انخلاء، دونوں ہی درست فيصلے ہيں۔ ان دونوں جنگوں ميں قريب 6,800 امريکی فوجی لقمہ اجل بن چکے ہيں۔
اس وقت 51 فيصد امريکيوں کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت ميں افغانستان کی صورتحال مزيد بگڑے گی جبکہ 58 فيصد امريکيوں کی عراق کے حالات کے بارے ميں بھی يہی رائے ہے۔
عراق اور افغانستان کی صورتحال ايک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔ تاہم ان دونوں ہی ممالک ميں امريکا ايک دہائی سے زائد عرصے سے ايسی جمہوری حکومتوں کے قيام کی کوششيں کرتا آيا ہے، جو اپنے علاقوں کی با اثر نگرانی کرتے ہوئے امريکی سر زمين کو لاحق خطرات ميں کمی لا سکيں۔ اور ان دونوں ہی ملکوں ميں امريکی مقاصد ناکامی سے دوچار ہيں۔ عراق اور افغانستان کے مستقبل کوکمزور ليڈرشپ، کمزور اداروں، بغاوت، نسلی تنازعات اور انتہا پسند تحريکوں سے خطرات لاحق ہيں۔
AP-GfK کا يہ مطالعہ چوبيس تا اٹھائيس جولائی کرايا گيا تھا اور اس کے ليے امکانات پر مبنی KnowledgePanel نامی ايک آن لائن پينل کا استعمال کيا گيا تھا۔ سروے ميں 1,044 بالغ امريکی شہريوں سے ان کی رائے جاننے کے ليے انٹرويوز ليے گئے تھے۔ سروے ميں غلطی کی گنجائش کی شرح منفی يا مثبت 3.4 بتائی گئی ہے۔
 
امریکہ جہاں جہاں بھی گھسا ہے اس ملک کا بیڑا غرق ہی کیا ہے۔ صرف حکومت بدلنے کے نام پر آتے ہیں اور پورے ملک کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ چاہے افغانستان ہو یا عراق ہو یا لبیا میں مداخلت ہو۔ ان سب میں مستقل خانہ جنگی جاری ہے اور غالباً امریکی اصل مقصد بھی پورے ملک کا مستقل بیڑہ غرق کرنا ہی تھا صرف حکومت بدلنا نہیں۔
 
امریکہ جہاں جہاں بھی گھسا ہے اس ملک کا بیڑا غرق ہی کیا ہے۔ صرف حکومت بدلنے کے نام پر آتے ہیں اور پورے ملک کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ چاہے افغانستان ہو یا عراق ہو یا لبیا میں مداخلت ہو۔ ان سب میں مستقل خانہ جنگی جاری ہے اور غالباً امریکی اصل مقصد بھی پورے ملک کا مستقل بیڑہ غرق کرنا ہی تھا صرف حکومت بدلنا نہیں۔
امریکیوں کا کاروبار ، امریکہ کی سر زمین سے باہر لڑی جانی والی جنگیں ہیں۔ یہ جمہوریت، حکمران بدلنا وغیرہ وغیرہ اس سب سے بڑے کاروبار کے چھوٹے چھوٹے مددگار عناصر ہیں۔ پیچھے رہ گئی خانہ جنگی، تو جب تک کوئی نئی مارکیٹ نہیں ملتی، یہ تھوڑے بہت منافع کا مستقل ذریعہ ہیں۔
یہ سروے اور اس قسم کی باتیں، ناکام رہ جانے والوں کو ذہنی طور پر ذرا سی دیر خوش کرنے کے لیے چھاپے جاتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
افغان جنگ تو کامیاب رہی ہے۔
طالبان سے جان چھوٹی۔ جمہوری حکومتیں قائم ہوئی۔ تقریباً دو لاکھ افراد پر مشتمل افغان مسلح افواج کو تربیت دے کر تیار کیا گیا ہے۔
 
افغان جنگ تو کامیاب رہی ہے۔
طالبان سے جان چھوٹی۔ جمہوری حکومتیں قائم ہوئی۔ تقریباً دو لاکھ افراد پر مشتمل افغان مسلح افواج کو تربیت دے کر تیار کیا گیا ہے۔
وہاں پر خانہ جنگی اور دہشت گردی ابھی تک جاری ہے۔
 

عثمان

محفلین
اور وہ بڑے
objectives کیا تھے بھلا؟​
میرے خیال میں اپنے پہلے مراسلے میں اس کا جواب دے چکا ہوں۔
امریکہ طالبان حکومت کو افغانستان سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ لوگ اس اس معاملے میں کامیاب رہے ہیں۔ افغانستان جیسا بٹا ہوا معاشرہ جمہوریت کی طرف کامیابی سے بڑھ رہا ہے۔ طالبان کو روکنے کے لیے وہ لاکھوں کی مقامی فوج تیار کر چکے ہیں۔
ایساف کی فوج کی تعداد افغانستان میں اب پہلے کی نسبت بہت کم ہے۔
 
میرے خیال میں اپنے پہلے مراسلے میں اس کا جواب دے چکا ہوں۔
امریکہ طالبان حکومت کو افغانستان سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ لوگ اس اس معاملے میں کامیاب رہے ہیں۔ افغانستان جیسا بٹا ہوا معاشرہ جمہوریت کی طرف کامیابی سے بڑھ رہا ہے۔ طالبان کو روکنے کے لیے وہ لاکھوں کی مقامی فوج تیار کر چکے ہیں۔
ایساف کی فوج کی تعداد افغانستان میں اب پہلے کی نسبت بہت کم ہے۔
امریکہ افغانستان میں اسامہ کو پکڑنے کا دعوی کر کے آیا تھا۔ لیکن اس وقت کی طالبان کی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ امریکہ صرف اسامہ کو پکڑنے نہیں آرہا ہماری حکومت ختم کرنے آیا ہے۔
آپ نے تو طالبان کے الزام کی تصدیق کر دی :)
 

عثمان

محفلین
امریکہ افغانستان میں اسامہ کو پکڑنے کا دعوی کر کے آیا تھا۔ لیکن اس وقت کی طالبان کی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ امریکہ صرف اسامہ کو پکڑنے نہیں آرہا ہماری حکومت ختم کرنے آیا ہے۔
آپ نے تو طالبان کے الزام کی تصدیق کر دی :)
سن 2001ء کی خبریں ذہن میں رکھیں تو معاملہ یہی تھا کہ القاعدہ کی لیڈر شپ کو امریکہ کے حوالے کیا جائے یا پھر طالبان حملے کے لیے تیار رہیں۔ طالبان کے انکار پر حملہ شروع ہوا۔
 
سن 2001ء کی خبریں ذہن میں رکھیں تو معاملہ یہی تھا کہ القاعدہ کی لیڈر شپ کو امریکہ کے حوالے کیا جائے یا پھر طالبان حملے کے لیے تیار رہیں۔ طالبان کے انکار پر حملہ شروع ہوا۔
بالکل ایسا ہی تھا۔ میں بھی آپ سے یہی عرض کررہا ہوں کہ امریکہ اسامہ کو پکڑنے کا دعوی کرکے آیا تھا۔ اس وقت طالبان نے یہی کہا تھا کہ امریکہ ہم پر حملہ ضرور کرے گا۔
اسامہ پکڑنے کا کام تو انہوں نے دو سال پہلے کیا جو اصل مقصد تھا اس سے پہلے اپنے غیر اعلانیہ مقصد پر کام کرتے رہے :)
 

Fawad -

محفلین
امریکہ افغانستان میں اسامہ کو پکڑنے کا دعوی کر کے آیا تھا۔ لیکن اس وقت کی طالبان کی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ امریکہ صرف اسامہ کو پکڑنے نہیں آرہا ہماری حکومت ختم کرنے آیا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اگر يہ درست ہوتا تو سعودی عرب اور پاکستان سميت دنيا کے اہم ترين مسلم ممالک افغانستان ميں ہماری کاوشوں کی حمايت نہيں کر رہے ہوتے۔

ستمبر گيارہ 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

10557356_757493807644113_2001357585079651558_n.jpg
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اگر يہ درست ہوتا تو سعودی عرب اور پاکستان سميت دنيا کے اہم ترين مسلم ممالک افغانستان ميں ہماری کاوشوں کی حمايت نہيں کر رہے ہوتے۔

ستمبر گيارہ 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

10557356_757493807644113_2001357585079651558_n.jpg
یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ امریکہ کا دعوی یہی تھا کہ وہ صرف اسامہ کو پکڑنے آیا ہے۔
لیکن اس بہانے امریکہ نے کیا کیا ، کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
 

Fawad -

محفلین
اسامہ پکڑنے کا کام تو انہوں نے دو سال پہلے کیا جو اصل مقصد تھا اس سے پہلے اپنے غیر اعلانیہ مقصد پر کام کرتے رہے :)

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ امريکہ وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے افغانستان ميں اپنی فوجيں بھیجنے کا فيصلہ کيا تھا۔ حقيقیت يہ ہے کہ صرف امريکہ ہی نہيں بلکہ تمام مہذب دنيا نے عمومی طور پر دہشت گردی کے اس عفريت کے خلاف کھڑا ہونے کا فيصلہ کيا تھا جو سب کے ليے مشترکہ خطرہ بن چکا تھا۔


يہ کہنا کہ چاليس سے زائد ممالک نے اپنے فوجی اس خطے ميں صرف ايک فرد کو گرفتار کرنے کے ليے بھيجے، درست نہيں ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ القائدہ جيسی عالمی دہشت گرد تنظيم کے سربراہ کی حيثيت سے اسامہ بن لادن نے اپنی تنظيم کی وسعت ميں کليدی کردار ادا کيا تھا اور عالمی برادری کے ليے يہ امر انتہائ اہميت کا حامل تھا کہ اسے کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔


ليکن کوئ ايک فرد نہيں بلکہ القائدہ کی فعال صلاحيت اور دنيا بھر ميں اس سے منسلک گروہ عاہم شہريوں کے ليے اصل خطرہ ہيں۔ تکنيکی اعتبار سے جو افراد خود کش حملے کرتے ہيں بلکہ يہاں تک کہ وہ مجرم بھی جو 911 کے واقعات کے ذمہ دار تھے وہ تو اپنے جرائم کی تکميل کے عمل کے دوران ہی ہلاک ہو گئے تھے۔ ليکن دہشت گردوں کا ان حملے کے متاثرين کے ساتھ ہی ہلاک ہو جانے کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ يہ تو محض پيادے اور ہتھيار ہوتے ہيں جو وسيع تناظر ميں کوئ حيثيت نہيں رکھتے۔ يہ تو وہ تنظيمی ڈھانچہ ہوتا ہے جو بہکاوے، تربيت، لاجسٹک سپورٹ اور مالی امداد کے ذريعے ان افراد کو اس قابل بناتا ہے اور انھيں انسانی ہتھياروں ميں تبديل کر ديتا ہے۔


القائدہ کے روحانی پيشوا کی حيثيت سے اسامہ بن لادن کی موت عالمی برادری کے ليے ايک عظيم فتح اور دہشت گردی کے خلاف ہماری جاری کاوشوں کے ضمن ميں ايک حقيقی پيش رفت ہے۔ ليکن يہ کہنے کے باوجود، ہم بدستور القائدہ کے مکمل ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کر رہے ہيں تا کہ القائدہ کو خطے اور دنيا ميں دہشت گردی کے حملے کرنے کے ليے کوئ محفوظ ٹھکانے ميسر نہ ہوں۔


افغانستان میں امريکہ کی فوجی کاروائ کسی ايک شخص کے خلاف نہيں تھی۔ جيسا کہ صدر اوبامہ نے اپنی ايک تقرير کے دوران واضح کيا تھا کہ 911 کے واقعات کے بعد امريکہ کے لیے فوجی کاروائ کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا۔


"يہ واضح رہے کہ اس دن القائدہ نے 3000 افراد کو ہلاک کيا تھا۔ ہلاک شدگان ميں امريکہ اور ديگر کئ ممالک کے بے گناہ مرد، عورتيں اور بچے شامل تھے جنھوں نے کسی کا کچھ نہيں بگاڑا تھا۔ اس کے باوجود القائدہ نے ان افراد کے بيہمانہ قتل کا فيصلہ کيا اور نہ صرف يہ کہ اس کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اب بھی بڑے پيمانے پر قتل کے لیے اپنے بيان جاری کر چکے ہیں۔ کئ ممالک میں ان کے رفقا کار موجود ہيں اور وہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافے کے خواہ ہیں۔ يہ کوئ قابل بحث رائے نہيں بلکہ حقائق ہيں جن سے نبرد آزما ہونا ہے۔"


اس وقت امريکی افواج کی اس خطے ميں موجودگی کا اصل ہدف صدر اوبامہ کے واضح الفاظ کے مطابق القائدہ کی شکست وریخ اور مکمل خاتمہ ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
اس وقت 51 فيصد امريکيوں کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت ميں افغانستان کی صورتحال مزيد بگڑے گی جبکہ 58 فيصد امريکيوں کی عراق کے حالات کے بارے ميں بھی يہی رائے ہے۔
امریکہ کو کس نے ٹھیکہ دیا ہے کہ کسی ملک میں اصلاحات لانے کے نام پر تباہی مچائے۔ اگر امریکہ کو کسی ملک سے شکایت ہے تو سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ کو درخواست دے۔
ترک وزیر اعظم نے صحیح کہا”دراصل مسلم ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔‘‘ اور ہم منتشر ہیں کبھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور کبھی تباہی مچانے والوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہیں۔
 
Top