خود کلامی - من کی باتیں

اکثر اوقات سچ کڑوا نہیں ہوتا، سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے ، ہم سچ بولنے کے ساتھ ساتھ دراصل دوسرے کو ذلیل کر رہے ہوتے ہیں، اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری ذلیل کرنے کی حرکت کو صرف سچ سمجھا جائے
 
نماز جمعہ کیلیئے روانہ ہوا
ذرا سی دیر ہوگئی تھی اسلیئے مسجد کے صحن میں جگہ مل سکی
جائے نماز پاس تھی، بچھائی اور بیٹھ گیا۔
خطبہ شروع ہوا
مسجد بھر گئی، دریاں کم ہونے کی وجہ سے لوگ کھڑے ہوکر انتظار کرنے لگے
میں نے تھوڑا سا سمٹ کر ایک لڑکے کو جگہ دیدی، کہ خطبہ بیٹھ کر سننا چاہیئے
لیکن شدید دھوپ اور گرمی میں تپتی زمین پر بیٹھنے کو کوئی تیار نہ تھا۔
خطبہ ختم ہوا
صفیں سیدھی ہوئی تو لوگوں کو جگہ مل گئی۔
دو بندے رہ گئے۔
دونوں کلین شیو تھے۔
ان میں سے ایک نے کہا یار اتنی گرمی ہے زمین تپ رہی ہے، سجدہ نہیں کرسکیں گے، واپس چلتے ہیں۔
دوسرے نے جواب دیا: یار! "جتنی بھی گرم ہو جہنم سے زیادہ گرم نہیں ہوگی"۔
پڑھ لیتے ہیں نماز ، ورنہ اللہ ناراض ہوگا۔

مجھے احساس ہوا کہ بعض لوگ بظاہر اتنے بڑے مسلمان نظر نہیں آرہے ہوتے جتنے وہ ہوتے ہیں۔
اتنا بڑا جملہ!!
اللہ تعالیٰ نے فورا انتظام کیا۔
اگلی صفوں میں دو بندوں کی جگہ بن گئی اور ان دونوں نے آرام سے چھاؤں میں دری کے اوپر نماز ادا کی۔

"اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اسکے لیئے راستے کھول دیتے ہیں۔"
سورۃ الطلاق آیۃ 2
از
قاضی محمد حارث
 
یہ عورت گاؤں کے عالم کو وہ روایتی والا عامل سمجھتی تھی جو گنڈے اور تعویذ کا کام کرتا ہے۔ اس لیئے جاتے ہی اس نے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے ایسا عمل کر دیجئے کہ میرا خاوند میرا مطیع بن کررہے اور مجھے ایسی محبت دے جو دنیا میں کسی عورت نے نه پائی ہو۔ بندہ عامل ہوتا تو جھٹ سے تعویذ لکھتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا، وہ جانتا تھا کہ خاتون اسے کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی مراد پانے کیلے آئی بیٹھی ہے۔ یہی سوچ کر عالم صاحب نےکہا، محترمہ، تیری خواہش بہت بڑی ہے لہٰذہ اس کے عمل کی قیمت بھی بڑی ہوگی، کیا تم یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہو؟ عورت نے کہا میں بخوشی ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہوں۔ عالم نے کہا ٹھیک ہے تم مجھے شیر کی گردن سے ایک بال خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لا دو تاکہ میں اپنا عمل شروع کر سکوں۔
شیر کی گردن کا بال اور وہ بھی میں اپنے ہاتھ سے توڑ کر لا دوں؟ جناب آپ اس عمل کی قیمت روپوں میں مانگیئے تو میں ہر قیمت دینے کو تیار ہوں مگر یہ توآپ عمل نا کر کے دینے والی بات کر رہے ہیں! آپ جانتے ہی ہیں کہ شیر ایک خونخوار اور وحشی جانور ہے۔ اس سے پہلے کی میں اس کی گردن تک پہنچ کر اسکابال حاصل کر پاؤں وہ مجھے پہلے ہی پھاڑ کھائے گا۔
عالم نے کہا، بی بی، میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس عمل کے لئے شیر کی گردن کا بال ہی لانا ہوگا اور وہ بھی تم اپنے ہاتھ سے توڑ کر لاؤ گی۔ اس عمل کو بس اسی طرح ہی کیا جا سکتا ہے۔
عورت ویسے تو مایوس ہو کر ہی وہاں سے چلی مگر پھر بھی اس نے اپنی چند ایک راز دان سہیلیوں اور مخلص احباب سے مشورہ کیا تواکثر کی زبان سے یہی سننے کو ملا کہ کام اتنا ناممکن تو نہیں ہے کیونکہ شیر تو بس اسی وقت ہی خونخوار ہوتا ہے جب بھوکا ہو۔ شیر کو کھلا پلا کر رکھو تو اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے۔ اس عورت نے یہ نصیحتیں اپنے پلے باندھیں اور جنگل میں جا کر آخری حد تک جانے کی ٹھان لی۔
عورت شیر کیلئے گوشت پھینک کر دور چلی جاتی اورشیر آ کر یہ گوشت کھا لیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شیر اور اس عورت میں الفت بڑھتی چلی گئی اور فاصلے آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئے۔ اور آخر وہ دن آن ہی پہنچا جب شیر کو اس عورت کی محبت میں کوئی شک و شبہ نا رہا تھا۔ عورت نے گوشت ڈال کر اپنا ہاتھ شیر کے سر پر پھیرا تو شیر نے طمانیت کے ساتھ اپنی آنکھیں موند لیں۔ یہی وہ لمحہ تھا عورت نے آہستگی سے شیر کی گردن سے ایک بال توڑا اور وہاں سے بھاگتے ہوئے سیدھا عالم کے پاس پہنچی۔ بال اس کے ہاتھ پر رکھتے ہی پورے جوش و خروش کے ساتھ بولی، یہ لیجیئے شیر کی گردن کا بال۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے توڑا ہے۔ اب عمل کرنے میں دیر نا لگائیے۔ تاکہ میں اپنے خاوند کا دل ہمیشہ کیلئے جیت کر اس سے ایسی محبت پا سکوں جو دنیا کی کسی عورت کو نه ملی ہو۔
عالم نے عورت سے پوچھا، یہ بال حاصل کرنے کیلئےتم نے کیا کیا؟
عورت نے جوش و خروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی، اس نے جان لیا تھا کہ بال حاصل کرنے کیلئے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور یہ رضا حاصل کرنے کیلئے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جب کہ شیر کے دل کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ پس شیر کا دل جیتنے کیلئے اس نے شیر کے معدے کو باقاعدگی سے بھرنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تھی اور آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تھی اور اپنا مقصد پانا اس کیلئے بہت آسان ہو چکا تھا۔
عالم نے عورت سے کہا، اے اللہ کی بندی؛ میں نہیں سمجھتا کہ تیرا خاوند اس شیر سے زیادہ وحشی ، اجڈ اور خطرناک ہے۔ تو اپنے خاوند کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہیں کرتی جیسا سلوک تو نے اس شیر کے ساتھ کیا۔ جان لے کہ مرد کے دل کا راستہ بھی اس کے معدے سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔ خاوند کے پیٹ کو بھر کر رکھ، مگر صبر کے ساتھ، ویسا صبر جیسا شیر جیسے جانور کو دوست بننے کے مرحلے تک میں کیا تھا۔
 
کچھ جوان میچ کھیل رہے تھے ۔ ہمارے ایک بزرگ کہنے لگے: بھئی شیطان کے ساتھ میچ کون کھیلے گا؟ جوانوں نے کہا: جی وہ کیاہوتا ہے؟ شیطان سے بھی میچ کھیلتے ہیں…؟؟؟ کہا:ہاں…! شیطان نے آپ کی وکٹیں اڑانی ہیں اور اس کے ہاتھ میں گیند ہے اور وہ بڑی تیزی سے دوڑتا ہوا آرہا ہے اور آپ کے پاس ایک بلّا ہے۔ جوانوں نےپوچھا: وہ بلّا کیا ہوتا ہے…؟؟؟ بزرگ نے کہا وہ بلّا اﷲ کا حکم ہےاور حضور اکرم:pbuh: کی مبارک سنتیں ہیں۔ اس کو سامنے رکھنا ہے کہ اب اس کی گیند کو دیکھیں کہ یہ کہاں آ رہی ہے؟ اب یہاں میرے ﷲ کا کونسا حکم متوجہ ہے میں وہ حکم اختیار کروں اور اس کی گیند کوزور دار شاٹ لگاکر فنا کردوں۔ اس بلّے سے اتنی زور سے گیند مارنی ہے کہ گیند پھر واپس بھی نہ آئے۔جیسے وہ کہتے ہیں جی! گیند ملی ہی نہیں نجانے کہاں گئی؟ اتنا تیز اس نے شاٹ مارا۔
 
اگر ﷲاور اس کے :pbuh: کے ساتھ لگ گئے ان شاء ﷲ پسنے سے بچ جائیں گے۔ اچھا مجھے ایک چیز بتائیں؟ ۔
گندم چھ سو روپے من، آٹھ سو روپے من، ہزار روپے من اگر بکتی ہے
تو کوئی گندم ایسی دیکھی ہے جس میں کنکر نہ ہو؟؟؟ نہیں! گندم میں کنکرہوتا ہے ۔
کیا وہ کنکر گندم کے بھائو نہیں بکتا؟
ہاں وہ بھی ہزار روپے من کے حساب سے تلتا ہے

اگرآپ ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتے ہیں ، فقیروں کے ساتھ رہتے ہیں (وہ فقیر جو ﷲ والے ہیں)
بے شک آپ کا معاملہ ناقص ہو، مکمل اللہ والوں جیسا نہ ہو، بے شک آپ گندم نہ ہو‘ آپ گندم نما کنکر ہوں
… لیکن یاد رکھیے! یہ اٹھنا بیٹھنا نہ چھوڑیئے گا۔

جب بولی لگے ان شاء اﷲ میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں…
آپکا حساب‘ کتاب اور آپکا بھائو اسی گندم کے بھائو لگ جائے گا اور ان شاء اﷲ آپکی حیثیت بھی گندم کی حیثیت کی طرح بن جائے گی
اور آپ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلیں گے اور کندھوں پہ اٹھایے جائیں گے اور
اگر آپ کنکررہے اورگندم سے جدا رہے اور گندم کے ساتھ آپکی نسبت نہ ہوئی۔
تو کندھوں پہ، سر پہ نہیں اٹھایا جائے گا بلکہ پائوں تلے روندا جائے گا۔
 
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب واقعہ
ایک روزامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ظہر کی نماز کے بعد گھر تشریف لے گئے۔ بالا خانے پر آپ کا گھر تھا‘ جاکر آرام کرنے کیلئے بستر پر لیٹ گئے۔ اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی۔ آپ اندازہ کیجئے جو شخص ساری رات کا جاگا ہوا ہو اور سارا دن مصروف رہا ہو‘ اس وقت اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ ایسے وقت کوئی آجائے تو انسان کو کتنا ناگوار ہوتا ہے کہ یہ شخص بے وقت آگیا۔۔۔۔ لیکن امام صاحب اٹھے‘ زینے سے نیچے اترے‘ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک صاحب کھڑے ہیں‘ امام صاحب نے اس سے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے۔ دیکھئے اول تو امام صاحب جب مسائل بتانے کیلئے بیٹھے تھے وہاں آکر تو مسئلہ پوچھا نہیں‘ اب بے وقت پریشان کرنے یہاں آگئے۔ لیکن امام صاحب نے اس کو کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا کہ اچھا بھائی‘ کیا مسئلہ معلوم کرنا ہے؟ اس نے کہا کہ میں کیا بتاؤں؟ جب میں آرہا تھا تو اس وقت مجھے یاد تھا کہ کیا مسئلہ معلوم کرنا ہے لیکن اب میں بھول گیا‘ یاد نہیں رہا کہ کیا مسئلہ پوچھناتھا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ اچھا جب یاد آئے تو پھر پوچھ لینا۔ آپ نے اس کو برا بھلا نہیں کہا نہ اس کو ڈانٹا ڈپٹا بلکہ خاموشی سے واپس اوپر چلے گئے۔ ابھی جاکر بستر پر لیٹے ہی تھے کہ دوبارہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ حضرت! وہ مسئلہ مجھے یاد آگیا تھا آپ نے فرمایا پوچھ لو۔ اس نے کہا کہ ابھی تک تو یاد تھا مگر جب آپ آدھی سیڑھی تک پہنچے تو میں وہ مسئلہ بھول گیا۔ اگر ایک عام آدمی ہوتا تو اس وقت تک اس کے اشتعال کا کیا عالم ہوتا مگر امام صاحب اپنے نفس کو مٹاچکے تھے۔ امام صاحب نے فرمایا اچھا بھائی جب یاد آجائے توپوچھ لینا یہ کہہ کر آپ واپس چلے گئے اور جا کر بستر پر لیٹ گئے۔ ابھی لیٹے ہی تھے کہ دوبارہ پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ پھر نیچے تشریف لائے۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہی شخص کھڑا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ حضرت! وہ مسئلہ یاد آگیا۔ امام صاحب نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا کہ یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ انسان کی نجاست (پاخانہ) کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے یامیٹھا ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے)
اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا
اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا اور وہ اب تک ضبط بھی کررہا ہو تو اب اس سوال کے بعد تو اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوجاتا لیکن امام صاحب نے بہت اطمینان سے جواب دیا کہ اگر انسان کی نجاست تازہ ہو تو اس میں کچھ مٹھاس ہوتی ہے اور اگر سوکھ جائے تو کڑواہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شخص کہنے لگا کہ کیا آپ نے چکھ کر دیکھا ہے؟ (العیاذ باللہ)حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہر چیز کا علم چکھ کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ بعض چیزوں کا علم عقل سے حاصل کیا جاتاہے اور عقل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تازہ نجاست پر مکھی بیٹھتی ہے خشک پر نہیں بیٹھتی۔ اس سے پتہ چلا کہ دونوں میں فرق ہے ورنہ مکھی دونوں پر بیٹھتی۔
اپنے وقت کا حلیم انسان
جب امام صاحب نے یہ جواب دے دیا تو اس شخص نے کہا۔ امام صاحب! میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ مجھے معاف کیجئے گا میں نے آپ کو بہت ستایا لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا۔
امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے کیسے ہرا دیا؟ اس شخص نے کہا کہ ایک دوست سے میری بحث ہورہی تھی میرا کہنا یہ تھا کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے اندر سب سے زیادہ بردباری ہے اور وہ غصہ نہ کرنے والے بزرگ ہیں اور میرے دوست کا یہ کہنا تھا کہ سب سے زیادہ بردبار اور غصہ نہ کرنے والے بزرگ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ہم دونوں کے درمیان بحث ہوگئی اور اب ہم نے جانچنے کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا کہ میں اس وقت آپ کے گھر پر آؤں جو آپ کے آرام کا وقت ہوتا ہے اور اس طرح دو تین مرتبہ آپ کو اوپر نیچے دوڑاؤں اور پھر آپ سے ایسا بیہودہ سوال کروں اور یہ دیکھوں کہ آپ غصہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا کہ اگر غصہ ہوگئے تو میں جیت جاؤں گا اور اگر غصہ نہ ہوئے تو تم جیت گئے لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا اور واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس روئے زمین پر ایسا حلیم انسان جس کو غصہ چھو کر بھی نہ گزرا ہو آپ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔
اس سے اندازہ لگائیے کہ آپ کا کیا مقام تھا۔ اس پر ملائکہ کو رشک نہ آئے تو کس پر آئے۔ انہوں نے اپنے نفس کو بالکل مٹاہی دیا تھا۔
’’حلم‘‘ زینت بخشتا ہے
چنانچہ حضور اقدس ﷺ نے یہ دعا فرمائی: (اللھم اغنی بالعلم وزینی بالحلم) (کنزل العمال)’’ اے اللہ مجھے علم دے کر غنا عطا فرمائیے اور حلم کی زینت عطا فرمائیے‘‘
یعنی وقار دے کرآراستہ فرمادیجئے۔ آدمی کے پاس علم ہو اور حلم نہ ہو‘ بردباری نہ ہو تو پھر علم کے باوجود آدمی میں آراستگی اور زینت نہیں آسکتی۔
اس طریق پر چلنے کے لیے اور اپنے نفس کو قابو میں کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ غصہ نہ کرو۔ اس لیے فرمایا لاتغضب یہی پہلا سبق اور یہی مختصر نصیحت ہے اور یہی اللہ جل جلالہ کے غضب سے بچنے کا طریقہ بھی ہے۔
غصہ سے بچنے کی تدابیر
صرف یہ نہیں ہے کہ حکم دےدیا کہ غصہ نہ کرو بلکہ غصہ سے بچنے کی تدبیر قرآن کریم نے بھی بتائی اور جناب رسول کریم ﷺ نے بھی بتلائی اس تدبیر کے ذریعہ غصہ کو دبانے کی مشق کی جاتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ غیراختیاری طور پر جو غصہ آجاتا ہے اور طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہوجاتا ہے اس غیراختیاری ہیجان پر اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی مواخذہ نہیں‘ اس لیے کہ وہ انسان کے اختیار سے باہر ہے لیکن طبیعت میں جو ہیجان اور اوٹن پیدا ہوئی تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں لیکن اگر اس غصے کے نتیجے میں کسی کو مار دیا یا کسی کو ڈانٹ دیا یا برا بھلا کہہ دیا تو گویا کہ اس غصے کے تقاضے پر عمل کرلیا‘ اب اس پر پکڑہوجائے گی اور یہ گناہ ہے۔
غصہ کے وقت اعوذ باللہ پڑھ لو
لہٰذا جب کبھی دل میں ہیجان اور اوٹن پیدا ہو تو پہلا کام وہ کرو جس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر تلقین فرمایا۔ چنانچہ فرمایا: یعنی جب تمہیں شیطان کوئی کچوکہ لگائے تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگو اور اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھو۔ اے اللہ! میں شیطان مردود سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس لیے کہ شیطان نے اپنا کچوکہ لگایا لیکن تم نے اللہ سے پناہ مانگ لی تو اب انشاء اللہ اس غصے کے برے نتائج سے اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائیں گے۔ لہٰذا اس بات کی عادت ڈال لو کہ جب غصہ آئے تو فوراً اَعُوْذُ بِاللہِ پڑھ لو۔ کوئی مشکل کام نہیں ذرا سے دھیان اور مشق کی ضرورت ہے۔
 
۔ ایک گرو اپنے چیلے کے ساتھ سفر کو نکلے تو ان کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جس کا نام اندھیر نگری تھا اور جہاں کا حاکم چوپٹ راجاؔ کہلاتا تھا۔ اندھیر نگری کے بازاروں میں چھوٹی بڑی ہر چیز بھاجی (ترکاری) سے لے کر کھاجا (اعلیٰ قسم کی ایک مٹھائی) تک ایک ٹکے (نہایت چھوٹا سکّہ) میں ایک سیر (تقریباً آدھا کلو گرام)ملتی تھی۔چیزوں کی ایسی ارزانی دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا اور اس نے گروجی کے سمجھانے کے باوجود وہیں ٹھہر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جلد ہی وہ کھا پی کر موٹا تازہ ہو گیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک دوکان کی دیوار اچانک کسی طرح گر گئی اور ایک راہ گیر دب کر مر گیا۔چوپٹؔ راجا کو خبر ہوئی تو اس نے اُس راج کی پھانسی کا حکم دے دیا جس نے دیوار بنائی تھی۔ راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’مہاراج، قصور میرا نہیں اِس بھشتی کا ہے جس نے گارے میں پانی زیادہ ڈال کر اس کو کمزور کر دیا تھا۔ ‘‘ راجا کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور اس نے راج کے بجائے بھشتی کی پھانسی کا حکم صادر کر دیا۔ اتفاق سے بھشتی بہت دُبلا پتلا تھا۔ اس نے عرض کی کہ ’’حضور میری گردن اتنی پتلی ہے کہ پھندا اُس کے لئے بہت بڑا ہو گا۔بھلا مجھ کو پھانسی دینے سے کیا ملے گا۔ پھانسی تو کسی موٹے آدمی کو ملنی چاہئے۔ ‘‘ راجا چوپٹؔ نے فوراً کسی موٹے آدمی کی تلاش کا حکم دے دیا۔اتفاق سے شہر میں وہی چیلہ سب سے زیادہ موٹا تھا چنانچہ اسے پکڑ کر پھانسی کے تختے کی طرف لایا گیا۔ یہ دیکھ کر گروجی نے کوتوال سے کہا کہ ’’میرے چیلے کے بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ میری گردن بھی موٹی ہے۔‘‘ کوتوال نے حیرت سے پوچھا ’’گروجی! بھلا آپ کیوں پھانسی چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ گروجی نے کہا ’’بیٹا! آج کا دن اتنا مبارک ہے کہ جو پھانسی چڑھے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ‘‘ یہ سن کر کوتوال کہنے لگا کہ ’’یہ بات ہے تو پھر میں ہی کیوں نہ جنت میں جاؤں۔ پھانسی مجھ کو دی جائے گی۔ ‘‘ راجا کا وزیر وہیں کھڑا تھا۔اُس نے یہ سُن کر کہا کہ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھانسی میں چڑھوں گا۔ ‘‘ چوپٹؔ راجا صاحب نے یہ سب دیکھا تو غصہ میں آ گئے اور فرمایا کہ ’’میرے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ جنت میں پہلے داخل ہو جائے۔ پھانسی پر میں خود چڑھوں گا۔‘‘ چنانچہ چوپٹؔ راجہ کو پھانسی دے دی گئی۔ گرو جی نے اس چال سے اپنے چیلے کی جان بچا لی اور اس کو سمجھایا کہ ’’بیٹا اندھیر نگری رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ا س کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘ چنانچہ دونوں وہاں سے کہیں اور چلے گئے۔
 
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!
سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟
یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔
کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔
کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
یا عمرؓ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔
پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کسقدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں: کون تیری ضمانتدے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمےیا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟
ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ: جانتے ہو اسے؟
ابوذرؓ: نہیں جانتا اسے۔
عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذرؓ: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔
عمرؓ: ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔
امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
ابو ذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذرؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!
امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ابلوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔

سیدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔
اے ابو ذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔
 
کند ہم جنس باہم جنس پرواز ایک دن حکیم جالینوس گھبرایا ہوا اپنے شاگردوں کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’فوراً میرے لیے فلاں دوا ڈھونڈ کر لائو۔ شدیدضرورت ہے۔‘‘ شاگرد وںنے حیرت سے اُستاد کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ’’آخر آپ کو اس دوا کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ وہ تو سنتے ہیں پاگلوں اور فاترُالعقل لوگوں کو دی جاتی ہے۔‘‘ حکیم جالینوس نے جواب دیا ’’بحث مباحثے میں وقت ضائع نہ کرو۔ جلد وہ دوا لائو۔ بات یہ ہے کہ ابھی ابھی ایک پاگل میری طرف متوجہ ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورتا رہا۔ پھر بدمعاشوں کی طرح آنکھ ماری۔ اس کے بعد بڑھ کر میرے کُرتے کی آستین تار تار کر دی۔ میں نے اس معاملے پر غور کیا تو معلوم ہو اکہ شاید وہ مجھے اپنا ہم جنس جان کر ہی ملتفت ہوا تھا، ورنہ میری طرف کیوں متوجہ ہوتا۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب دو آدمی آپس میں ملیں تو ان دونوں میں کوئی نہ کوئی صفت ضرور مشترک ہو گی۔کُند ہم جنس باہم جنس پرواز کا قول درست ہے۔ کوئی پرندہ دوسرے غیر پرندوں کے غول کے ساتھ کبھی اُڑتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک صحرا میں کوّے اور کُلنگ کو بڑی محبت اور شوق سے پاس پاس یوں بیٹھے دیکھا جیسے وہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں۔ لیکن ان میں اس اعتبار سے بعد المشرقین تھا۔ بہت دماغ لڑایا، مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ ان میں وجہ اشتراک کیا ہے۔ اسی عالم حیرت میں آہستہ آہستہ جب ان کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں لنگڑے ہیں۔‘‘
 
موسیقی اور گانے اسلام میں حرام ہیں اور ممنوع ہیں اور اس پر مزید خرابی یہ کہ بعض گانوں میں تو شرکیہ کلمات موجود ہیں

موسیقی کے ساتھ گانا سننا
1-موسیقی کے ساتھملی نغمہ، ترانے جیسا گانا یا لعو لعب پر ابھارنے والا گانا سننے پر اسلام کے احکام کیا ہیں، یہ کس درجے کا گناہ ہے اور اس پر کیا وعید ہے یہ تو کوئی اسلامی عالم ہی بتا سکتا ہے ،ایک عامی مسلم کو یہ معلوم ہے کہ یہ موسیقی ناجائز اور ممنوع ہے اور شرک بہر حال نہیں ہے

ایک بندہ اسلامی حکم معلوم ہونے کے باوجود گانا سن رہا ہے یا کوئی اور گناہ کر رہا ہے
تو دو طرح کے معاملات ہیں
1- اگر اس کی نیت یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے اور میں گناہ گار ہوں گا تو پھر معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے گناہ کی مقرر کردہ سزا پائے گا یا اگر سچے دل سے توبہ کر لے اور( بعض دیگر شرائظ کے تحت ، مثلا گناہ کی تلافی وغیرہ) ہو سکتا ہے کہ وہ معافی حاصل کرلے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے
2- اگر وہ اس فعل یا گناہ کو حلال اور جائز قرار دیتا ہے تو پھر اسلام کے جائز کردہ حکم سے بغاوت کر رہاہے اور حرام کو حلال قرار دے رہا ہے تو اس کامعاملہ انتہا کا اور تباہی والا ہے کہ نہ تو اس کو احساس ہوگا کہ وہ گناہ گار ہے اور نہ ہی وہ توبہ کی طرف جائے گا
مبینہ شرکیہ کلمات

2- اس سے بھی بڑھ کر بعض گانوں میں موجود مبینہ شرکیہ کلمات ہیں جو ایک مسلم کو غیر مسلم بنا سکتے ہیں اور یہ سب سے بڑا نقصان اور (شرک) سب سے بڑا ناقابل معافی گنا ہہے
اب کونسے کلمات ایسے ہیں جو شرکیہ ہے،( جن میں مبینہ طور پر اللہ بزرگ و برتر کی قدرت کا انکار ہے یا کسی اور قسم کا کفریہ جملہ ہے)۔ تو اس بارے میں حتمی رائے علماء سے لی جانی چاہیے
جب یہ بات حتمی ہو جائے کہ جملہ الف کفریہ اور شرکیہ ہے تو مزید یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ گانے کے بول کہنے والا اور سننے والا ، دونوں کی کیا کیفیت ہے کس کے بارے میں کہے جا رہے ہیں کہ اللہ تعالی مراد ہے
ایک بات تو یہ ہے جہان شک ہو اس سے کنارہ کرنا ہی بہتر ہے
آخری بات ایسے کلمات خواہ گانے میں ہوں یا عام گفتگو اور تحریر میں ایک مسلم کو ان سے بچنا ہی بہتر ہے
 

جاسمن

لائبریرین
جاسمن ، محترم بہن، اس بارے میں آپ کا مشاہدہ کیا ہے؟
متفق ہوں اِس تحقیق کے نتیجے سے۔
میرے بچے بھی بے حد منہمک ہوتے ہیں۔کسی کھیل میں۔کتاب میں۔سوچ میں۔بار بار مخاطب کرو تو بھی نہیں سنتے۔ اگر سنتے ہیں تو توجہ نہیں دیتے۔ایک بات اتنی بار کہنی پڑتی ہے کہ میرے میاں دق پڑ جاتے ہیں۔
داؤد اُٹھ جاؤ۔۔۔داؤد۔۔گلِ داؤدی۔۔۔۔ایمن۔۔ایمن اُٹھ جاؤ۔۔بچو سو جاؤ۔۔کبھی کبھی بہت ہنسی آتی ہے۔۔اُٹھ جاؤ۔سو جاؤ۔اِن دونوں کاموں میں مجھے بڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا
شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا - اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا
-"اس لڑکے نے کہا کہ " بابا کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے
(اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی )
اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار ، تی...را باپ تیرے نیچے ہے ، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں ناں
-"اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے - میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں نا
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے ۔آمین
اشفاق احمد زاویہ 3 شہ رگ کا ڈرائنگ روم
 
اپنے آپ کو کبھی دھوکا نہ دیجئے۔ نہ اپنے آپ سے کبھی جھوٹ بولئے۔
محترم آسی صاحب، آپ برا نہ منائیے گا،آپ اپنی بات کی تھوڑی وضاحت کر دیں تو مجھے سمجھنے میں آسانی رہے گی،آپ نے بہت ہی گہری بات کی ہے مجھے لگتا ہے کہ بات مجھے بہت فائدہ دے گی کہ اپنا معاملہ نہایت اصلاح طلب ہے
 
محترم آسی صاحب، آپ برا نہ منائیے گا،آپ اپنی بات کی تھوڑی وضاحت کر دیں تو مجھے سمجھنے میں آسانی رہے گی،آپ نے بہت ہی گہری بات کی ہے مجھے لگتا ہے کہ بات مجھے بہت فائدہ دے گی کہ اپنا معاملہ نہایت اصلاح طلب ہے
اتنی سادہ سی تو بات ہے جناب!
پتہ ہے ہوتا کیا ہے؟ ہمیشہ نہیں، کہیں تو کبھی کبھار اور کہیں اکثر بھی ہو سکتا ہے۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم جو فلاں کام کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ اصلاََ ٹھیک نہیں ہے، پر ہم وہ کر جاتے ہیں؛ شاید پیسے کے لئے؟ شاید کسی کے ڈر سے؟ شاید کسی مفاد کے لئے؟ شاید شہرت کے لئے؟ وہ پیسہ وہ تحفظ وہ مفاد، وہ شہرت مل بھی جائے تو بندہ اندر سے مطمئن نہیں ہوتا۔ جو ہم نے کیا وہ بے کار تو گیا، ایک خلش سی چھوڑ گیا۔ اپنے آپ کو دھوکا دیا نا! کیا ملا؟ بے چینی!!
ایک بات ہے، ایک خیال ہے، ایک نظریہ ہے، یا کچھ بھی ہے۔ مجھے پتہ ہے یا میرے یقین کی حد تک وہ بات خیال نظریہ ٹھیک نہیں، پر میں اس کے حق میں بولتا ہوں۔ ظاہر ہے میں وہ بات کر رہا ہوں جسے میں خود سمجھ رہا ہوں کہ غلط ہے۔ یہی تو جھوٹ بولنا ہے!
۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 
ایک مختصر سا واقعہ سنتے جائیے۔ اپنے پاس یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، کوئی دقیق و عمیق فلسفیانہ مباحث نہیں ہیں۔

ایک دوست میرے پاس آئے: ’’بیٹی کے سکول میں تقریری مقابلہ ہے، تیاری کروا دیجئے۔‘‘ بچی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ہے جسے ڈیبیٹ کہتے ہیں۔ فوری طور پر اردو کا لفظ نہیں سوجھ رہا (شاید مباحثہ)۔ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اور مجھے اس کے خلاف بولنا ہے۔ میں نے کہا : بیٹا، مگر یہ بات تو سچی ہے کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی! میں اس کو کیسے جھٹلا دوں؟ دوست بولے: ’’بچی کو تقریر سے غرض ہے، آپ کے نظریات سے نہیں‘‘! عرض کیا: ’’حضرت، بچی کے سکول جائیے، ان سے کہئے کہ بچی کا نام حزبِ موافق میں ڈال دیں، مخالف کی بجائے! پھر دیکھئے تقریر کیا ایک پورا تھیسس تیار کرا دوں گا، ان شاء اللہ!‘‘ ۔۔۔ وہ صاحب ناراض ہو گئے، بعد میں من بھی گئے، وہ الگ بات۔ میں جس بات کو درست مانتا ہوں اس کی نفی کرتا ہوں تو بھی خود سے جھوٹ بولتا ہوں نا! اور پھر میں دلائل کیا لاؤں گا اور کہاں سے لاؤں گا؛ اس جھوٹ کے لئے!!

یہی کچھ ہے جناب ناصر علی مرزا صاحب۔ دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں، ہمیشہ۔
 
آخری تدوین:
اتنی سادہ سی تو بات ہے جناب!
پتہ ہے ہوتا کیا ہے؟ ہمیشہ نہیں، کہیں تو کبھی کبھار اور کہیں اکثر بھی ہو سکتا ہے۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم جو فلاں کام کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ اصلاََ ٹھیک نہیں ہے، پر ہم وہ کر جاتے ہیں؛ شاید پیسے کے لئے؟ شاید کسی کے ڈر سے؟ شاید کسی مفاد کے لئے؟ شاید شہرت کے لئے؟ وہ پیسہ وہ تحفظ وہ مفاد، وہ شہرت مل بھی جائے تو بندہ اندر سے مطمئن نہیں ہوتا۔ جو ہم نے کیا وہ بے کار تو گیا، ایک خلش سی چھوڑ گیا۔ اپنے آپ کو دھوکا دیا نا! کیا ملا؟ بے چینی!!
ایک بات ہے، ایک خیال ہے، ایک نظریہ ہے، یا کچھ بھی ہے۔ مجھے پتہ ہے یا میرے یقین کی حد تک وہ بات خیال نظریہ ٹھیک نہیں، پر میں اس کے حق میں بولتا ہوں۔ ظاہر ہے میں وہ بات کر رہا ہوں جسے میں خود سمجھ رہا ہوں کہ غلط ہے۔ یہی تو جھوٹ بولنا ہے!
۔۔۔ ۔۔۔ جاری ہے
ایک بات ہے، ایک خیال ہے، ایک نظریہ ہے، یا کچھ بھی ہے۔ مجھے پتہ ہے یا میرے یقین کی حد تک وہ بات خیال نظریہ ٹھیک نہیں، پر میں اس کے حق میں بولتا ہوں۔ ظاہر ہے میں وہ بات کر رہا ہوں جسے میں خود سمجھ رہا ہوں کہ غلط ہے۔ یہی تو جھوٹ بولنا ہے!
جی میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں بہت بہت شکریہ نوازش
اب تو نہ ضمیر زندہ ہیں اور نہ ہی کوئی خلش ہے، یا تو یہ حال اکثریت کا ہے یا پھر میڈیا نے یہ دکھا دکھا کر ذہن بنا دیے ہیں کہ ہر طرف ایسا ہی ہے
کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ آپ اس دیس میں اجنبی ہیں؟ اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، چڑیاں بہت سے کھیت چگ گئیں ہیں ،جو خوابیدہ ہیں وہ تو کسی شمار میں نہیں لیکن بیدار شعور بھی کسی انجانی راہوں پر نکل چکے ہیں
بہرحال نا امیدی کفر ہے
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
 
ایک بات ہے، ایک خیال ہے، ایک نظریہ ہے، یا کچھ بھی ہے۔ مجھے پتہ ہے یا میرے یقین کی حد تک وہ بات خیال نظریہ ٹھیک نہیں، پر میں اس کے حق میں بولتا ہوں۔ ظاہر ہے میں وہ بات کر رہا ہوں جسے میں خود سمجھ رہا ہوں کہ غلط ہے۔ یہی تو جھوٹ بولنا ہے!
جی میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں بہت بہت شکریہ نوازش
اب تو نہ ضمیر زندہ ہیں اور نہ ہی کوئی خلش ہے، یا تو یہ حال اکثریت کا ہے یا پھر میڈیا نے یہ دکھا دکھا کر ذہن بنا دیے ہیں کہ ہر طرف ایسا ہی ہے
کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ آپ اس دیس میں اجنبی ہیں؟ اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، چڑیاں بہت سے کھیت چگ گئیں ہیں ،جو خوابیدہ ہیں وہ تو کسی شمار میں نہیں لیکن بیدار شعور بھی کسی انجانی راہوں پر نکل چکے ہیں
بہرحال نا امیدی کفر ہے
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
آپ کا سوال اتنا سادہ بھی نہیں۔
تازہ ترین صورت جو بنی ہے میں اس کو بت پرستی کہا کرتا ہوں۔ جتنے بڑے بڑے نام سیاست میں ہیں، سب کسی نہ کسی انداز میں بُت ہیں اور ان کے پجاری ’’سچے‘‘ عابدوں کی طرح سب کچھ بھول بھال کر اپنے اپنے بتوں کی ’’عظمت‘‘ پر مر رہے ہیں۔ ملک تو خیر چھوٹی سی چیز ہو گی، یہاں ملت کی کسی کو پروا نہیں، شعور تک نہیں رہا کہ ہم کون ہیں، ہمارا معاہدہ کس کے ساتھ ہوا ہے اور کیا معاہدہ ہوا ہے۔ اجنبیت کا عالم بھی عجیب ہے، کبھی ہاں، کبھی نہیں!
میڈیا کی بات کرتے ہوئے میں نے کہیں کہا بھی تھا ’”صحافت کی قوسِ قزح‘‘ مگر کوئی میرے نکتے کو شاید پا ہی نہیں سکا۔ حال آنکہ میں نے اشارے بھی دیے تھے: سیاہ صحافت، نیلی پیلی ہری صحافت، سرخ صحافت۔ جب اخبار ’’مساوات‘‘ جاری ہوا، اس کے کچھ عرصے بعد میں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔
 
Top