نیلم
محفلین
مقرر نے سو ڈالر کا نیا کڑکڑاتا نوٹ جیب سے نکال کر حاضرین کےسامنے لہراتے ہوئے پوچھا، کون ہے جو یہ سو ڈالر کا نوٹ لینا چاہے گا؟
حاضرین میں سے لگ بھگ سب ہی لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے نوٹ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
مقرر نے کہا ٹھیک ہےنوٹ تو ایک ہی ہے اور میں صرف ایک ہی شخص کو دونگا مگر اپنی اس حرکت کے بعد۔ اور ساتھ ہی اس نے نوٹ کو مسل کر چر مر کیا، ہتھیلی پر رگڑ کر گولا بنایا اور پھر پوچھا، کون ہے جو نوٹ کو اس حال میں بھی لینا پسند کرے گا؟ لوگوں کی طلب میں کوئی بھی کمی نہیں آئی تھی، سب نے یہی کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا وہ نوٹ اس حال میں بھی لینا چاہیں گے۔
اس بار مقرر نے نوٹ کو زمین پر پھینک کر اپنے جوتوں سے مسل دیا۔ مٹی سے لتھڑے بے حال نوٹ کو واپس اٹھا کر حاضرین سے پوچھا کیا وہ نوٹ کو اس حال میں بھی لینا چاہیں گے؟ اور اس بار بھی نوٹ لینے والوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور لوگوں کے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے۔
مقرر نے نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تو میں تم لوگوں کو نہیں دیتا مگر ایک سبق ضرور دینا چاہتا ہوں جو ابھی ابھی ہم نے اخذ کیا ہے اور وہ سبق یہ ہے کہ پیسوں کےساتھ چاہے جو بھی سلوک کر لو اُن کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اُن پیسوں کے طلبگار اور لینے والے ویسے ہی رہتے ہیں۔ میرا نوٹ نیا نکور اور کڑکڑاتا ہوا سو ڈالر کا تھا تو رگڑا ، جوتوں کے تلوے سے مسلا اور مٹی میں لتھڑا ہوا بھی سو ڈالر کا ہی ہے۔ اس کی قیمت میں کہیں سے کوئی کمی نہیں آئی۔
ہم انسان بھی تو اسی طرح کئی بار حالات کے منجھدار میں پھنس کر اپنا توازن کھوتے اور گر پڑ جاتے ہیں، کئی بار پریشانیوں کے کیچڑ اور غموں کے تعفن میں لتھڑ جاتے ہیں۔ کئی بار اپنے غلط فیصلوں کے ہاتھوں ناکام ہو کر زمین پر جا گرتے ہیں اور اسباب کی کمی کی بنا پر چر مر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی قدر نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی قیمت ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے، یاد رکھئیے کہ حالات جیسے بھی ہو جائیں آپ کی قدر و قیمت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ اپنے آپ میں یکتا اور انوکھے ہیں۔ مت سوار ہونے دیجیئے اپنی لغزشوں کو اپنے حواس پر، مت دھندلانے دیجیئے اپنے خوابوں کو اپنی ناکامیوں کی پرچھائیوں کے نیچے دب کر، بھول جائیے اپنی نا مرادیوں کو۔ آپ کی اصل قیمت وہی ہے جو آپ نے خود مقرر کرنی ہے اور یاد رکھیئے اپنی قدر کو کبھی کم مت کیجیئے اور نا ہی اپنی قیمت کبھی کم لگائیے۔
حاضرین میں سے لگ بھگ سب ہی لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے نوٹ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
مقرر نے کہا ٹھیک ہےنوٹ تو ایک ہی ہے اور میں صرف ایک ہی شخص کو دونگا مگر اپنی اس حرکت کے بعد۔ اور ساتھ ہی اس نے نوٹ کو مسل کر چر مر کیا، ہتھیلی پر رگڑ کر گولا بنایا اور پھر پوچھا، کون ہے جو نوٹ کو اس حال میں بھی لینا پسند کرے گا؟ لوگوں کی طلب میں کوئی بھی کمی نہیں آئی تھی، سب نے یہی کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا وہ نوٹ اس حال میں بھی لینا چاہیں گے۔
اس بار مقرر نے نوٹ کو زمین پر پھینک کر اپنے جوتوں سے مسل دیا۔ مٹی سے لتھڑے بے حال نوٹ کو واپس اٹھا کر حاضرین سے پوچھا کیا وہ نوٹ کو اس حال میں بھی لینا چاہیں گے؟ اور اس بار بھی نوٹ لینے والوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور لوگوں کے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے۔
مقرر نے نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تو میں تم لوگوں کو نہیں دیتا مگر ایک سبق ضرور دینا چاہتا ہوں جو ابھی ابھی ہم نے اخذ کیا ہے اور وہ سبق یہ ہے کہ پیسوں کےساتھ چاہے جو بھی سلوک کر لو اُن کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اُن پیسوں کے طلبگار اور لینے والے ویسے ہی رہتے ہیں۔ میرا نوٹ نیا نکور اور کڑکڑاتا ہوا سو ڈالر کا تھا تو رگڑا ، جوتوں کے تلوے سے مسلا اور مٹی میں لتھڑا ہوا بھی سو ڈالر کا ہی ہے۔ اس کی قیمت میں کہیں سے کوئی کمی نہیں آئی۔
ہم انسان بھی تو اسی طرح کئی بار حالات کے منجھدار میں پھنس کر اپنا توازن کھوتے اور گر پڑ جاتے ہیں، کئی بار پریشانیوں کے کیچڑ اور غموں کے تعفن میں لتھڑ جاتے ہیں۔ کئی بار اپنے غلط فیصلوں کے ہاتھوں ناکام ہو کر زمین پر جا گرتے ہیں اور اسباب کی کمی کی بنا پر چر مر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی قدر نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی قیمت ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے، یاد رکھئیے کہ حالات جیسے بھی ہو جائیں آپ کی قدر و قیمت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ اپنے آپ میں یکتا اور انوکھے ہیں۔ مت سوار ہونے دیجیئے اپنی لغزشوں کو اپنے حواس پر، مت دھندلانے دیجیئے اپنے خوابوں کو اپنی ناکامیوں کی پرچھائیوں کے نیچے دب کر، بھول جائیے اپنی نا مرادیوں کو۔ آپ کی اصل قیمت وہی ہے جو آپ نے خود مقرر کرنی ہے اور یاد رکھیئے اپنی قدر کو کبھی کم مت کیجیئے اور نا ہی اپنی قیمت کبھی کم لگائیے۔