یوسف-2
محفلین
ساؤتھ ایشین فری میڈیاایسوسی ایشن (سافما)کے زیراہتمام عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے موضوع پر ایک ورکشاپ کا اہتما م تھا اور آرڈر یہ تھا کہ صبح نو بجے حاضر ہونا ہے۔صبح نو بجے پہنچنے کا مطلب تھا کہ میں سات بجے بیڈ چھوڑ دوں‘ آٹھ بجے تک تیاری پکڑوں اور لگ بھگ ساڑھے آٹھ بجے گھر سے نکل پڑوں۔میرے لیے 12 بجے سے پہلے اٹھنا دنیا کا آخری دشوار کام ہے‘ لیکن میں نے اپنی مضبوط قوت ارادی کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا اور طے کرلیا کہ کل ہر حال میں سات بجے نہ صرف بیدار ہونا ہے بلکہ اٹھتے ہی سر پر ایک گلاس ٹھنڈے پانی کا ڈال لینا ہے تاکہ نیند دوبارہ قریب بھی نہ پھٹک سکے۔ احتیاطاً میں نے موبائل پر صبح سات بجے کا الارم بھی لگا دیا۔رات ہر ممکن کوشش کے باوجود سکرپٹ مکمل کرتے کرتے 2 بج گئے‘ میں نے جلدی سے لیپ ٹاپ بند کیا اور کمبل میں گھس کر زبردستی آنکھیں بند کرلیں اور تھوڑی ہی دیر میں گہری نیند میں چلا گیا۔ صبح ٹھیک سات بجے موبائل کا الارم بول پڑا‘ میں نے نیم غنودگی کے عالم میں ٹائم دیکھا اور سوچا کہ دس منٹ مزید آرام کرنے میں کیا مضائقہ ہے لہذا موبائل پر snooze کا بٹن دبا دیا۔ دس منٹ بعد پھر الارم بج اٹھا‘میں نے پھر پہلے والا سلوک کیا۔میری اور موبائل کی یہ جنگ لگ بھگ آدھے گھنٹے تک چلتی رہی‘ بالآخر موبائل جیت گیا۔ جب میں سافما کے آفس پہنچا تو دس بج چکے تھے۔شرکاء کم تھے تاہم گفتگو بہت دلچسپ تھی اور ڈسکس ہورہا تھا کہ مرد لوگ عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں‘ عورت کو ہراساں کرتے ہیں اور اپنی برابری کے قابل نہیں سمجھتے۔اس گفتگو میں صرف میں بیچارا مرد تھا‘ باقی ساری خواتین بیٹھی ہوئی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ امتیازی سلوک تو میرے ساتھ ہورہا ہے۔
عورت اور مرد کی برابری کی بحث بہت پرانی ہے‘ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے‘ دونوں جسمانی طور پر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذہنی طور پر بھی‘ سارے مرد ذہین نہیں ہوتے اور ساری عورتیں بیوقوف نہیں ہوتیں ‘ اس کے باوجود کچھ کام ایسے ہیں جو عورت ہی بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہے اور کچھ ایسے ہیں جو مرد کو ہی سوٹ کرتے ہیں ‘ اس کے باوجود ہمارے ہاں اکثر عورتیں مردوں کی طرح مشقت کرتی نظر آتی ہیں اور مرد تنور میں روٹیاں لگاتے ‘ کھانا پکاتے نظر آتے ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ اگر عورت کو سوفی صد مردوں کی برابری پر آمادہ کرلیا جائے ‘ تب بھی وہ راضی نہیں ہوتی‘ وہ چاہتی ہے کہ اُسے عورتوں والے حقوق بھی حاصل ہوں اور مردوں والے بھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مردوں کے ساتھ زیادہ ناانصافی ہورہی ہے‘ مرد اگر قتل کرے تو اُسے پھانسی کی سزا ہوجاتی ہے تاہم آپ نے پاکستان میں کبھی کسی عورت کو سزائے موت ہوتی نہیں دیکھی ہوگی۔ اسی طرح ہمارے ہاں اگرآفس میں کام کرنے والی عورت کسی مرد پر الزام لگا دے کہ اِس نے مجھے چھیڑا ہے تومرد کی کمبختی آجاتی ہے اور کئی دفعہ تو نوکری سے بھی نکال دیا جاتا ہے‘تاہم مرد اگر یہی الزام کسی عورت پر لگا دے تو حرام ہے کوئی کاروائی ہو۔ہمارے معاشرے میں ایک عام سوچ یہ ہے کہ مرد عورت کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے‘ کافی حد تک یہ بات درست بھی ہے‘ لیکن کیا یہاں ایسی خواتین موجود نہیں جو مردوں کو ہراساں کرتی ہیں؟؟؟آپ نے مختلف اداروں میں جگہ جگہ لکھا دیکھا ہوگا کہ عورت کو ہراساں کرنے والے کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا‘ کہیں یہ نہیں لکھا دیکھا ہوگا کہ اگر کسی عورت نے مرد کو ہراساں کیا تو اُس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔ہمارے ہاں بس یا ٹرین میں مرد خود کھڑا رہ کر عورت کو سیٹ پیش کر دیتاہے‘بینکوں کے باہر لگی قطاروں میں سب سے اہمیت عورتوں کو دی جاتی ہے‘کیا یکساں حقوق کے تقاضے کے بعد یہ تفریق ختم ہوجائے گی؟؟؟آج بھی باپ سے زیادہ ماں کی عزت ہے‘ اولادگھر سے نکلتے وقت باپ کی نہیں ماں کی دعائیں لے کر نکلتی ہے‘ بیٹی کے جہیز کے لیے ایک باپ ہی ساری زندگی قرض کے بوجھ تلے دبا رہتاہے۔
اس محفل میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ شوہر‘ بیوی کو اپنی ملکیت کیوں سمجھتاہے؟ میں ملکیت کے ظالمانہ تصور کے خلاف ہوں تاہم ملکیت کا ایک بڑا خوبصورت پہلو بھی ہے‘ جس چیز کے بارے میں ہمیں پتا ہو کہ یہ ہماری ملکیت ہے‘ اُس کا حد درجہ خیال رکھا جاتاہے‘ ہم اپنے گھر کے برتنوں تک کا بہت خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتے ہیں‘ ہم اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کوپارک کرتے وقت پوری تسلی کرتے ہیں کہ اِنہیں لاک کرلیا جائے کیونکہ یہ ہماری ملکیت ہیں‘ ہم اپنی چیزوں کو صاف رکھتے ہیں‘ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتی ہیں‘ اس کے برعکس جو چیز ہماری ملکیت نہیں ہوتی اُس کی ہم کوئی پرواہ نہیں کرتے‘ مثلاً ہم کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے وقت بے دریغ ٹشو پیپرز کا استعمال کرتے ہیں‘ گھر کے اندر ایک کاغذ تک برداشت نہیں کرتے اور سڑک پر بکھرے کاغذوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے‘ ہم اپنے موبائل کو حفاظت سے رکھتے ہیں‘ کسی دوسرے کے موبائل کو نہیں۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنی چیز اپنی ہوتی ہے۔شوہر اگر بیوی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو کیا بیوی شوہر پر حق ملکیت نہیں جتاتی؟؟؟ مرد اگر غیر عورتوں سے تعلقات رکھتاہے تو یقین کیجئے معاشرہ ایسی عورتوں سے بھی بھرا پڑاہے جواس معاملے میں مردو ں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
کچھ چیزیں کبھی برابر نہیں ہوسکتیں‘ اِن کا حسن اِن کے برابر نہ ہونے میں ہی ہے‘ عورت کائنات کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ پتا نہیں یہ ‘ صنفِ نازک ’’صنفِ کرخت ‘‘کے مقابل کیوں آنا چاہتی ہے؟؟ ہمارے معاشرے میں حقوق سے محروم عورت ہی نہیں مرد بھی ہے۔ مجھے وہ واقعہ یاد ہے جب عورتوں کے حقوق کے لیے کمر بستہ ایک این جی او کی خاتون نے شیخوپورہ کے ایک گاؤں کی عورت کو لگاتار چھ ماہ تک سمجھایا کہ وہ کسی صورت اپنے شوہر سے کم نہیں لہذا اُسے اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جانا چاہیے۔ اُس بیچاری پر ایسا اثر ہوا کہ رات تک اُس نے طلاق سمیت اپنے تمام حقوق حاصل کرلیے‘ آج کل اُس نے باقی سُکھی عورتوں سے بدلہ لینے کے لیے خود بھی وہ این جی او جوائن کر لی ہے اور دھڑا دھڑ طلاقیں کروا رہی ہے۔
غیر متوازن صورتحال اُس وقت پیش آتی ہے جب فرائض کو چھوڑ کر حقوق کی جنگ چھیڑ دی جائے‘ عورتوں کے حقوق کی بجائے اگر مردوں کے فرائض پر توجہ دی جائے تو شائد معاملہ درست سمت چل پڑے‘ کان کو دوسری طرف سے پکڑنا ہوگا ورنہ یہی ہوگا کہ کم تعلیم یافتہ عورتیں محض اپنے حقوق کی کشش سے متاثر ہوکر اپنا ہنستا بستا گھر اجاڑ بیٹھیں گی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ عورت اگر مردکی برابری پر آگئی تو پتا نہیں کیسا کیسا سین دیکھنے کو ملے گا‘ عین ممکن ہے آپ بس میں کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوں اورکسی سٹاپ پر ایک دوشیزہ بس میں سوار ہو اور آپ کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہے’’اوئے۔۔۔کھڑکی بند کر ‘ ہوا آرہی ہے‘‘۔ (گل نوخیز اختر کا کالم۔ نئی دنیا 18 دسمبر 2012 ء)
عورت اور مرد کی برابری کی بحث بہت پرانی ہے‘ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے‘ دونوں جسمانی طور پر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذہنی طور پر بھی‘ سارے مرد ذہین نہیں ہوتے اور ساری عورتیں بیوقوف نہیں ہوتیں ‘ اس کے باوجود کچھ کام ایسے ہیں جو عورت ہی بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہے اور کچھ ایسے ہیں جو مرد کو ہی سوٹ کرتے ہیں ‘ اس کے باوجود ہمارے ہاں اکثر عورتیں مردوں کی طرح مشقت کرتی نظر آتی ہیں اور مرد تنور میں روٹیاں لگاتے ‘ کھانا پکاتے نظر آتے ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ اگر عورت کو سوفی صد مردوں کی برابری پر آمادہ کرلیا جائے ‘ تب بھی وہ راضی نہیں ہوتی‘ وہ چاہتی ہے کہ اُسے عورتوں والے حقوق بھی حاصل ہوں اور مردوں والے بھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مردوں کے ساتھ زیادہ ناانصافی ہورہی ہے‘ مرد اگر قتل کرے تو اُسے پھانسی کی سزا ہوجاتی ہے تاہم آپ نے پاکستان میں کبھی کسی عورت کو سزائے موت ہوتی نہیں دیکھی ہوگی۔ اسی طرح ہمارے ہاں اگرآفس میں کام کرنے والی عورت کسی مرد پر الزام لگا دے کہ اِس نے مجھے چھیڑا ہے تومرد کی کمبختی آجاتی ہے اور کئی دفعہ تو نوکری سے بھی نکال دیا جاتا ہے‘تاہم مرد اگر یہی الزام کسی عورت پر لگا دے تو حرام ہے کوئی کاروائی ہو۔ہمارے معاشرے میں ایک عام سوچ یہ ہے کہ مرد عورت کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے‘ کافی حد تک یہ بات درست بھی ہے‘ لیکن کیا یہاں ایسی خواتین موجود نہیں جو مردوں کو ہراساں کرتی ہیں؟؟؟آپ نے مختلف اداروں میں جگہ جگہ لکھا دیکھا ہوگا کہ عورت کو ہراساں کرنے والے کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا‘ کہیں یہ نہیں لکھا دیکھا ہوگا کہ اگر کسی عورت نے مرد کو ہراساں کیا تو اُس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔ہمارے ہاں بس یا ٹرین میں مرد خود کھڑا رہ کر عورت کو سیٹ پیش کر دیتاہے‘بینکوں کے باہر لگی قطاروں میں سب سے اہمیت عورتوں کو دی جاتی ہے‘کیا یکساں حقوق کے تقاضے کے بعد یہ تفریق ختم ہوجائے گی؟؟؟آج بھی باپ سے زیادہ ماں کی عزت ہے‘ اولادگھر سے نکلتے وقت باپ کی نہیں ماں کی دعائیں لے کر نکلتی ہے‘ بیٹی کے جہیز کے لیے ایک باپ ہی ساری زندگی قرض کے بوجھ تلے دبا رہتاہے۔
اس محفل میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ شوہر‘ بیوی کو اپنی ملکیت کیوں سمجھتاہے؟ میں ملکیت کے ظالمانہ تصور کے خلاف ہوں تاہم ملکیت کا ایک بڑا خوبصورت پہلو بھی ہے‘ جس چیز کے بارے میں ہمیں پتا ہو کہ یہ ہماری ملکیت ہے‘ اُس کا حد درجہ خیال رکھا جاتاہے‘ ہم اپنے گھر کے برتنوں تک کا بہت خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتے ہیں‘ ہم اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کوپارک کرتے وقت پوری تسلی کرتے ہیں کہ اِنہیں لاک کرلیا جائے کیونکہ یہ ہماری ملکیت ہیں‘ ہم اپنی چیزوں کو صاف رکھتے ہیں‘ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری ملکیت ہوتی ہیں‘ اس کے برعکس جو چیز ہماری ملکیت نہیں ہوتی اُس کی ہم کوئی پرواہ نہیں کرتے‘ مثلاً ہم کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے وقت بے دریغ ٹشو پیپرز کا استعمال کرتے ہیں‘ گھر کے اندر ایک کاغذ تک برداشت نہیں کرتے اور سڑک پر بکھرے کاغذوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے‘ ہم اپنے موبائل کو حفاظت سے رکھتے ہیں‘ کسی دوسرے کے موبائل کو نہیں۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنی چیز اپنی ہوتی ہے۔شوہر اگر بیوی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو کیا بیوی شوہر پر حق ملکیت نہیں جتاتی؟؟؟ مرد اگر غیر عورتوں سے تعلقات رکھتاہے تو یقین کیجئے معاشرہ ایسی عورتوں سے بھی بھرا پڑاہے جواس معاملے میں مردو ں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
کچھ چیزیں کبھی برابر نہیں ہوسکتیں‘ اِن کا حسن اِن کے برابر نہ ہونے میں ہی ہے‘ عورت کائنات کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ پتا نہیں یہ ‘ صنفِ نازک ’’صنفِ کرخت ‘‘کے مقابل کیوں آنا چاہتی ہے؟؟ ہمارے معاشرے میں حقوق سے محروم عورت ہی نہیں مرد بھی ہے۔ مجھے وہ واقعہ یاد ہے جب عورتوں کے حقوق کے لیے کمر بستہ ایک این جی او کی خاتون نے شیخوپورہ کے ایک گاؤں کی عورت کو لگاتار چھ ماہ تک سمجھایا کہ وہ کسی صورت اپنے شوہر سے کم نہیں لہذا اُسے اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جانا چاہیے۔ اُس بیچاری پر ایسا اثر ہوا کہ رات تک اُس نے طلاق سمیت اپنے تمام حقوق حاصل کرلیے‘ آج کل اُس نے باقی سُکھی عورتوں سے بدلہ لینے کے لیے خود بھی وہ این جی او جوائن کر لی ہے اور دھڑا دھڑ طلاقیں کروا رہی ہے۔
غیر متوازن صورتحال اُس وقت پیش آتی ہے جب فرائض کو چھوڑ کر حقوق کی جنگ چھیڑ دی جائے‘ عورتوں کے حقوق کی بجائے اگر مردوں کے فرائض پر توجہ دی جائے تو شائد معاملہ درست سمت چل پڑے‘ کان کو دوسری طرف سے پکڑنا ہوگا ورنہ یہی ہوگا کہ کم تعلیم یافتہ عورتیں محض اپنے حقوق کی کشش سے متاثر ہوکر اپنا ہنستا بستا گھر اجاڑ بیٹھیں گی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ عورت اگر مردکی برابری پر آگئی تو پتا نہیں کیسا کیسا سین دیکھنے کو ملے گا‘ عین ممکن ہے آپ بس میں کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوں اورکسی سٹاپ پر ایک دوشیزہ بس میں سوار ہو اور آپ کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہے’’اوئے۔۔۔کھڑکی بند کر ‘ ہوا آرہی ہے‘‘۔ (گل نوخیز اختر کا کالم۔ نئی دنیا 18 دسمبر 2012 ء)