28مئی… یوم تکبیر کا بھولا سبق

وہ 28مئی 1998ء کی سہ پہر تھی… دن کے سوا تین دس بجے جب سورج زردی مائل ہو کر مغرب کی جانب جھکا جا رہا تھا تو عین اس وقت بلوچستان کے مقام چاغی کا ایک پہاڑ ہلنے دھلنے کے ساتھ ساتھ اچانک سنہری ہونا شروع ہو گیا۔ اسے اس منظر سے دوچار کرنے والے سائنسدانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے تو زبانوں پر تکبیر’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعرے تھے…
اس منظر نے پاکستان کو دنیا بھر میں سرخرو و سربلند کر دیا تھا۔ یہ منظر پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت میں بدلنے کا منظر تھا، جس نے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے تھے اور سربلند کیوں نہ ہوتے، آج مسلمان کہنے کے قابل ہو چکے تھے کہ ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں۔ شام کا وقت ہوا تو وزیراعظم پاکستان جناب نوازشریف ایک بڑے جلوس کے ہمراہ مال روڈ لاہور پر موجود تھے۔ انہوں نے مسجد شہداء کی جانب بڑھنا شروع کیا تو لاکھوں کا مجمع ان کے جلو میںتھا اور کیوں نہ ہوتا، پاکستان نے اپنے ازلی و ابدی دشمن بھارت کو 5دھماکوں کا جواب 6دھماکوں سے دے دیا تھا اور اب اسی لئے تو پاکستان کے دشمنوں کے ہاں ماتم بپا تھا۔ پاکستان پر امریکی پابندیاں لگ چکی تھیں کہ تمہاری اتنی جرأت…؟ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ کسی کی یہ مجال اور وہ بھی کسی مسلمان کی کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ خود کو ایٹمی قوت بنا اور کہلا سکے۔ ’’گستاخ‘‘ پر حد ادب لگ چکی تھی لیکن دوسری طرف عالم اسلام خوشیوں سے نہال تھا۔ سعودی عرب کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر پاکستان کو فوری طور پر 50ہزار بیرل تیل مفت اور مسلسل دینے کا اعلان کر دیا۔ آج پاکستان واقعی مسلم دنیا کا رہبر بن چکا تھا… اور یہ دشمنوں کو کبھی اور قطعاً قبول نہیں تھا کہ ایک ایسا ملک جو سوئی تک خود نہیں بنا سکتا تھا۔ سائیکل تک باہر سے منگواتا یا محض سامان جوڑ کر بنانے تک محدود تھا، آج کیسے اتنے بڑے مقام اور مرتبے پر فائز ہو چکا تھا۔ ابھی دشمن تلملا رہے تھے، دانت پیس رہے تھے… بھنویں چڑھا… نتھنے پھلا رہے تھے کہ معاً رسول اللہﷺ کے نامہ گرامی کو پھاڑنے والے پرویز کا ہم نام ’’پرویز‘‘ اس ملک و قوم پر مسلط ہو گیا۔
پھر کیا تھا…؟ اس نے پتھر کے دور کی طرف سفر شروع کر دیا،دشمنوں نے پراپیگنڈہ شروع کیا کہ پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا اصل محرک و موجد ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایران، کوریا اور لیبیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کر رہا ہے۔ یہ اصل میں ہمارے اعزازوفخر پر حملہ تھا… پرویز نے اسے فوری قبول کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری چھوڑ دی اور پھر ملک و قوم کی عزت بچانے کیلئے ناکردہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور گھر میں نظربند ہو گئے۔
پھر 2003ء کا زمانہ آیا، اس بدنام و بدطینت انسان نے بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ بھارت کی باچھیں کھل گئیں کہ جو کام وہ کئی دہائیوں سے نہ کر پائے تھے، پرویز نے ایک جست میں کر دیا تھا۔ بھارت نے کنٹرول لائن سے لے کر انٹرنیشنل بارڈر اور ورکنگ بائونڈری تک انتہائی سخت حفاظتی اقدامات و انتظامات شروع کر دیئے۔ اس نے طویل خاردار تاریں نصب کیں، کئی تہوں پر مشتمل ان باڑوں کے پاس پٹرولنگ پارٹیاں چلائی گئیں، واچ ٹاور بنائے گئے۔ لائٹنگ ٹاور لگا کر کنٹرول لائن کو رات میں بھی دن بنا دیا گیا۔ پھر یہاں لاکھوں بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں، کشمیری حیران تھے کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہوا ہے…؟ بھارت نے کرتے کرتے یہاں سیٹلائٹ سے بھی نگرانی و جاسوسی شروع کی۔ انتہائی حساس کیمرے اور آلات نصب کئے، تاروں میں کرنٹ چھوڑا اور اب یہاں ڈرون بھی اڑتے اور کشمیریوں کے سانس تک لینے پر نگاہ رکھتے ہیں۔ یوں کشمیر کی عظیم تحریک آزادی جو کامیابی کے مراحل طے کرتی منزل کی جانب گامزن تھی اپنا راستہ بھٹکنے لگی۔ سلام ہو کشمیریوں پر اور کشمیری مجاہدین پر کہ انہوں نے دنیا کے اس مشکل ترین محاذ پر بھارت کے ہاتھ اور مضبوط کرنے والے پرویز کے ان مشکل ترین اقدامات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور آج بھی تحریک زندہ و تابندہ ہے۔ بہرحال اس پرویز کو نظریہ پاکستان، جہاد اور ایٹمی ملک سے اس قدر نفرت تھی کہ اس نے ملک بھر سے ایٹمی میزائلوں اور چاغی کے پہاڑوں کی بے شمار یادگاریں اور جنگی و جہادی علامات تک مٹانا شروع کر دیں۔ کسی جگہ آگ لگا کر کسی جگہ بلڈوزر چلا کر اور کسی جگہ پراسرار طور پر انہیں اچانک گرا کر… اس کی یہ بات یہیں تک محدود نہ تھی اس نے فوج کے ماٹو ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو ختم کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ فوجی مراکز کے اندر اور باہر جہادی آیات تک مٹانا شروع کر دیں۔ (جس کا سارا ملک گواہ ہے) اور حالات یہاں تک پہنچا دیئے کہ پاکستان کے لئے ایٹمی قوت کہلانا ’’گالی‘‘ بنا کر رکھ دیا تو سعودی عرب نے مفت تیل بھی بند کر دیا۔
آج اس قابل فخر دن کو 14سال پورے ہو رہے ہیں۔ پرویز کے ہاتھوں شکار ہو کر 8سال جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ایٹمی پاکستان کے بانی نواز و شہباز آج ایک بار پھرملک پر جلوہ افروز ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان عزت و شرف کے مقام و مرتبہ پر پھر فائز ہو چکے ہیں۔ لیکن انہیں راندہ درگاہ ٹھہرانے کی کوشش کرنے والا خود اس قدر راندہ درگاہ ہے کہ اس پر اس ملک کی زمین برسوں سے تنگ ہے، چند لوگ اس کے آس پاس آئے تھے کہ جنہیں ملک کی لوٹ مار کے اربوں ڈالر کی حصے داری اور ساجھے داری کے ذریعے بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے تھے۔ کچھ دھو کر بھاگ چکے، کچھ باقی ہیں تو وہ بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اللہ جانے اکلوتا بیٹا بھی اسے ملتا ہے کہ نہیں کیونکہ اس کی تو کوئی خبر نہیں۔ اس نے بار بار کہا کہ ’’میں آ رہا ہوں، میں آ رہا ہوں‘‘ کہنے والوں نے کہا، نہیں آ سکتا اور واقعی وہ نہیں آ سکتا کہ اس ملک کے ساتھ جس نے بھی غداری کی اس کا انجام برا ہوا اور جس نے بھی وفاداری کی وہ عزت و اکرام سے سرخرو ہوا۔
28مئی یوم تکبیر… یہی کچھ بتاتا، سکھاتا اور پڑھاتا ہے، پہلے پرویز نے جو کیا… اس کا انجام 14سو سال پہلے کی تاریخ میں سب کے سامنے ہے، دوسرے پرویز نے آج جو کیا، اس کا انجام بھی سامنے ہے۔ اب نہ مزید پرویز چاہئیں اور نہ پرویز والے کام… کہ پرویز کو میرے نبی کریمﷺ نے نامہ گرامی چاک کرنے پر بددعا دی تھی۔ اس کی سلطنت چاک ہو گئی اور بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا تھا۔ اب مزید اس کی گنجائش نہیں۔ نشانیاں ہیں۔ عقل والوں کے لئے۔



بشکریہ۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
 
Top