’’اختر‘‘ فارسی یا عربی؟

’’اختر‘‘ فارسی یا عربی؟
On Friday, April 25th, 2014
0 Comments | By Shams Khan

سب سے پہلے ایک قاری کا خط۔ انہوں نے جانے کیوں اپنا پورا نام لکھنے کے بجائے ’’ا۔ب۔پ‘‘ لکھا ہے۔ اگر وہ اپنے نام کی اشاعت نہیں چاہتے تو چپکے سے ہمیں تو بتا دیتے۔ اب جانے یہ اللہ بخش پروائی ہیں یا کوئی اور۔ بہرحال جو بھی ہوں ان کا شکریہ کہ انہوں نے نہ صرف توجہ سے کالم پڑھا بلکہ اپنی رائے بھی دی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’گذشتہ (گزشتہ) کسی کالم میں آپ نے لکھا تھا کہ عربی و فارسی کا ملغوبہ ہونے کی بنا پر ’’لاپرواہ‘‘ کی ترکیب غلط ہے۔ اسلام سے تعارف کے بعد عربی کے لاتعداد الفاظ فارسی میں بھی جذب ہوگئے۔ ’لا‘ بھی تمام معنی (معانی) سمیت مدت ہوئی فارسی کا حصہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بالکل اسی کے نیچے ’’لاابالی‘‘ کا معنیٰ بے پرواہ لکھا ہے۔ [فیروز الغات (اللغات، دو لام کے ساتھ ) ایڈیشن 1952ئ] یعنی کہ لاپرواہ درست ہوا۔ بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ لاپرواہی کے پیچھے غفلت اور بے پرواہی کے پیچھے تکبر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اسی طرح ’’اختر الایمان‘‘ کی ترکیب بھی غلط بتلائی گئی۔ سورہ طہٰ: آیت 13 میں ’’اخترتک‘‘ سے پتہ (پتا) چلتا ہے کہ اختر عربی ہی کا لفظ ہے۔ سورہ الحجرات آیات 7,14 کے علاوہ لاتعداد جگہ الایمان ملتا ہے۔ سو اختر الایمان درست ہوا۔ 4 اپریل 2014ء کی اشاعت میں مقام کی بحث میں کہا گیا ہے کہ (م پر زبر) کے معنی ہیں ٹھیرنے کی جگہ۔ جب کہ سورہ فرقان میں آیات 66 اور 76 میں مقاما کے میم پر پیش ہے، معنی ہے ٹھیرنے کی جگہ۔ بحرحال (بہرحال) یہ طے ہے کہ کالم بے حد دلچسپ ہے اور جو بھی رسالہ پڑھنے کے لیے اٹھائے گا اگر زبان سے شغف رکھتا ہوگا تب آخری صفحہ تو ضرور پڑھے گا۔‘‘
ہماری طرف سے ایک بار پھر شکریہ، خاص طور پر آخر میں توصیفی کلمات کا۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ یہ ’’بحرحال‘‘ کیا ہے؟ یعنی حال کا سمندر یا حال در بحر! یہ ’بحرحال‘ کچھ اور لکھنے والوں کی تحریروں میں بھی دیکھا ہے۔ ممکن ہے یہ ا۔ب۔پ کا سہو ہو جو پہلے سہوِ کاتب کہہ دیا جاتا تھا اور کچھ لوگ اسے سہوِ کتابت بھی کہتے تھے جو غلط ہے۔ مگر اب تو کاتب ہی خال خال رہ گئے۔ اسے کمپوزنگ یا مشینی کتابت کا سہو کہا جا سکتا ہے۔ یہ ’’بہ ہرحال‘‘ ہے یعنی ہر حال میں۔ اس میں بحر کا دخل نہیں خواہ وہ شاعری والی بحر ہو جس کے بارے میں انور مسعود کا بڑا دلچسپ شعر ہے جو کسی کی غزل پر تبصرہ ہے:
یوں بحر سے خارج ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
مصرع میں وہ سکتا ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
لگتا ہے کہ آج کا کالم اسی خط کے حوالے سے پورا ہوجائے گا۔ حضرت، ہمیں اس سے کب اختلاف ہے کہ ’لا‘ سمیت عربی کے لاتعداد الفاظ فارسی میں جذب ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ لاپروا فصیح نہیں ہے۔ فیروز اللغات نے پروا کے ساتھ پرواہ بھی دیا ہے، گویا دونوں کو صحیح قرار دیا ہے (صفحہ:791)۔ یہ صاحبِ لغت نے زیادتی کی ہے، کیونکہ اسی لغت میں صفحہ 766 پر بے پروا اور بے پروائی دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صفحہ 1139 پر ’’لاپروا‘‘ کا مطلب بے پروا دیا ہے۔ اور لاپروائی، بے پروائی وغیرہ اسی لغت میں ہے۔ گنتی کریں تو ’’پرواہ‘‘ کی جگہ ’’پروا‘‘ کی تعداد زیادہ نکلے گی۔ علاوہ ازیں وارث سرہندی کی ’’علمی اردو لغت جامع‘‘ طبع 2003ء میں لکھا ہے ’’لاپروا غلط ہے، صحیح بے پروا ہے، لاابالی کے معنیٰ میں بے فکر، بے پروا، شوخ، بے شرم وغیرہ دیے گئے ہیں۔ ہم نے دیگر لغات سے بھی استفادہ کیا تو ’’پروا‘‘ ہی نکلا۔ یہی نہیں بلکہ اپنے اطمینان کے لیے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی انگریزی اردو لغت سے بھی رجوع کیا۔ انہوں نے CARE LESS کا مطلب بے پروا، لاابالی، سہل انگار، غافل وغیرہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں WHO CARES کا مطلب ’’کسے پروا ہے‘‘ لکھا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’صحتِ املا کے اصول‘‘ نامی کتابچے میں ’’پرواہ‘‘ کو غلط اور ’’پروا‘‘ کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ اور بھی کئی حوالے ہیں مگر بات لمبی ہوجائے گی۔ چلیے مرزا غالب کے ایک مصرع پر بات ختم کرتے ہیں:
’’زخم پر چھڑکیں نہ کیوں طفلان بے پروا نمک‘‘
پروا قافیہ میں آیا ہے اور ’’ہوتا نمک‘‘ وغیرہ قوافی ہیں۔
’’اختر الایمان‘‘ کی ترکیب ہم نے غلط نہیں بتائی۔ ہم نے تو مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ دیا تھا۔ اُن سے رابطہ فی الحال نہیں ہوسکتا۔ ’’اخترتک‘‘ سورہ طہٰ میں یقینا آیا ہے جس کا مطلب ہے (ہم نے) تجھ کو چن لیا۔ اب اس پر تو کوئی عربی دان مثلاً عبدالستار ہاشمی ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ جہاں تک لغت کا معاملہ ہے تو تمام لغات میں ’’اختر‘‘ کو فارسی قرار دیا گیا ہے اور مطلب اس کا ستارہ ہے۔ اسی سے اختر شناس، اختر چمکنا، اختر سوختہ، اختر شمار وغیرہ تراکیب ہیں۔ جہاں تک ہمارے بہت ہی کم علم بلکہ معلومات کا تعلق ہے تو عربی کے اختر کا مادہ الگ ہے اور یہ اختیار و خیر کے معنیٰ میں آتا ہے۔ پشتو میں تو عید کو کہتے ہیں اور عید کی مبارک باد دیتے ہوئے ’’اختردہ مبارک‘‘ کہتے ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو کے میل سے زبان کو نئے الفاظ ملے ہیں اس لیے ہمیں تو اخترالایمان پر کوئی اعتراض نہیں۔ ابوالکلام آزاد نے ’’زیب النسائ‘‘پر اعتراض کیوں نہ کیا! اس میں بھی تو زیب فارسی ہے اور نساء عربی ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کی دختر زیب النساء خود بڑی عالمہ، فاضلہ تھیں۔ ان کے ابا جی بھی عربی، فارسی پر پورا عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی بیٹی کے نام پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ مَقام (میم پر زبر) کا معنیٰ ٹھیرنے کی جگہ۔ اس کے لیے فیروزاللغات ہی کا حوالہ ہے کہ ’’مَ قام‘‘ کا مطلب ہے ٹھیرنے کی جگہ، مکان، مسکن، اترنے کی جگہ، پڑائو، محل، موقع، کھڑے ہونے کی جگہ وغیرہ۔ اب یہ جو قرآن کریم میں مُقاما (میم پر پیش) آیا ہے تو یہ ایک مختلف ترکیب ہے۔ اس پر بھی کوئی اہلِ علم روشنی ڈالے۔ ہم نے تو جو پڑھا تھا وہ آگے بڑھا دیا۔
آج کا کالم ’’ا۔ب۔پ‘‘ کی نذر، اس خواہش کے ساتھ کہ وہ مستقل رابطہ رکھیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ وہ اہلِ علم ہیں۔ ایک بہن نے پوچھا ہے کہ یہ ’’ہاتف جوال‘‘ کیا ہے؟ عرب ممالک سے جو لوگ پلٹ کر آتے ہیں وہ موبائیل فون کو ’’جوال‘‘ کہتے ہوئے آتے ہیں۔ تھوڑا سا غور کریں تو یہ لفظ اردو میں بھی ہے۔ مثلاً ’’شعلہ جوّالا‘‘ کی ترکیب ضرور پڑھی یا سنی ہو گی، یعنی گھومتا ہوا یا موبائیل شعلہ… چلتا، پھرتا شعلہ(عموماً معشوق کے لیے)۔ ہاتف ٹیلی فون کو کہتے ہیں۔ ہاتف ِغیبی بھی اردو میں ہے۔ موبائیل فون کا ترجمہ ’’جوال‘‘ سے بہتر نہیں ہو سکتا، گو کہ یہ بھی نئی نسل کے لیے ’’شعلہ‘‘ بنتا جارہا ہے۔ جوّالا سنسکرت میں بھی ہے جس کا مطلب بجائے خود شعلہ، لپٹ، لو،روشنی، حدت، سوزِ عشق وغیرہ ہے۔ جوالا مکھی آتش فشاں کے لیے اردو میں بھی مستعمل ہے۔

اطہر ہاشمی
http://fridayspecial.com.pk/21073
 
Top