’کراچی میں ہر گھنٹے میں 5 افراد لوٹ لیے جاتے ہیں‘

120523072745_karachi_protest_304.jpg

کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہ چکا ہے اور اب بھی اسے پاکستان کا ’تجارتی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے لیکن اگر یہاں ہونے والے جرائم پر نظر ڈالی جائے تو اسے ’جرائم کا دارالحکومت‘ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

پاکستان کے دو بڑے شہروں یعنی کراچی اور لاہور میں ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کراچی میں لاہور کے مقابلے کہیں زیادہ جرائم ہوتے ہیں لیکن گاڑیاں چوری یا چھینے جانے کی وارداتوں کی تعداد میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔
کراچی میں رواں برس پہلی سہ ماہی کے دوران اوسطاً ہر بارہ منٹ میں ایک شخص اپنی گاڑی یا موبائل فون سے محروم کر دیا گیا جبکہ روزانہ اوسطاً 8 افراد کو قتل کیا گیا۔
لاہور پولیس کی جانب سے حاصل ہونے والے اعدا و شمار صرف گاڑیوں سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس اب تک موبائل فونز چھینے جانے یا چوری کیے جانے کا ڈیٹا الگ سے جمع نہیں کرتی۔
لاہور پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق پہلی سہ ماہی کے دوران ایک دن میں اوسطاً 65 گاڑیاں یا موٹرسائیکلیں چھینی یا چوری کی گئیں جبکہ کراچی میں پہلی سہ ماہی کے دوران اوسطاً 71 گاڑیاں یا موٹر سائیکلیں روزانہ چھینی یا چوری کی گئیں۔
اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں اس سال پہلی سہ ماہی کے دوران 4 ہزار سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور 1300 سے زیادہ کاریں چوری یا چھین لی گئیں جبکہ کراچی میں اس سال پہلی سہ ماہی کے دوران 6 ہزار سے زیادہ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں جبکہ 5 ہزار سے زیادہ موبائل فونز چھین یا چوری کر لیے گئے۔
یاد رہے کہ کراچی بدامنی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے جس میں کراچی میں قتل و غارت اور دیگر جرائم پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا احاطہ کیا جا رہا ہے۔
کراچی پولیس اور سٹیزن پولیس لیاژان کمیٹی کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں اس سال جنوری سے مارچ کے دوران 728 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ان میں سے زیادہ تر افراد بندوق کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
پولیس اور سی پی ایل سی کا کہنا ہے کہ ان میں سے آدھی سے زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جنہیں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2012 میں کراچی میں 2 ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا جن میں بیشتر افراد کو ہدف بنایا گیا تھا۔
شہر میں قتل و غارت گری کے گھناؤنے جرائم کے بعد سٹریٹ کرائم سر فہرست ہے جس میں شہری نہ صرف مال بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان افراد کی تعداد اعداد و شمار میں ظاہر نہیں کی گئی جو مزاحمت کرنے پر مارے جاتے ہیں۔
اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سال پہلی سہ ماہی کے دوران روزانہ اوسطاً 71 افراد اپنی گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں 58 افراد روزانہ اپنی موٹرسائیکلوں سے محروم کر دیے گئے جبکہ 13 افراد کو اپنی کاروں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے تین ماہ کے دوران کراچی میں 5,236 موٹرسائیکلیں اور 1,200 کاریں چھینی یا چوری کر لی گئیں، پولیس کے مطابق شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کے لیے بھی چوری یا چھینی گئی گاڑیاں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔
شہر میں گاڑیاں چھیننے اور چوری کیے جانے کی وارداتوں کے لیے گلشنِ اقبال، کلفٹن، جمشید کوارٹرز، اور نارتھ ناظم آباد کے علاقے سرفہرست رہے جبکہ موٹر سائیکل چھیننے یا چوری ہونے کی وارداتیں سب سے زیادہ گلشنِ اقبال، لیاقت آباد، سائٹ اور صدر میں ہوئیں۔
کراچی میں پہلے تین ماہ کے دوران 5,179 افراد کو ان کے موبائل فونز سے محروم کردیا گیا یعنی روزانہ 57 افراد اپنے موبائل فونز سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں 31 افراد کو روزانہ گن پوائنٹ پر اپنے موبائل فونز ڈاکوؤں کے حوالے کرنا پڑے۔
اعداو و شمار کے مطابق زیادہ تر افراد کو ان کے موبائل فونز سے گلشنِ اقبال، دھوراجی کالونی، سائٹ اور صدر کے علاقوں میں محروم کیا گیا۔
سندھ پولیس کے ترجمان عمران شوکت کا کہنا ہے کہ پولیس اپنی تمام تر موجودہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جرائم کی سرکوبی کے لیے سرگرداں ہے۔
ان کے بقول کراچی میں پولیس ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے بعض علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری ہیں جبکہ رینجرز بھی جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ منگھوپیر، بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی، گلشنِ بونیر، اورنگی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران سینکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ بڑی تعداد میں ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز کی مثبت کاوشیں اور سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت کراچی بدامنی کیس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کی پیشیاں، وضاحتیں اور دعوے کراچی کے لوگوں نہ ہی مطمئن کرسکے ہیں اور نہ ہی شہر میں امن قائم کر سکیں ہیں۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

حسان خان

لائبریرین
یہاں اب کچھ ایسا خوف پیدا ہو گیا ہے کہ قریب سے موٹر سائیکل سوار بھی گزرے تو لوگ چوکنے ہو جاتے ہیں۔
 

نا شناس

محفلین
ہر طرف خوف کا راج ہے یوں لگتاہے جیسے اس شہر کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے، جیسے اس کے اپنے مکینوں کو بھی اس کی فکر نہیں رہی۔
 
Top