x boy
محفلین
’مفتی ہوں کوئی دہشت گرد تو نہیں‘
سپریم کورٹ نے مفتی عبدالقیوم کو بے قصور قرار دیتے ہوئے 11 سال بعد باعزت بری کر دیا
بھارتی ریاست گجرات کے اکشردھام مندر پر ہونے والے شدت پسند حملے کے الزام میں 11 سال تک جیل کی سزا کاٹنے کے بعد مفتی عبدالقیوم کو گذشتہ سال بری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ نے انھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے باعزت بری کیا۔
مفتی عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ ان 11 سالوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی اہلیہ نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔
گذشتہ دنوں دہلی میں مفتی قيوم کی کتاب ’11 سال سلاخوں کے پیچھے‘ کی تقریبِ رونمائی ہوئی اور اس موقعے پر بی بی سی کے اقبال احمد نے مفتی قيوم سے بات کی۔
مفتی عبدالقیوم نے کہا: ’اگر میری اس کتاب کے بعد کوئی ایک آدمی بھی ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے سب کچھ مل گیا۔‘
’مجھے اللہ پر ہمیشہ ہی یقین اور ایمان رہا۔ سپریم کورٹ پر بھی مجھے اعتماد تھا۔ اس لیے میں نے پہلے سے ہی کئی چیزیں نوٹ کرکے رکھی تھیں۔‘
گذشتہ دنوں دہلی میں اس کتاب کا رسم اجرا ہوا جہاں سرکردہ مسلم شخصیات موجود تھیں
انھوں کہا کہ انھیں کئی بار ایسا بھی محسوس ہوا کہ انھیں مار دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار انھیں ’انکاؤنٹر‘ کے لیے بھی لے جایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے مقدمے کے بارے میں کہا: ’استغاثہ کے پاس اقتدار ہے طاقت ہے لیکن ان کا سارا کیس الجھا ہوا ہے۔۔۔ انھوں نے بار بار لکھا ہے۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔کہیں کسی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن میں نے ساری باتیں تاریخ کے ساتھ لکھی ہیں۔‘
’میں نے ساری چیزیں تاریخوں کے حساب سے ذہن نشین رکھیں کہ اگر رہائی ملی تو میں حقیقت حال لکھوں گا اور اس تحریر کے پس پشت میرا ایک ہی مقصد تھا کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم یا ناانصافی نہ ہو۔‘
پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’میرے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا گیا اور ذہنی ٹارچر کیا گیا۔ میری بیوی نے خودکشی کی کوشش کی، میرے ذہن میں بھی کئی بار خودکشی کا خیال آيا۔‘
اکشردھام مندر کے بہت سے ملزمین کو سپریم کورٹ نے باعزت بری کیا جن میں یہ لوگ بھی شامل ہیں
ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’سوراشٹر کا ایک غریب ہندو قیدی تھا، جسے ساڑھے چھ سو گرام اناج چوری کرنے کے جرم میں 10 سال کی سزا دی گئی تھی اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے انصاف کا مطالبہ کرے اور بری ہو جائے۔‘
ان کے مطابق گجرات میں ایک قبائلی کو صرف 50 روپے کی لوٹ کے لیے 38 سال تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ناانصافیوں کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ہیں۔
’میرے معاملے میں تو سپریم کورٹ نے داخلہ سکریٹری اور حکومت کو پھٹکار بھی لگائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت تک ایک مثال رہے گی۔‘
انھوں نے کہا: ’ہم نے پہلے بھی کوئی غلط کام نہیں کیا تھا، ہم تو گودھرا کانڈ کے بعد اجڑے ہوئے مسلمانوں کی امداد اور انھیں سہارا دینے کے لیے کام کر رہے تھے۔
’اس دوران بھی ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کریں گے۔ ہم مفتی ہیں کوئی دہشت گرد تو نہیں۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حق کی لڑائی لڑیں گے۔‘
- 10 مئ 2015

سپریم کورٹ نے مفتی عبدالقیوم کو بے قصور قرار دیتے ہوئے 11 سال بعد باعزت بری کر دیا
بھارتی ریاست گجرات کے اکشردھام مندر پر ہونے والے شدت پسند حملے کے الزام میں 11 سال تک جیل کی سزا کاٹنے کے بعد مفتی عبدالقیوم کو گذشتہ سال بری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ نے انھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے باعزت بری کیا۔
مفتی عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ ان 11 سالوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی اہلیہ نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔
گذشتہ دنوں دہلی میں مفتی قيوم کی کتاب ’11 سال سلاخوں کے پیچھے‘ کی تقریبِ رونمائی ہوئی اور اس موقعے پر بی بی سی کے اقبال احمد نے مفتی قيوم سے بات کی۔
مفتی عبدالقیوم نے کہا: ’اگر میری اس کتاب کے بعد کوئی ایک آدمی بھی ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے سب کچھ مل گیا۔‘
’مجھے اللہ پر ہمیشہ ہی یقین اور ایمان رہا۔ سپریم کورٹ پر بھی مجھے اعتماد تھا۔ اس لیے میں نے پہلے سے ہی کئی چیزیں نوٹ کرکے رکھی تھیں۔‘

گذشتہ دنوں دہلی میں اس کتاب کا رسم اجرا ہوا جہاں سرکردہ مسلم شخصیات موجود تھیں
انھوں کہا کہ انھیں کئی بار ایسا بھی محسوس ہوا کہ انھیں مار دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار انھیں ’انکاؤنٹر‘ کے لیے بھی لے جایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے مقدمے کے بارے میں کہا: ’استغاثہ کے پاس اقتدار ہے طاقت ہے لیکن ان کا سارا کیس الجھا ہوا ہے۔۔۔ انھوں نے بار بار لکھا ہے۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔اس کے کچھ دنوں بعد۔۔۔کہیں کسی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن میں نے ساری باتیں تاریخ کے ساتھ لکھی ہیں۔‘
’میں نے ساری چیزیں تاریخوں کے حساب سے ذہن نشین رکھیں کہ اگر رہائی ملی تو میں حقیقت حال لکھوں گا اور اس تحریر کے پس پشت میرا ایک ہی مقصد تھا کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم یا ناانصافی نہ ہو۔‘
پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’میرے ساتھ جانوروں سا سلوک کیا گیا اور ذہنی ٹارچر کیا گیا۔ میری بیوی نے خودکشی کی کوشش کی، میرے ذہن میں بھی کئی بار خودکشی کا خیال آيا۔‘

اکشردھام مندر کے بہت سے ملزمین کو سپریم کورٹ نے باعزت بری کیا جن میں یہ لوگ بھی شامل ہیں
ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’سوراشٹر کا ایک غریب ہندو قیدی تھا، جسے ساڑھے چھ سو گرام اناج چوری کرنے کے جرم میں 10 سال کی سزا دی گئی تھی اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے انصاف کا مطالبہ کرے اور بری ہو جائے۔‘
ان کے مطابق گجرات میں ایک قبائلی کو صرف 50 روپے کی لوٹ کے لیے 38 سال تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ناانصافیوں کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ہیں۔
’میرے معاملے میں تو سپریم کورٹ نے داخلہ سکریٹری اور حکومت کو پھٹکار بھی لگائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت تک ایک مثال رہے گی۔‘
انھوں نے کہا: ’ہم نے پہلے بھی کوئی غلط کام نہیں کیا تھا، ہم تو گودھرا کانڈ کے بعد اجڑے ہوئے مسلمانوں کی امداد اور انھیں سہارا دینے کے لیے کام کر رہے تھے۔
’اس دوران بھی ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کریں گے۔ ہم مفتی ہیں کوئی دہشت گرد تو نہیں۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حق کی لڑائی لڑیں گے۔‘