’لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کا عدالت میں احتجاج

111220142912_peshawar_high_court304.jpg

پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جمعرات کو لاپتہ افراد کے کوئی 350 کے قریب مقدمات کی سماعت کی

پشاور ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت اگلے مہینے تک ملتوی کرنے کے فیصلے کے بعد چند خواتین نے عدالت کے احاطے میں احتجاج شروع کرتے ہوئے اپنے پیاروں کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ خواتین جمعرات کو عدالت کے باہر چلا چلا کر یہ کہتی رہیں کہ وہ کسی کو اس وقت تک عدالت کے احاطے سے باہر نہیں جانے دیں گی جب تک انہیں ان کے پیاروں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ تاہم بعد میں ان کے رشتہ دار، وکلا اور عدالت کے عملے نے انھیں سمجھا کر وہاں سے روانہ کر دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جمعرات کو لاپتہ افراد کے کوئی 350 کے قریب مقدمات کی سماعت کی۔
ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ دوست محمد خان اور جسٹس روح الامین خان پر مشتمل تھا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل مزمل خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ بعض لاپتہ افراد کے بارے میں پیش رفت ہوئی ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ 14 افراد کو مختلف انٹرمنٹ سینٹرز (حراستی مراکز) میں بھیج دیا گیا ہے۔
یہ انٹرمنٹ سینٹرز سوات، کوہاٹ اور دیگر علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مذید بتایا کہ 10 افراد کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے اس لیے انھیں رہا کر دیا گیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ جن افراد کو انٹرمنٹ سینٹرز بھیجا گیا ہے ان کی ملاقات ان کے رشتہ داروں کے ساتھ کرائی جائے اور انھیں فنی تربیت فراہم کرنے کا انتظام بھی کیا جائے۔
اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ خیبر ایجنسی مطاہر زیب نے عدالت کو بتایا کہ 4 لاپتہ افراد جمرود کے علاقے میں فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ آپریشن کب اور کہاں کیا گیا؟ اور یہ افراد کیسے ہلاک ہوئے؟ اس بارے میں مکمل تحقیقات کر کے عدالت کو بتایا جائے۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ یہ چاروں افراد پشاور کے قریب پہاڑی پورہ سےگرفتار کیےگئے تو پھر وہ آپریشن کے دوران کیسے ہلاک ہوئے؟
خیال رہے کہ جمعرات کو 335 لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت مقرر تھی جس کے لیے عدالت میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
اس موقع پر ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا تھا کہ وہ کئی سالوں سے عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں لیکن اب تک انھیں ان کے پیاروں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی جاتی۔
احتجاج کرنے والوں میں ایک خاتون سوات سے آئی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ ان کا شوہر اور بیٹا کچھ عرصہ سے لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ دونوں کہاں رکھےگئے ہیں؟

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

طالوت

محفلین
اور اس معاملے میں ریاست باتوں کے پکوڑے تل رہی ہے۔ اور لواحقین نہ زندوں میں نہ مردوں میں۔
 
Top