’امریکہ کو آج اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے‘

’امریکہ کو آج اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے‘
برجیش اپادھیائےبی بی سی اردو، واشنگٹن
141205222701_us_protest_640x360_getty.jpg

امریکہ میں سیاہ فام دو شہریوں کی ہلاکت کے الزام میں پولیس اہلکاروں پر مقدمہ نہ چلانے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے
وہ چار نومبر 2008 کی شب تھی۔ واشنگٹن، شکاگو، نیویارک، فلاڈیلفيا نہ جانے کتنے امریکی شہروں کی سڑکوں پر لوگ نکل آئے تھے۔

گاتے بجاتے، ایک دوسرے کو گلے لگاتے، ہر رنگ کے لیکن زیادہ تر سیاہ فام لوگ۔ امریکہ نے اس رات اپنا پہلا سياہ فام صدر متخب کیا تھا۔

تصویر کچھ ویسی ہی تھی جیسی رام چندر گہا نے اپنی کتاب میں اس وقت کی دہلی کی سڑکوں کی کھینچی ہے جب نہرو نے آزادی کے اعلان کے بعد اپنی مشہور ’ٹرسٹ وتد ڈیسٹني‘ والی تقریر کی تھی۔

پانچ نومبر کی دوپہر کو میں نارتھ كیرولائینا کے شارلٹ شہر میں تھا، یہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سیاہ فام اور گوروں کے درمیان خلیج تاریخی رہی ہے۔ایک نائی کی دکان میں ایک سياہ فام خاتون بال کاٹ رہی تھیں، گا بھی رہی تھیں اور تھرک بھی رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آج امریکہ میں کیا نیا ہے؟

141205041054_ny_protest_garner_new_york_640x360_reuters_nocredit.jpg

امریکہ نے سياہ فام صدر سے امیدیں پال لی تھیں
ان کا جواب تھا: گورا آدمی روز مجھے گڈ مارننگ کہتا تھا۔ آج اس نے جس طرح سےگڈ مارنگ کہا اس میں کچھ مختلف سا تھا وہ کچھ شاعرانہ تھا۔

اگلے روز میں کبھی نسل پرستي کا گڑھ کہے جانے والی ریاست الاباما کے برمنگھم شہر میں تھا۔ ٹرین سٹیشن کے قریب ایک بزرگ ملے۔

میرے ہاتھ میں مائیکرو فون دیکھ کر کہنے لگے: ’جہاں آپ کھڑے ہیں پہلے یہاں دو الگ الگ نل ہوتے تھے، ایک سیاہ پانی ایک سفید پانی یعنی ایک نل سياہ فام لوگوں کے لیے اور دوسرا صرف سفید فام افراد کے لیے۔ آج دیکھیے ہم کتنی دور نکل آئے ہیں۔‘

کیا واقعی؟

امریکہ نے سياہ فام صدر سے جو امیدیں پال لی تھیں انھیں سن کر لگتا تھا جیسے اوباما کے ہاتھوں میں ایک جادو کی چھڑی ہوگی جسے گھماتے ہی اس ملک سے کالے گورے کا فرق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

گذشتہ کچھ ہفتوں میں لوگ راتوں کو پھر سے امریکہ کی سڑکوں پر نکلے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، ہر رنگ کے لیکن زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔

141130024635_ferguson_protests_640x360_reuters.jpg

سفید فام پولیس والوں پر سياہ فام یقین نہیں کرتے
اب امید نہیں نااميدي ہے، غصہ ہے، مایوسی ہے۔ غصہ اس لیے بھی زیادہ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اوباما کے ہوتے ہوئے ایسا ہو رہا ہے۔

ایئیل یونیورسٹی کے کچھ سياہ فام نوجوانوں نے ابھی تک پیدا نا ہونے والے اپنے بچوں کے نام خط لکھا ہے۔ اس ملک میں تم کچھ بھی بن جاؤ لوگوں کو تمہارا كالاپن ہی نظر آئے گا۔

دوسرے نے لکھا ہے۔ یہ دنیا تمہارے لیے تیار نہیں ہے۔ میں تمہیں سینے سے لگائے رکھوں گا تب تک، جب تک یہ دنیا تم سے پیار کرنے کو تیار نہ ہو جائے۔

سفید فام پولیس والوں پر سياہ فام یقین نہیں کرتے، سياہ فام افراد کی قد کاٹھی گورے پولیس والوں کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں ایک خوف پیدا کرتی ہے۔ بات چیت ہو تو کیسے ہو؟

کہیں کسی کا بیٹا پولیس کا شکار بنا ہے تو کہیں چھ بچوں کا باپ۔ کسی کی دم گھٹنے سے موت ہوئی ہے تو کسی کی بندوق کی گولی سے۔

141130004525_sp_ferguson_640x360_reuters_nocredit.jpg

اوباما نے ہر پولیس والے کی وردی پر کیمرے لگانے کا اعلان کیا ہے
مرنے والا اکثر سياہ فام ہوتا ہے تو مارنے والا اکثر گورا ہوتا ہے۔ صحیح غلط کی لکیر اکثر دھندلی سی ہوتی ہے۔ سياہ فام کی طرف داری کرنے والے زیادہ تر سیاہ ہیں، پولیس کا ساتھ دینے والے بیشتر گورے لوگ ہیں۔

اوباما نے ہر پولیس والے کی وردی پر کیمرے لگانے کا اعلان کیا ہے۔ لوگ صحیح غلط کا فیصلہ نہیں کر پائے، تو کیمرہ کیا کرے گا؟ وہ تو بس تصویریں لےگا، رنگ تو اس میں لوگ ہی بھریں گے۔

پوری دنیا کو نصیحت کرنے والے امریکہ کو آج اپنے آپ سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کسی کیمرے کے بغیر ہی، صحیح اور غلط بالکل صاف نظر آتا ہے۔
 
میرا تبصرہ بھی یہی ہے کہ ساری دنیا کو انسانی حقوق کا سبق پڑھانے والے امریکہ کو ’ آج اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے‘
 

x boy

محفلین
مغرب کا دوغلا پن - دیکھیے ان دو نوجوانوں کا ڈرامہ پہلے یہ مغربی لباس پہنے پولیس والے کے سامنے سے جھگڑتے ہوئے گزرے تو پولیس والا بے تعلق کھڑا دیکھتا رہا لیکن بیس منٹ بعد ہی یہ اسی پولیس والے کے سامنے مسلمانوں جیسے حلیے میں اپس میں الجھتے ہوئے گزرے تو پولیس والے نے فورا ہی انہیں پکڑ کر ان سے تفتیش اور ان کی تلاشی لینی شروع کر دی




 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے يہ بات بارہا کہی ہے کہ نا تو ہم عقل کل ہيں اور نا ہی ہماری تاريخ غلطيوں سے پاک ہے۔ تاہم ايک تعميری تجزيہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ رپورٹ کی جانے والی خبروں اور تاريخی واقعات کو ان کے درست تناظر ميں پيش کريں۔ مثال کے طور پر اگر کوئ امريکی معاشرے ميں نسل پرستی جيسے معاملے کی نشاندہی کرتا ہے اور اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کلو کليس کلين امريکی تاريخ کا حصہ رہا ہے تو پھر ايک تعميری اور معنی خيز بحث کے ليے اس حقي‍ت کا ادارک کرنا بھی ضروری ہے کہ اسی امريکہ ميں آج باراک اوبامہ صدر ہيں۔

جہاں تک فرگوسن ميں عدالتی فيصلے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے لوگوں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کريں اور پرامن طريقے سے اپنا احتجاج ريکارڈ کروائيں۔ ميں کچھ رائے دہندگان کے اس تجزيے سے متفق نہيں ہوں کہ احتجاج کی يہ لہر ايک ايسے معاشرے کی غمازی کر رہی ہے جو شکست وريخت کا شکار ہے۔ بلکہ يہ عمل تو ايک آزاد جمہوری معاشرے ميں تنوع اور شعور کو اجاگر کرتا ہے جہاں کے باسی جس بات کو اپنے تئيں درست سمجھتے ہيں اس کے ليے کھڑے بھی ہوتے ہيں اور اپنی آواز بھی بلند کرتے ہيں۔ کيا آپ واقعی ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ وہ معاشرے جو رنگ ونسل، مذہب اور سياسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے تمام شہريوں کے ليے يکساں بنيادی حقوق کے حصول کے ليے اپنے نظام انصاف سے بھی احتساب اور شفاف عمل کا تقاضا کرتے ہيں، وہ توڑ پھوڑ اور بحران کی جانب گامزن ہيں؟

صدر اوبامہ نے خود اس بات کا اعتراف بھی کيا ہے اور اس پر زور بھی ديا ہے کہ مظاہرين کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔

"جو کوئ بھی اس فيصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے، ميں اسے کہوں گا کہ وہ پرامن رہتے ہوئے ايسا کرے۔ جيوری کا فيصلہ رائج قانون کا آئينہ دار ہے اور لوگوں کو اسے تسليم کرنا چاہيے۔"

يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کے ناقدين جو امريکہ کو زوال پذير معاشرہ ثابت کرنے کے ليے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہيں ديتے اور اپنے دلائل کو تقويت دينے کے ليے کسی بھی ايسی خبر کو اجاگر کرنے سے نہيں چوکتے ، وہ انتہائ سہل طريقے سے امريکہ کے مبينہ معاشی مسائل اور عدم استحکام سے متعلق خبروں کو اس وقت فراموش کر ديتے ہيں جب پوری دنيا پر امريکی اثر و رسوخ اور مبينہ سازشی منصوبوں کی تشہير مقصود ہوتی ہے۔

يقینی طور پر اگر مختلف فورمز پر امريکی ناقدين کے الزامات کے مطابق امريکہ کے پاس کوئ ايسی جادو کی چھڑی ہوتی جس کی بدولت ہم ہزاروں ميل دور ايسے معاشروں ميں مذہبی اور فرقہ وارانہ کشيدگی کو ہوا دينے کی صلاحيت رکھتے جن کی ثقافت اور معاشرت بھی ہم سے ميل نہيں کھاتی، تو پھر ہم اسی صلاحيت اور بے پناہ طاقت کو خود اپنے ہی معاشرے ميں واقعات کے تسلسل اور نظريات پر قدغن اور پھيلاؤ کے ليے بھی استعمال کرتے۔

يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جائے اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جائے جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔

يہ دونوں دعوے بيک وقت درست نہيں ہو سکتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
مدرجہ بالا رپورٹ بی بی سی اردو سروس کی ہے۔۔۔ کیا یہ امریکہ کی پالیسیوں کا نقاد ادارہ ہے ؟
يہ دونوں دعوے بيک وقت درست نہيں ہو سکتے ہيں۔

آپ بادی النظر میں یہ ضرور تسلیم کررہے ہیں کہ آپ کے جواب کے آخری پیرے میں دئیے گئے دو دعووں میں سے ایک ٹھیک ہے۔۔۔
کون سا ؟
بیرونی دنیا پر کنٹرول یا اندرونی شکست و ریخت
 
Top