’آخر جوہر نے یہ کیوں کیا؟‘

130420082418_dzhokhar_tsarnaev_ap_624x351_ap_nocredit.jpg

جو لوگ جوہر سارنےیف سے واقف ہیں وہ بوسٹن دھماکے اور اس کے بعد کے پورے واقعے کو از سر نو سمجھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح ایک تابناک مستقبل والا حوصلہ مند نوجوان اس قدر بدل سکتا ہے؟
کمیبرج رنج اور لیٹن سکول میں لائف گارڈ کا سرٹیفیکیٹ کورس کرنے والے جوہر کو پانی میں تیرنے میں کافی مشکل کا سامنا تھا خاص طور پر اس وقت سے جب انھیں ایک اینٹ بھی ساتھ لے جانا ہوتی تھی۔
ان کے 19 سالہ دوست مارک فاریا کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے بڑی مشکل یہی تھی لیکن پھر بھی جوہر نے ہمت نہیں ہاری مشق مکمل کر کے ہی چھوڑی۔
فاریا کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ان لوگوں نے جشن منایا تھا، ’ہم تمام لوگ بہت پر جوش تھے۔ ہم جب اسے دیکھتے تو اسے ہائے لائف گارڈ کہہ کر مخاطب کرتے۔‘
کبھی جوہر نے سخت محنت کے ساتھ لوگوں کی زندگی بچانے کا ہنر سیکھا تھا لیکن آج وہ قتل کے الزام میں حراست میں ہے اور اس پر بوسٹن میراتھن میں بم لگانے اور دوسرے جرائم کا الزام ہے۔
"یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا جسے خفیہ اداروں نے بڑی احتیاط سے ترتیب دیا تھا۔ میرا بیٹا مسجد جایا کرتا تھا۔ سیکرٹ سروس والے ایک دن آئے اور پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے سارا الزام اس پر دھر کر اسے گولی مار دی"
جوہر کے والد
اس کے 26 سالہ بڑے بھائی تیمرلان سارنےیف کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
جو لوگ جوہر سے واقف ہیں انھیں یقین نہیں آتا کہ وہ بوسٹن بم دھماکوں کا ذمے دار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ کسی کے دباؤ میں تھا، شاید اپنے بڑے بھائی یا پھر کسی دہشت گرد تنظیم کے زیرِاثر تھا۔
بہر حال اب وہ عالمی سکینڈل کے سلسلے میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اسی وجہ سے اس کا رہائشی علاقہ بھی خاصا متاثر ہوا ہے۔
فاریا کا کہنا ہے پراسپکٹ سٹریٹ کو دیکھر کر لگتا ہے کہ جیسے ’یہ آسیب زدہ شہر ہے‘۔
علی بارا مارکیٹ میں حلال چکن کی دکان بند ہے اور اسی طرح گلی میں آگے جا کر جو مسجد ہے وہ بھی بند ہے جہاں جوہر نماز پڑھا کرتا تھا۔ علاقے میں زیادہ تر لوگوں نے خود کو گھر میں بند کر رکھا ہے۔

جوہر کو کیمبرج میساچوسٹس میں تعلیم کے لیے سکالرشپ ملی تھی۔
جوہر سنہ 2002 میں چیچنیا سے ترکِ وطن کر کے اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ آئے تھے۔
فاریا کا کہنا ہے کہ ان دونوں نے سکول میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی تھی اور وہ اچھا طالب علم تھا۔ جوہر کو ڈھائی ہزار ڈالر کا کیمبرج میساچوسٹس وظیفہ بھی ملا تھا۔
ایک مقامی ریڈیو سٹیشن پر کام کرنے والی 58 سالہ نینسی ایگیئر اسی گلی میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آخر وہ ایسا کیوں کرے گا؟ میں اسے سکیٹ بورڈ کرتے ہوئے دیکھتی تھی، وہ بہت شور مچایا کرتا تھا۔ نوجوان بدل جاتے ہیں۔‘
جوہر 2012 میں امریکی شہری بن گیا تھا۔ بہر حال ایک وقت وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پرامید نہیں تھا۔
جوہر اور تیمرلان برادران کے والد انزور سارنےیف نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں خفیہ اداروں نے ان کے بیٹوں کو پھنسایا ہے:
’یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا جسے خفیہ اداروں نے بڑی احتیاط سے ترتیب دیا تھا۔ میرا بیٹا مسجد جایا کرتا تھا۔ سیکرٹ سروس والے ایک دن آئے اور پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے سارا الزام اس پر دھر کر اسے گولی مار دی۔‘

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
Top