یہ ووٹ ہمکا دے دے ووٹر، ورنہ!

تاریخ : 16 اپریل 2015
یہ ووٹ ہمکا دے دے ووٹر، ورنہ!
تحریر: سید انور محمود

پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا میں اتحادی ہیں ، یہ کیسے اتحادی ہیں اسکا اندازہ عمران خان کے اسلام آباد کے دھرنے میں جماعت اسلامی کی دوری سے واضع ہوگیا تھا، اب کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے 246پر جو ایم کیو ایم کا گڑھ ہے اور 1988ء کے بعد سے یہ سیٹ ہمیشہ ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ایک دوسرئے کےمد مقابل امیدوار کھڑئے کیے ہوئے ہیں۔دونوں جماعتوں نے حلقہ این اے 246 کےضمنی انتخابات میں ایک دوسرئے کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کردیا ہے۔ جماعت اسلامی نے تحریک انصاف پر واضع کیا ہے کہ این اے 246 میں جماعت اسلامی مضبوط ہے اور اس حلقے میں جماعت اسلامی کا حق ہے۔جماعت اسلامی کےنائب امیر لیاقت بلوچ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی انتخاباتمیں ہم سے تعاون کرے۔ تحریک انصاف اپنے امیدوار کو جماعت اسلامی کے حق میں دستبردار کرائے۔ جماعت اسلامی 1970ء سے این اے 246 سےانتخابات لڑرہی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی حلقہ این اے 246 سے اپنے امیدوار کے دستبردار ہونے سے انکار کردیا ہے، تحریک انصاف کے امیدوارعمران اسماعیل کاکہنا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی بات مان لی جائے تو پھر انتخابات کی ضرورت کیا ہے ، پہلے سے ہی علاقے بانٹ لیئے جایں۔ عمران اسماعیل کی اس سوچ کی پوری پی ٹی آئی حمایت کررہی ہےجبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے 14 اپریل منگل کی شب جناح گرائونڈ میں منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کے بعد لندن پولیس کی طرف سے اُنکی ضمانت میں توسیع کی خوشی میں جمع ہونے والے اپنے حامیوں سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا ہے کہ جس طرح میں لندن پولیس اسٹیشن سے واپس آ گیا ہوں اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ 246کی نشست بھی واپس آ جائے گی۔


کراچی میں 23 اپریل کو قومی اسمبلی حلقہ 246 میں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوگا، حلقہ 246 کی نشست جو ایم کیو ایم کے سابق رکن نبیل گبول کے استعفی کی وجہ خالی ہوئی ہے۔ 23 اپریل کو قومی اسمبلی حلقہ 246کے انتخابات میں 15 امیدوار ہیں ، جن میں 12 آزاد امیدوار ہیں جبکہ تین امیدواروں کا تعلق ایم کیو ایم ( کنور نوید جمیل)، پاکستان تحریک انصاف (عمران اسماعیل) اور جماعت اسلامی ( راشد نسیم) سے ہے۔ حلقے کے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں اسکا پتہ ہمیں 23 اپریل کی رات کو چلے گا۔ اس حلقے کے ضمنی انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو کامیابی ملے ملکی سیاست پراُسکا کوئی خاص اثر نہیں پڑئے گا لیکن صوبائی اورخاص طورپر کراچی کی سیاست پر بہت اثر پڑئے گا، مثال کے طور پر اگر ایم کیو ایم یہ نشست جیت جاتی ہے تو یقینا ایم کیو ایم کو اس کا بھرپورسیاسی فائدہ ہوگا اور ایم کیو ایم ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس سے لیکر صولت مرزا کے لگائے ہوئے تمام الزامات کو اپنے خلاف سازش قرار دیگی، کچھ عرصہ پہلے نائن زیروُ پر رینجرز کا چھاپہ، قاتلوں کی گرفتاری اور اسلحہ کی برآمدگی سب اسٹیبلیشمنٹ کی سازش کہا جایگا اور ایم کیو ایم ایسے ہی پاک صاف ہوجائے گی جیسے ہمارا وزیر حج ، حاجیوں کا مال ہڑپ کرنے اور حج کرنے کے بعدہوتا ہے۔

عمران خان نے 6 اپریل کو حلقہ 246 کا دورہ کیا جس میں اُنکی بیگم ریحام خان اورپارٹی کے امیدوار عمران اسماعیل اور دوسرئے رہنما بھی شامل تھے، عمران خان اور انکی بیگم جب اسلام آباد سے روانہ ہورہے تھے تو ایم کیو ایم اور اُسکے قائد الطاف حسین کے خلاف بڑئے ہی جارحانہ انداز میں بیان دئے رہے تھے۔ عمران خان میڈیا کو بتارہے کہ لندن میں انہوں نے وکلا کی پوری ٹیم تیار کررکھی ہے ، اگر اُنکے کسی ایک کارکن کو کچھ ہوا تو لندن میں الطاف حسین کی خیر نہیں۔ بیگم عمران اپنے شوہر سے زیادہ الطاف حسین کے خلاف بول رہی تھیں، الطاف حسین نے دونوں میاں بیوی کو نائن زیرو آنے کی دعوت کے ساتھ ساتھ اُنکے بھرپور استقبال کے انتظام کا بھی اعلان کیا تھا جسکے جواب میں ریحام خان کا کہنا تھا کہ وہ ایک غیر ملکی کی دعوت کیسے قبول کرلیں ، الطاف حسین برطانیہ کے شہر ی ہیں۔ حلقہ 246 اورجناح گراونڈ کے دورئے کےدوران ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کےتمام ارکان عمران خان اور اُنکی ٹیم کے استقبال کےلیے موجود تھے، عمران خان اور اُنکی بیگم کےلیے تحفوں کا بھی اعلان ہوا۔ عمران خان کی جناح گراونڈ سے واپسی پر ایم کیو ایم کے کچھ کارکنوں نے پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں کو زخمی کردیالیکن عمران خان جب اسلام آباد جانے کےلیے کراچی ایرپورٹ پہنچے تو اُنکا کہنا تھا کہ کارکنوں کی آپس میں کچھ غلط فہمی ہوگی تھی۔الطاف حسین اور ایم کیو ایم کیخلاف بات کرتے ہوئے اُنکا لہجہ مدہم تھا، جبکہ دوسرے دن اُنکی بیگم غیر ملکی الطاف حسین کو الطاف بھائی کہکر پکاررہی تھیں۔ عمران خان جنہوں نے کبھی بھی کراچی کو اہمیت نہیں دی ، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں انہوں نے انتخابات میں حصہ تو لیا لیکن اُن کے زیادہ تر امیدوار بغیر پولنگ ایجنٹ کے انتخابات لڑرہے تھے اور آج بھی وہ حلقہ 246 کےلیے پولنگ ایجنٹ تلاش کررہے ہیں، ایسے میں اگر یہ فرض کرلیں کہ پاکستان تحریک انصاف یہ نشست حاصل کرلیگی تو خان صاحب سب سی پہلے کراچی کے لوگوں کو ایم کیو ایم سے آزادی کی مبارکباد دینگے اورپھر کہنگے اُوئے نواز شریف تبدیلی آئے گی نہیں تبدیلی آچکی۔

بارہ اپریل کو جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے گھر میں گھس کر نائن زیرو کے قریب شاہراہ پاکستان پر ایک جلسہ کیا اور جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کامریڈ سراج الحق نے الطاف حسین کو مخاطب کرکے ایم کیو ایم کے ایک ایک گناہ کو یاد دلایا۔ جماعت اسلامی کا یہ دعوی کہ وہ اس شہر کے ایک ایک محلے یا ایک ایک گلی سے واقف ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ جماعت اسلامی جو کراچی کی نمائندگی کا دعوی کرتی ہے کبھی بھی کراچی کی نمائندہ جماعت نہیں رہی، 1970ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان سے جماعت اسلامی کو صرف 4 سیٹں ملی تھیں، ان میں سے دو سیٹیں کراچی سے تھیں اور اس وقت کراچی سے قومی اسمبلی کی سات سیٹیں ہوا کرتی تھیں۔ 1977ء میں پی این اے کا حصہ تھی۔ 1985ء میں جماعت اسلامی جب اپنے غاصب امیرالمومین ضیاالحق کی بی ٹیم تھی اس وقت کے غیر جماعتی انتخابات میں جس میں پاکستان کی کسی قابل ذکرجماعت نے حصہ نہیں لیا تھا سوائے جماعت اسلامی کے، پورئے پاکستان سے 50 امیدوار کھڑئے کیے اور صرف 9 کامیاب ہوئے۔ بعد میں ہونے والے انتخابات میں یہ مختلف اتحادوں کے ساتھ رہے، سب سے زیادہ اسکور 9 ہے جبکہ 1970ء کے الیکشن میں تو "اسلام خطرئے میں ہے" کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ 1970ء کےبعد 2013ء میں جماعت اسلامی کو اکیلے انتخابات لڑنے پڑئے اور صرف تین نشست حاصل کرپائی تھی، جماعت اسلامی کی مرغوب سیاست دہشت گردوں کی پشت پناہی ہے ، جماعت کے سابق امیر منور حسن نے تو دہشت گردوں کے ایک سربراہ کو ڈرون حملے میں مرجانے پر شہید قرار دیا تھا اور پاک فوج اور دوسرئے شہید ہونے والوں کو منور حسن کرائے کا فوجی بتارہے تھے۔ اب اگر جماعت اسلامی 246 کی یہ نشت جیت جاتی ہے تو امیر جماعت اسلامی کامریڈ سراج الحق کراچی کے لوگوں سے فرماینگے، ائے کراچی کے لوگوں کٹی پہاڑی سے آیا ہوا اجمل پہاڑی آج ہار گیا لیکن وزیرستان سے آیا ہوا ملا فضل اللہ جیت گیا، آج ٹارگیٹ کلر، بھتہ خور ہار گے اور دہشتگرد جیت گے۔


سال 2002ء کے عام انتخابات میں این اے 246 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 61 ہزار تھی۔ ایم کیو ایم کے حاجی عزیز اللہ کو 53 ہزار اور متحدہ مجلس عمل کے راشد نسیم کو 33 ہزار ووٹ ملے تھے۔ سال 2002ء میں پی ٹی آئی کا سیاست میں بس اتنا ہی رول تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی مہربانی سے عمران خان قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے، کراچی میں پی ٹی آئی کوئی وجود نہیں تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 10 ہزار تھی۔ ایم کیو ایم کے سفیان یوسف کو ایک لاکھ 87 ہزار ووٹ ملے تھے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے انتخابات کا بایئکاٹ کیا ہوا تھا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 57 ہزار تھی۔ ایم کیو ایم کے نبیل گبول کو ایک لاکھ 37 ہزار اور تحریک انصاف کے عامر شرجیل نے 31 ہزارسے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ جماعت اسلامی کے راشد نسیم کو 10 ہزار ووٹ ملے تھے۔ جماعت اسلامی نے دوپہر میں الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا، لگتا ایسا ہے کہ جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے بعد ایم کیو ایم کے مخالفین نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے تھے، اب اگر آنے والے ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی کے راشد نسیم 30 ہزار ووٹ لے گئے تو تحریک انصاف کو کتنے ووٹ ملیں گے؟ حلقہ 246 کے تینوں امیدوار اور اُنکی جماعتیں کسی سے کم نہیں، مجھے فلم شعلے کا گبرسنگھ یاد آرہا ہے بس حلقہ 246 کے ووٹروں کو شاید اب صرف یہ ہی سنائی دیگا ‘یہ ووٹ ہمکا دے دے ووٹر، ورنہ!’۔
 
Top