یہ واقعہ ہے کہ آنکھوں نے خواب دیکھا ہے۔اسلم کولسری

یہ واقعہ ہے کہ آنکھوں نے خواب دیکھا ہے
کسی کا عکس مرے آئنے سے نکلا ہے
دیارِ خواب میں تب آندھیوں کا پہرا تھا
چراغ لَو نہیں دیتے، حضور اب کیا ہے!
تِرے خیال سے نکلوں تو کچھ سمجھ پاؤں
یہ مرے چاروں طرف شہر ہے کہ صحرا ہے
وہ بے خبر ہے ابھی چاند کی حقیقت سے
اسی لیے تو سمندر اُچھلنے لگتا ہے
اک اجنبی تو نہیں ہے کہ کُھل کہ باتیں ہوں
جو میرے سامنے بیٹھا ہے میرا سایہ ہے
کسے خبر تھی کہ بکھرنے کی رُت بھی آئے گی
کسے خبر تھی کہ محبت بھی ایک دھوکا ہے
کوئی تو بات ہے آخر کہ آج کل اسلمؔ
بلا جواز بھی خود سے اُلجھنے لگتا ہے
 
Top