داغ یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

صائمہ شاہ

محفلین
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

سُن سُن کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

بن آئی ہے جو چاہیں کہیں حضرتِ واعظ
اندیشۂ عقبیٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

دیکھو تو ذرا چشمِ سخن گو کے اشارے
پھر تم کو یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

خط میں مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر یہی لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھو تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

خاموش کیا چھیڑ کے ظالم نے شبِ و صل
وہ تذکرہ چھیڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ خوب سمجھ لیجیے غمّاز وہی ہے
جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

دنیا مجھے کہتی ہے برا حاضر و غائب
سمجھو تو سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تم کو یہی شایان ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مشتاق بہت ہیں مِرے کہنے کے پر اے داغؔ
یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
 

سارہ خان

محفلین
دیکھو تو ذرا چشمِ سخن گو کے اشارے
پھر تم کو یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

خط میں مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر یہی لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

بہت خوب
 

طارق شاہ

محفلین
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

سُن سُن کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

بن آئی ہے جو چاہیں کہیں حضرتِ واعظ
اندیشۂ عقبیٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

دیکھو تو ذرا چشمِ سخن گو کے اشارے
پھر تم کو یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

خط میں مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر یہی لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھو تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

خاموش کیا چھیڑ کے ظالم نے شبِ و صل
وہ تذکرہ چھیڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ خوب سمجھ لیجیے غمّاز وہی ہے
جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

دنیا مجھے کہتی ہے برا حاضر و غائب
سمجھو تو سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تم کو یہی شایان ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مشتاق بہت ہیں مِرے کہنے کے پر اے داغؔ
یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
بہت ہی خوب!
کیا خوب غزل عنایات کی ہے آپ نے
ڈھیر ساری داد آپ کے اس انتخاب خوب پر
بہت خوش رہیں
تشکّر

تم کو یہی شایان ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

پہلے مصرع میں بجائے نون غنہ کے نون (بمعہ نقطہ ) ٹائپ ہوگیا ہے
اسے درست کردیا جائے تو کیا بات ہو
تشکّر ایک بار پھر سے
 

فاتح

لائبریرین
دنیا مجھے کہتی ہے برا حاضر و غائب
سمجھو تو سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا​
واہ واہ واہ کیا حسبِ حال شعر ہے اس سالی دنیا پر
 
Top