یہ بھی تو بچے ہیں - اِبنِ اُمید

★★★★★★★★★★★★
کبھی تو فرصت کے موسموں میں
کسی بڑے شہر کی نکڑ پہ
کچی بستی کے سہمے سہمے
ننھے بچوں کے چہرے پڑھنا
کہ جن کے ننگے بدن نجانے
کتنی ہی خنک رتوں کو
لباس کر کے پہن چکے ہیں
معصوم سے ہاتھ، پھول چہرے
کھلونے روٹی کے مانگتے ہیں

زرد موسم نجانے کتنی
بہاریں اُن کی نگل چکے ہیں
کئی تو ہیں جو کہ پیدا ہوتے ہی
بچپنے سے نکل چکے ہیں
اُن کی آنکھوں میں دیکھو اک بار
حسرتیں برف بن گئی ہیں
اُن کے حصے کی خوشیاں تھیں جو
کبھی یہ سوچا، کدھر گئی ہیں؟

ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com
http://www.facebook.com/ibn.e.umeed
 
برادر محترم ابن امید آپ کی یہ نظم میرے ناقص علم کے مطابق بحر سے خارج ہے ، بہتر ہے کہ آپ اپنا کلام ،، اصلاح سخن ،، میں پوسٹ کریں تاکہ برادرم عبید صاحب ، محمود مغل صاحب اورمحمد وارث صاحب جیسے اساتذہ آپ کی راہنمائی اور اصلاح فرما سکیں
 
Top