ینگ آمد بجنگ آمد...نیر ندیم

ہم ابتدائے کلام ہی میں ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہیں جو ہمارے موجودہ عنوان یعنی ینگ آمد بجنگ آمد پر اعتراض کریں گے یا احتجاج کریں گے بہرحال اس عنوان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والوں سے معافی چاہتے ہیں۔ خصوصاً ان سے جو محاورات اور ضرب الامثال سے چھیڑ چھاڑ کوممنوع قرار دیتے ہیں۔ ہم نے طبیعت کے مطابق احتیاط برتی ہے اردو کی بجائے فارسی کے معروف محاورے پر شب خون مارا ہے جو آپ نے لاکھوں بارسن رکھا ہے یعنی تنگ آمد بجنگ آمد۔ فارسی کا کوئی اہل زبان معترض ہوگا تو امریکہ سے مدد مانگ لیں گے امریکہ ہماری روایتی کمزوری ہے، حالت جنگ ہو یا حالت امن‘ احتساب کا موقع ہو یا انتخاب کا، ہمیں امریکہ ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ بے چارہ لاکھ انکار کرے مگر اس کے انکار کو اقرار پر محمول کرتے ہیں،کیاغلط کرتے ہیں؟؟
ہمارا ترمیم شدہ محاورہ بہت جلد مقبول عوام وخواص ہوجائے گا اس کی مقبولیت میں ہمارے ساتھ ساتھ ان صاحبان علاج معالجہ کی معاونت بھی سو فیصد شامل ہے جو لاہور میں مقیم ہیں اور خود کو ینگ کے لقب سے نوازتے ہیں ان کی عمریں دیکھ کر اور ینگ کا لقب دیکھ کر ہمارا تو اس لفظ سے یقین ہی اٹھ گیا، پتہ نہیں ان ستم ظریفوں نے کسی ڈکشنری سے استفادہ کیا ہے۔ اگر یہ حضرات ینگ ہیں تو ہماری طرف سے ینگ حضرات کی ایک مختصر سی فہرست حاضر ہے مثلاً نیلسن منڈیلا‘ امیتابھ بچن‘ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی‘رحمن ملک‘ شیخ رشید اور ہماری اپنی ذات بابرکات۔
ہمارے ملک میں ڈاکٹری کا کورس سات سالہ ہوتاہے پھر ہاؤس جاب کامسئلہ ہوتاہے اگر ہم مجسم اخلاق بن کر اس مدت کو بنیاد بنالیں تو بھی ہمیں یقین کامل ہے کہ ان میں بیشتر نے پندرہ سال سے کم مدت اس کارخیر میں صرف کی ہوگی اسے ان کی نالائقی ہرگز تسلیم نہ کیاجائے بعض طالب علموں کو اپنے تعلیمی اداروں سے اتنی محبت ہوتی ہے، اتنی محبت ہوتی‘ اتنی محبت ہوتی کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ انہیں حصول علم کی قطعاً پروا نہیں ہوتی، کتابوں کی صورت دیکھنے کے وہ روادار نہیں، کلاس روم کو وہ کسی پہلوان کا اکھاڑہ گردانتے ہیں۔ حد یہ ہوتی ہے کہ اپنے پروفیسر حضرات سے میل جول کو بھی ناپسند کرتے ہیں ان کے آرام اور سکون کی خاطر انہیں اسٹاف روم سے باہرآنے کی زحمت نہیں دیتے بلکہ انہیں عبادت کا موقع دیتے ہیں وہ اسٹاف روم میں بیٹھے آیت الکرسی کا ورد کرتے ہیں، تحفظ جسم اور حفاظت عزت کا وظیفہ پڑھتے ہیں۔ بعض تو گھر جا کر دونفل شکرانہ پڑھتے ہیں بیویاں ہلدی کا لیپ تیار رکھتی ہیں اور روزانہ ہلدی ملا دودھ پلاتی ہیں کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ہمارے ینگ حضرات نے دوران تعلیم کبھی بھی زائد ازنصاب سرگرمیوں کو ترک نہیں کیا، پہلوانوں کے اکھاڑوں میں وقت گزارا بعض توکُشتی بھی لڑتے رہے ہیں، دھوبی پاٹ اور انوکی شکنجے کے ماہر ہیں، کراٹے اور باکسنگ سے خصوصی شغف رکھتے ہیں جب کراٹے کا وار کرتے ہیں تو مقابل کو چار فٹ دور پھینک دیتے ہیں۔ بہت دلیر ہیں اتنے دلیر کہ اپنی غلطی کوغلطی ماننے پرتیار نہیں، ندامت کا موقع ہو تو یہ صاحبان ہمت وکٹری کانشان بناتے ہیں خود کو چرچل کا بھتیجا سمجھتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ہم نے شیخ الاسلام مولانا طاہرالقادری کوخط لکھا ہے کہ چودہ جنوری کے بعد کوئی مناسب تاریخ ان ینگ حضرات سے بھی منسوب کردیں ہماری جانب سے وہی تعاون ملے گا جو الطاف بھائی نے فراہم کیاہے، بس چندے وندے سے معاف رکھئے گا۔ہمارے دل میں ان ینگ صاحبان کیلئے ذرہ بھر شکایت نہیں ہے ہمیں تو ان پر رشک آتا ہے جب ہم نے ٹی وی اسکرین پر ان کے ماہرانہ کرتب دیکھے تو ہم انگشت بدنداں رہ گئے ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔ کچھ مدت قبل ایک بھولے سے طالب علم نے پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی تھی جو سارا میڈیا نے ہلچل مچارکھی تھی اب میڈیا کو سانپ کیوں سونگھ گیاہے؟ ان صاحبان فن سے ضرور کوئی کدورت ہے ان کو داد دی جائے کہ اسپتال میں بیماروں کے درمیان ان کی صحت جوں کی توں ہے مختلف ادویات کی بواور مہک نے ان کی چونچلی طبیعت کو ذرہ برابر بھی متاثرنہیں کیا ان حضرات کی شرارتیں شوخیاں جوں کی توں ہیں، قابل رشک ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ تعلیم جن کاکچھ نہ بگاڑسکی تو دوائیں کیا بگاڑیں گی۔ہمیں اپنی پیارے نٹ کھٹ اور چلبلے ینگ حضرات سے اس وقت بے حد ہمدردی محسوس ہوئی جب ہمیں معلوم ہوا کہ سرکاری کارندوں نے کوئی کارروائی کی ہے۔ اتنے معصوم لوگوں کو حوالات میں بند کرنا سخت ناانصافی ہے۔ ایسے بھولے بھالے لوگ جو اچھائی اور برائی میں فرق نہیں کر سکتے انہیں تو پیار سے سمجھانا چاہئے،کسی فائیو اسٹار میں دعوت دیناچاہئے۔ ان سرکاری کارندوں سے بھی ہمیں ہمدردی ہے ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے صاحب دولت وثروت، اثرورسوخ والے حضرات پر ہاتھ ڈالا ہے جو بغیر تعلیم وتہذیب اتنے اہم عہدے حاصل کرسکتے ہیں، ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہوں گے، ان کو اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی بھی حاصل ہوگی۔ ہمارا دل کہتا ہے ان کو ملازمتیں ضرور بالضرور سفارش سے ملی ہوں گی، ان کی ڈگریاں بھی سفارشی ہوں گی۔ ہماری بھی ایک سفارش ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالاجائے تو اچھی طرح سوچ لیاجائے ہم روزانہ خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں ابھی تک ان سرکاری کارندوں کاحال معلوم نہیں ہو سکا جنہوں نے ان کو ہتھکڑیاں لگائی تھیں ان سے کچھ مچھ ٹرانسفر کردیئے گئے ہوں گے، کچھ ٹنڈوآدم میں ہوں گے اور کچھ معطل، بے وقوفوں کایہی انجام ہوتاہے۔
صوبائی حکومت ینگ حرکتوں پر سخت پریشان ہوگی۔ اس قسم کے واقعات کو روکنے کیلئے ہمارے چند مشورے ہیں ایک مشورہ تو یہ ہے کہ ہر سرکاری اسپتال کے احاطے میں ایک تھانہ بنا دیا جائے جو میڈیکل افسر آئے پہلے تھانے جائے اور دوکانسٹیبلز کے ساتھ اپنی افسرانہ نشست پر بیٹھے‘ ہر افسر کو خودبھی ٹی ٹی رکھنے کی اجازت ہو۔مذکورہ تھانے سے مریض بھی استفادہ کرسکتے ہیں ہوسکتاہے کہ معالج صاحب مریض کے بار بار اسپتال آنے سے ناراض ہوجائیں اور اسے بیڈسے اٹھاکرزمین پر پٹخ دیں اس قسم کے واقعات سے خللِ امن واقع ہوسکتاہے اس سے بچنے کیلئے فی مریض ایک کانسٹیبل کی نفری کافی ہوگی اس سلسلے میں مریض سے معمولی رقم طلب کی جاسکتی ہے، اگرحکومت کو آمدنی کا یہ ذریعہ ناپسند ہے تو اسے متعلقہ ایس ایچ او کی صوابدید پر چھوڑا جاسکتا ہے۔ جس طرح پولیس کی عمومی روش سے تجاہل عارفانہ برتاجاتاہے ایساہی تجامل جاہلانہ یہاں بھی برتاجائے۔ہمارا دوسرا مشورہ براہ راست اسپتالوں کے افسران کیلئے ہے وہ خود باڈی گارڈز کاانتظام کرلیں مگر بینکوں جیسے نہ ہوں‘ انہیں مارشل آرٹ کاماہر ہونا چاہئے اور حملے میں پہل کرناچاہئے۔
ہمیں ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہنگامہ پسندوں نے اپنا احتجاج روک دیا ہے، ان کے اس عمل سے ہمیں نقصان پہنچاہے خدشہ ہے کہ ہمارا یہ کالم بے کار جائے مگر ہمیں امید ہے کہ ہنگامہ پسند زیادہ دیر تک نہ خود سکون سے بیٹھیں گے نہ کسی کو بیٹھنے دیں گے اور ہمارا کالم تروتازہ رہے گا، یہ کالم سدابہار قسم کاہوگا جس پر خزاں نہیں آئے گی۔اگرینگ حضرات کے حامیوں کو ہماری کوئی بات بری لگی ہو تو یہ ان کی مرضی مگرکوئی یہ تو بتائے کہ ہمارے دل میں ان کے لئے نرم گوشہ کیسے ہوسکتاہے ابھی تک ان میں کوئی ینگ لیڈی نظرہی نہیں آئی بوقت ہنگامہ بھی ینگ لیڈی غائب، پریس کانفرنس میں دیکھا تو تصویرکائنات بے رنگ تھی۔ ہم نے کُشتی کے بین الاقوامی مقابلوں میں خواتین کو مصروف عمل دیکھا ہے مگر ہماری خواتین کو کیا ہوگیا وہ بھی تو اپنے بھائیوں کاہاتھ بٹائیں۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
 
Top