امجد اسلام امجد ہے کوئی دل بینا، ہے کوئی نظر والا !!!!

صائمہ شاہ

محفلین
ہے کوئی دل بینا، ہے کوئی نظر والا !!!!

وہ چاند کہ روشن تھا سینوں میں نگاہوں میں
لگتا ہے اداسی کا اک بڑھتا ہوا ہالہ
پوشاکِ تمنا کو
آزادی کے خلعت کو
افسوس کہ یاروں نے
الجھے ہوئے دھاگوں کا اک ڈھیر بنا ڈالا
وہ شور ہے لمحوں کا، وہ گھور اندھیرا ہے
تصویر نہیں بنتی، آواز نہیں آتی
کچھ زور نہیں چلتا، کچھ پیش نہیں جاتی
اظہار کو ڈستی ہے ہر روز نئی اُلجھن
احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالہ
ہے کوئی دل بینا، ہے کوئی نظر والا
 
Top