ہو گئی غرقاب دنیا بھر گیا سارا جہاں

یوسف سلطان

محفلین

اس بت کافر کو ان کا دھیان کیا ہے کچھ نہیں
دین کیا ہے کچھ نہیں ایمان کیا ہے کچھ نہیں

نذر کرنے کے لئے سامان کیا ہے کچھ نہیں
جان ہے اب اور میری جان کیا ہے کچھ نہیں

خاک سے پیدا ہوا یہ خاک میں مل جائے گا
خاکدان دہر میں انسان کیا ہے کچھ نہیں

چاہتا ہوں میں کہ چاہیں آپ بھی دل سے مجھے
ہے یہی ارمان اور ارمان کیا ہے کچھ نہیں

ہر گھڑی ظلم و ستم ہر دم وہی قہر و عتاب
آپ کے نزدیک میری جان کیا ہے کچھ نہیں

میں فقیر بے غرض ہوں بے غرض کے واسطے
نفع کیا ہے کچھ نہیں نقصان کیا ہے کچھ نہیں

مرنے والے لٹنے والے مٹنے والے کے لئے
جان کیا ہے آن کیا ہے شان کیا ہے کچھ نہیں

تیغ نے گردن جدا کی موت نے لی جان زار
میرے سر پر آپ کا احسان کیا ہے کچھ نہیں

جب کہو قربان کر دوں جب کہو کر دوں نثار
یہ ذرا سا دل ذرا سی جان کیا ہے کچھ نہیں

کیا کہا ہم کو بہت کچھ غم زدوں کا دھیان ہے
تم کو اپنے غم زدوں کا دھیان کیا ہے کچھ نہیں

ہر حسیں پر اس کو مرنا اور اسے غم جھیلنا
دل سلامت ہے تو میری جان کیا ہے کچھ نہیں

سر پٹکنے کو فقط دو چار پتھر رکھ لئے
اور میرے گھر میں اب سامان کیا ہے کچھ نہیں

خیر جو ظلم و ستم کرنے تھے وہ تم نے کئے
پچھلی باتوں کا ہمیں اب دھیان کیا ہے کچھ نہیں

میں یہ ان سے کیوں کہوں تم عاشقوں کی جان ہو
جانتا ہوں عاشقوں کی جان کیا ہے کچھ نہیں

ہو گئی غرقاب دنیا بھر گیا سارا جہاں
اب تو کہیے نوحؔ کا طوفان کیا ہے کچھ نہیں

(نوح ناروی)​
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top