جوش ہوشیار اے مردِ مومن ہوشیار

حسان خان

لائبریرین
خانقاہوں سے بچا دامن کہ یاں بہرِ شکار
بیٹھے ہیں دبکے، کمیں گاہوں میں، نقلی دین دار
ہوشیار
اے مردِ مومن ہوشیار!

زر بکف ہیں سادہ لوحی سے مریدانِ حقیر
ہات پھیلائے ہوئے ہیں صوفیانِ ذی وقار
ہوشیار
اے مردِ مومن ہوشیار!

دل کی آنکھیں بھی کھلی رکھتے ہوں اُن آنکھوں میں جو
آہ ایسے اب کہاں ہیں عابدِ شب زندہ دار!
ہوشیار
اے مردِ مومن ہوشیار!

شیعہ و سنی میں اب تک صرف ان کے فیض سے
ایک ننگِ پنجتن ہے، ایک ننگِ چار یار
ہوشیار
اے مردِ مومن ہوشیار!

ڈالتے ہیں اس جگہ قبروں کے شمع و گل سے جال
کھیلتے ہیں اس جگہ محراب و منبر سے شکار
ہوشیار
اے مردِ مومن ہوشیار!

جرم کی تاریخ کہتی ہے بہ آوازِ بلند
مجرموں سے بڑھ کے اس فن میں ہیں مفتی پختہ کار
ہوشیار
اے مردِ مومن ہوشیار!

(جوش ملیح آبادی)
 
Top