ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اردو اشعار

افضل حسین

محفلین
ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اردو شعر شاعری سے گہری شغف رکھتے وہ اپنی خطابات میں جابجا اردو اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔ منموہن سنگھ کے وزارت میں شامل مرکزی وزیر برائے سیاحت جناب سلطان احمد جن تعلق ہماری ریاست مغربی بنگال سے ہے ایک دفعہ جلسے سے خطاب کرتے ہو ئے منموہن سنگھ کی اردو دوستی کا ذکر کرتے ہو ئے بتا یا کہ وہ ہرروز پابندی سے اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ غالب کی شاعری کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ منموہن سنگھ کی اردو شعر وشاعری سے گہری شغف کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ششماسواراج بھی کبھی کبھی شعر وں کے ذریعہ وزیر اعظم پر حملہ بولتی ہی جیسا کہ گزشتہ سال مارج ۲۰۱۱ میں جب ووٹ برائے نقد پر پارلیمنٹ میں بحث ہورہی تھی تو وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہو یہ شعر داغا​
تو ادھر ادھر کی نہ بات کریہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا​
ہمیں رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے​
تو جواب میں منموہن سنگھ نے کہا​
مانا کہ تیر ی دید کہ قابل نہیں ہوں میں​
تو میر ا شوق تو دیکھ میر ا نتظار دیکھ​
آجکل کوئلہ گھوٹالے کو لے کرحزب اقتدار اور حزب مخالف جماعتوں میں لفظی جنگ بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے ۔اپوزیشن جماعتین ہفتوں سے ایوان کی کاروائی کو چلنے نہیں دے رہہی ہیں و ہ منموہن سنگھ سے استعفی کا مطالبہ کررہی ہیں آج اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر اپنی نار اضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا​
ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی​
نہ جانے کتنے سوالوں کے آبرو رکھے​
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی میرا تعلق مٹیا برج اور خضر پور دونوں جگہوں سے ہے مگر آپ یہ بتائیں آپ مٹیابرج سے کیسے واقف ہیں

لکھنؤ کے آخری نواب کو مع اہل و عیال وہیں پر جلاوطن کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔ نیز کلکتہ میں اردو اور عزاداری کا مرکز مٹیابرج کو ہی کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں چونکہ تھوڑا بہت کہیں پڑھ چکا ہوں اس لیے واقف ہوں، آپ نے اپنا تعلق مغربی بنگال سے بتایا تو میں نے سوچا ہو سکتا ہے آپ مٹیابرج سے ہوں۔

خضرپور البتہ مجھے نہیں معلوم کہاں واقع ہے۔
 

افضل حسین

محفلین
لکھنؤ کے آخری نواب کو مع اہل و عیال وہیں پر جلاوطن کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔ نیز کلکتہ میں اردو اور عزاداری کا مرکز مٹیابرج کو ہی کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں چونکہ تھوڑا بہت کہیں پڑھ چکا ہوں اس لیے واقف ہوں، آپ نے اپنا تعلق مغربی بنگال سے بتایا تو میں نے سوچا ہو سکتا ہے آپ مٹیابرج سے ہوں۔

خضرپور البتہ مجھے نہیں معلوم کہاں واقع ہے۔
خضر پور ،مٹیابرج کے بغل میں واقع ہےاگر آپ مٹیابرج جانا چاہتے ہیں تو آپ کو خضر پور سے ہو کر گزر ناُ پڑے گا آپ کو مزید معلومات فراہم کررہاہوں
آپ نے صحیح کہا کہ نواب واجد علی شاہ کو مٹیا برج میں جلا وطن کیا گیا تھا۔
اردو کا کلکتے سے بڑا قدیمی تعلق ہے اردو کا سب سے پہلا اخبار "جام جہاں نما" یہیں سے جاری ہوا ۔یہاں سے آج اردو کے پانچ روزنامہ شائع ہوتے ہیں ۔ابھی گزشتہ دو تین ماہ قبل ریاستی حکومت نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیاہے ۔
 

افضل حسین

محفلین
بات دراصل یہ ہے کہ آزادی سے قبل فارسی سرکاری زبان تھی پھر انگریزوں نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ اور پھر اردو کی جگہ انگریزی کو فروغ دینا شروع کیا جب فارسی دفتری زبان تھی اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں فارسی سیکھتے تھے کیوں کہ بغیر اس کے سرکاری نوکری کا حصول مشکل تھا
 

حسان خان

لائبریرین
بات دراصل یہ ہے کہ آزادی سے قبل فارسی سرکاری زبان تھی پھر انگریزوں نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ اور پھر اردو کی جگہ انگریزی کو فروغ دینا شروع کیا جب فارسی دفتری زبان تھی اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں فارسی سیکھتے تھے کیوں کہ بغیر اس کے سرکاری نوکری کا حصول مشکل تھا

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ کاش برصغیر کے مسلمانوں کی دفتری، ادبی اور بول چال کی زبان فارسی ہی رہتی۔۔۔ اور کاش آزادی کے بعد پاکستان کی قومی (یا سرکاری) زبان فارسی مقرر کی جاتی، اس طرح ہمارا گوروں کی آمد سے قبل کی 800 سالہ تاریخ سے رشتہ اور تسلسل نہیں ٹوٹتا۔۔ خیر یہ میرا ذاتی خیال ہے جس سے بیشتر لوگ اختلاف کریں گے۔
 

افضل حسین

محفلین
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ کاش برصغیر کے مسلمانوں کی دفتری، ادبی اور بول چال کی زبان فارسی ہی رہتی۔۔۔ اور کاش آزادی کے بعد پاکستان کی قومی (یا سرکاری) زبان فارسی مقرر کی جاتی، اس طرح ہمارا گوروں کی آمد سے قبل کی 800 سالہ تاریخ سے رشتہ اور تسلسل نہیں ٹوٹتا۔۔ خیر یہ میرا ذاتی خیال ہے جس سے بیشتر لوگ اختلاف کریں گے۔
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس کے مطابق فارسی کبھی بھی عام آدمی کے لئے اظہار کا ذریعہ نہیں رہی ، یہ نوکر شاہوں علما اور شرفا کی زبان ۔ہاں یہ درست ہے کہ علما کی زبان رہنے کی وجہ سے اسلامی معلومات کا عظیم خزانہ اس زبان میں پنہاں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس کے مطابق فارسی کبھی بھی عام آدمی کے لئے اظہار کا ذریعہ نہیں رہی ، یہ نوکر شاہوں علما اور شرفا کی زبان ۔ہاں یہ درست ہے کہ علما کی زبان رہنے کی وجہ سے اسلامی معلومات کا عظیم خزانہ اس زبان میں پنہاں ہے۔

عبرانی بھی دو ہزار سالوں تک عام لوگوں کی زبان نہیں تھی، مگر اسرائیل کے قیام کے بعد انہوں نے قومی حمیت کے مارے اپنی مردہ زبان کو زندہ کیا اور اب وہ عام اسرائیلی کی بول چال کی زبان ہے۔ ایسا یہاں بھی ممکن تھا۔ ایران کے پاکستان میں تعینات پہلے سفیر نے تو اس بات پر حیرت بھی ظاہر کی تھی کہ آزادی کے بعد بھی پاکستان نے قومی زبان فارسی کیوں نہیں مقرر کی، آخر اسی میں تو یہاں کے مسلمانوں کا سارا دینی، علمی، ادبی، تہذیبی اور تاریخی خزانہ پنہاں ہے۔۔۔ خیر، جو ہوا سو ہوا، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہند و پاک میں ایسے افراد ابھی تک موجود ہیں جو فارسی اچھی طرح جانتے ہیں، اور ہم نے بہت حد تک اردو کا رشتہ اپنی کلاسیکی زبان فارسی سے برقرار رکھا ہوا ہے۔
 

افضل حسین

محفلین
عبرانی بھی دو ہزار سالوں تک عام لوگوں کی زبان نہیں تھی، مگر اسرائیل کے قیام کے بعد انہوں نے قومی حمیت کے مارے اپنی مردہ زبان کو زندہ کیا اور اب وہ عام اسرائیلی کی بول چال کی زبان ہے۔ ایسا یہاں بھی ممکن تھا۔ ایران کے پاکستان میں تعینات پہلے سفیر نے تو اس بات پر حیرت بھی ظاہر کی تھی کہ آزادی کے بعد بھی پاکستان نے قومی زبان فارسی کیوں نہیں مقرر کی، آخر اسی میں تو یہاں کے مسلمانوں کا سارا دینی، علمی، ادبی، تہذیبی اور تاریخی خزانہ پنہاں ہے۔۔۔ خیر، جو ہوا سو ہوا، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہند و پاک میں ایسے افراد ابھی تک موجود ہیں جو فارسی اچھی طرح جانتے ہیں، اور ہم نے بہت حد تک اردو کا رشتہ اپنی کلاسیکی زبان فارسی سے برقرار رکھا ہوا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ یہودی کتنےمنظم ہیں ان کی شرح خواندگی کتنی زیادہ اس کے برعکس مسلمانوں بالخصوص برصغیر کی کیا صورتحال ہے سب پر واضح ہے ۔سب کی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہے۔
 
Top